- مصنف, جیریمی بال اور خوش سمیجا
- عہدہ, بی بی سی نیوز، لیسٹر اور ایسٹ مڈ لینڈز
- 22 منٹ قبل
61 سالہ پرمجیت کور 2015 میں انڈیا سے اپنے شوہر ہرویندر سنگھ کے پاس برطانیہ آئی تھیں۔ کئی برس انھوں نے اپنے شوہر کے ساتھ برطانیہ کے شہر لیسٹر میں متعدد گارمنٹس کی فیکٹریوں میں بطور سلائی مشین آپریٹر کام کیا۔2015 میں جب وہ برطانیہ آئی تھیں، اس وقت گارمنٹس فیکٹریوں کے مزدوروں کو فیکٹری مالکان کی جانب سے طے شدہ کم از کم اجرت کی عدم ادائیگی کا سامنا تھا۔ ملبوسات تیار کرنے والی یہ فیکٹریاں معمول کے مطابق مزدوروں کو طے شدہ کم از کم فی گھنٹہ اجرت سے کہیں کم ادا کر رہی تھیں۔پرمجیت کور نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں انگریزی زبان بولنی نہیں آتی تھی اور نوکری کی بھی سخت ضرورت تھی۔ اس لیے انھوں نے لیسٹر میں کئی سالوں تک ایسی فیکٹریوں میں کام کیا جہاں انھیں فی گھنٹہ تین پاؤنڈ سے پانچ پاؤنڈ تنخواہ ملتی تھی۔انھوں نے بتایا کہ کچھ فیکٹریوں کے مالکان جعلی دستاویزات تیار کرتے تھے۔ ان میں ظاہر کیا جاتا تھا کہ مزدوروں کو طے شدہ اجرت دی جا رہی ہے۔
کچھ عرصے قبل لیسٹر شہر برطانیہ میں گارمنٹس کی صنعت کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔ ’نیکسٹ‘جیسے بڑے بڑے ریٹیلر برانڈز سے ہزاروں لوگوں کا روزگار جڑا ہوا تھا۔ریٹیلرز کو کم وقت میں کپڑوں کے بڑے آرڈرز فراہم کرنے کے لیے ان فیکٹریوں کے مالکان نے سینکڑوں مزدوروں کو ملازمت دی ہوئی تھی۔ان فیکٹریوں میں مزدوروں کے استحصال کے بارے میں خبریں آتی رہتی تھیں۔ تاہم کورونا وبا کے دوران کپڑوں کے آن لائن آرڈرز میں اضافہ ہوا جس کے باعث لیسٹر میں واقع فیکٹریوں نے ملازمین کی تعداد بڑھا دی۔ان دنوں فیکٹریوں میں کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے حفاظتی تدابیر کا جائزہ لیا گیا۔ جائزے کی رپورٹ میں سامنے آیا کہ فیکٹریوں میں حفاظتی تدابیر پر عمل نہ ہونے کے ساتھ ساتھ ان فیکٹری ملازمین کا کئی طریقوں سے استحصال ہو رہا ہے۔
’ہم مجبور تھے، ہمیں ٹیکس اور بل ادا کرنا تھے‘
ماضی کو یاد کرتے ہوئے پرمجیت کور نے بتایا کہ کم تنخواہ کے علاوہ دیگر فیکٹریوں میں انھیں کسی بھی قسم کی چھٹی حتیٰ کے بیماری کے لیے بھی چھٹی کرنے پر ان کی تنخواہ کاٹ لی جاتی تھی۔’ہماری تنخواہ کی رسید پر لکھا ہوتا تھا کہ ہمیں مکمل تنخواہ دی گئی ہے۔ لیکن جب تنخواہ بینک اکاؤنٹ میں آ جاتی تھی تو مجھ سے کہا جاتا تھا کہ میں وہ رقم واپس کروں۔‘’میں یہ رقم نقد واپس کرتی تھی۔ تین چار فیکٹریوں میں یہی تجربہ رہا۔‘جب پرمجیت کور سے پوچھا گیا کہ وہ پیسے کیوں واپس کرتی تھیں تو انھوں نےکہا کہ ’یہ کام کرتے ہوئے مجھے گندا محسوس ہوتا تھا لیکن مجھے نوکری کی ضرورت تھی۔ اور کوئی بھی فیکٹری اس سے زیادہ تنخواہ نہیں دے رہی تھی۔‘وہ کہتی ہیں کہ ’ہم مجبور تھے۔ ہمیں ٹیکس بھرنا تھا۔ گیس کا بل اور گھر کا کرایہ ادا کرنا تھا۔ بل بڑھتے چلے جا رہے تھے۔‘وہ بتاتی ہیں کہ ’بہت مایوسی تھی لیکن وہ لوگ بس یہی کہتے رہتے تھے کہ کام کرتے رہو۔ کام کرتے رہو۔‘
پرمجیت کور انڈیا کے ان متعدد مزدوروں میں سے ایک ہیں جنھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ لیسٹر کی مختلف گارمنٹ فیکٹریوں میں پانچ پاؤنڈ فی گھنٹہ یا اس سے بھی کم اجرت میں کام کرتے رہے ہیں۔یہ رقم سرکار کی جانب سے طے شدہ کم از کم تنخواہ سے بہت کم ہے۔ حال میں 21 سال سے زیادہ عمر کے افراد کے لیے 11.44 پاؤنڈ فی گھنٹہ تنخواہ مقرر کی گئی ہے۔نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ایک 50 سالہ خاتون نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں مختلف گارمنٹس فیکٹریوں میں تھیلوں میں کپڑے پیک کرنے کے کام کے لیے فی گھنٹہ چار پاؤنڈ دیے جاتے تھے۔انھوں نے بتایا ’میں نے سوچا یہ مناسب ریٹ ہے اور آج کل یہی چل رہا ہے۔ زیادہ تر لوگوں کو یہی تنخواہ مل رہی تھی۔ میری مجبوری تھی کیونکہ میں جو بھی کماتی تھی اس میں سے بچت کر کے واپس انڈیا پیسے بھیجتی تھی۔ میں اپنے والدین، اپنی بہن اور بھانجیوں کا خرچہ اٹھا رہی تھی۔‘
’کم اجرت اور سوشل سیکورٹی کھونے کا خوف‘
کورونا وبا کے دوران جب لیسٹر کی گارمنٹ انڈسٹری میں مزدوروں کے استحصال کی خبریں سامنے آئیں تو کچھ ریٹیل برانڈز نے مل کر گارمنٹس فیکٹریوں کے مزدوروں کے حقوق کی حفاظت کے لیے اقدام اٹھایا۔2022 میں ’فیشن ورکرز بیورو-لیسٹر‘ (فیب ایل) نامی ایک گروپ قائم کیا گیا۔ اس گروپ کو آٹھ برانڈز بشمول نیکسٹ اور دو ٹریڈ یونینوں کے ذریعے مالی اعانت فراہم کی جاتی ہے۔یہ برانڈز اصرار کرتے ہیں کہ فیب ایل کے افسران کو فیکٹریوں کا جائزہ لینے دیا جائے تاکہ مزدوروں کی مدد کی جا سکے۔فیب ایل سے منسلک طارق اسلام کا کہنا ہے کہ اکثر فیکٹریوں کے مزدوروں کی انگریزی کمزور ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ استحصال کا شکار ہو جاتے ہیں۔طارق اسلام نے بی بی سی کو بتایا کہ ’لوگ گارمنٹ فیکٹریوں میں اتنی کم اجرت پر کام کرنے کے لیے اس لیے آمادہ ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ ڈرتے ہیں۔ اگر وہ نوکری نہیں کریں گے تو برطانیہ میں ملنے والی سوشل سکیورٹی کھو دیں گے۔‘طارق اسلام نے مزید بتایا کہ فیکٹری مالکان لوگوں کو کم اجرت پر کام کرنے کے لیے یہ کہہ کر قائل کرتے ہیں کہ وہ ان پر ’احسان‘ کر رہے ہیں۔ مالکان کہتے ہیں کہ وہ طے شدہ کم از کم اجرت والی نوکری دے کر ان لوگوں کو ملازمت کا تجربہ حاصل کرنے کا موقع دے رہے ہیں۔انھوں نے کہا کچھ گارمنٹ فیکٹریاں لوگوں سے بلا معاوضہ کام کرنے کا یا انھیں تنخواہ دے کر ان سے نقد رقم واپس لینے کا مطالبہ کرتی ہیں۔ تاہم کمپنی کے آڈٹ میں یہی ظاہر کیا جاتا ہے کہ تمام ملازمین کو ’مکمل تنخواہ‘ کی ادائیگی کی گئی ہے۔طارق اسلام نے بتایا کہ ’فیکٹری مالکان 18 گھنٹے مزدوری کے عوض پے سِلپ بنا کر ان سے 36 گھنٹے کام کرواتے ہیں۔ لہٰذا کاغذی کارروائی میں بظاہر سب کچھ ٹھیک نظر آتا ہے۔ مالکان یہ بھی کرتے ہیں کہ لوگوں کے اکاؤنٹ میں پوری تنخواہ جمع کر کے آڈٹ میں پاس ہو جاتے ہیں۔ پھر مزدوروں سے کہا جاتا ہے کہ انھیں پانچ یا چھ پاؤنڈ کی اجرت پر اتفاق کر کے ملازمت پر رکھا گیا تھا۔ ان کے اکاؤنٹ میں جو اضافی رقم آئی ہے، وہ رقم واپس کریں۔‘طارق نے بتایا کہ گارمنٹس فیکٹریوں میں مزدوروں کا استحصال ایک ’معمول‘ کی بات ہے۔تاہم وہ کہتے ہیں کہ ’کئی برانڈز نے اپنے آڈٹ کے عمل کو سخت کر لیا ہے۔ ہم نے جن ملازمین سے بات کی ہے ان میں سے اکثر کا کہنا ہے کہ اب انھیں طے شدہ کم از کم اجرت دی جا رہی ہے۔‘فیب ایل نے 2022 سے لے کر اب تک گارمنٹ فیکٹریوں کے 90 مزدوروں کو مجموعی طور پر ایک لاکھ 80 ہزار پاؤنڈز کی واپسی کی ادائیگی میں مدد کی ہے۔تاہم فیب ایل کے طارق اسلام کا ماننا ہے کہ یہ کہانی کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔گارمنٹ فیکٹری میں کام کرنے والی ایک خاتون کا ذکر کرتے ہوئے طارق اسلام نے بتایا کہ فیکٹری مالکان کی جانب سے ان کے پانچ ہزار پاؤنڈز واجب الادا ہیں۔’وہ یہ بتاتے ہوئے رو پڑیں کیونکہ ان کے شوہر صورتحال سے آگاہ نہیں ہیں۔ انھیں ڈر ہے کہ ان کے شوہر ان پر پر فضول خرچی کا الزام لگا دیں گے۔‘جب طارق اسلام نے معاملے کی چھان بین کی تو معلوم ہوا کہ اسی فیکٹری کے 60 مزدوروں کو تین ماہ سے تنخواہ نہیں ملی ہے۔اس بات کے سامنے آنے کے بعد انھوں نے اور جانچ پڑتال کی تو معلوم ہوا کہ فیکٹری کو بھی عدم ادائیگیوں کا سامنا ہے۔ تاہم فیب ایل نے تمام متاثرین کو ان کے پیسے واپس کرنے میں مدد کی۔طارق نے مزید بتایا کہ گارمنٹ فیکٹریوں کی جانب سے مزدوروں کو ان کی کم از کم اجرت دینے پر قائل کرنے کے لیے فیب ایل برانڈز کے ساتھ ’ثالثی‘ کردار ادا کرنے کے لیے کہتا ہے۔’جیسے ہی میں کہتا ہوں کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ مسئلہ حل کرنے کے لیے برانڈز سے بات کی جائے؟ تو فیکٹری مالکان کہتے ہیں ہم آپس میں ہی اس مسئلے کا حل ڈھونڈ لیتے ہیں۔‘طارق اسلام کہتے ہیں کہ برطانیہ کے فیشن برانڈز کوشش کر رہے ہیں کہ ’ان کی عزت بڑھے۔‘ لیسٹر کی فیکٹریوں میں کام کرنے والے کارکنان کا کہنا ہے کہ اب انھیں کم از کم اجرت مل رہی ہے۔تاہم کئی لوگ اپنی نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں کیونکہ برانڈز کو ملبوسات فراہم کرنے والی کمپنیوں نے اپنا کاروبار بیرون ملک منتقل کر دیا ہے۔بی بی سی کی جانب سے کیے گئے اندازوں میں سامنے آیا ہے کہ جب لیسٹر شہر کی گارمنٹ فیکٹریوں پر سختیاں لاگو کی گئیں تب سے کئی فیکٹریاں بند ہو چکی ہیں۔
لیسٹر کی ٹیکسٹائل صنعت گراوٹ کا شکار
ملبوسات اور ٹیکسٹائل مینوفیکچررز کی فیڈریشن کا خیال ہے کہ لیسٹر میں پانچ سال پہلے تقریباً 700 کارخانے کام کر رہے تھے جبکہ حال میں صرف 60 سے 100 ہیں۔لیسٹر شائر کی ٹیکسٹائل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن سے تعلق رکھنے والے سعید خلجی کا خیال ہے کہ شہر میں گارمنٹ فیکٹریز کے سکینڈل کی وجہ سے کپڑے کا کاروبار کرنے والوں کو ’شدید نقصان‘ پہنچا ہے جو پہلے سے ہی منافع کمانے کے لیے جدوجہد کر رہے تھے۔ان کا کہنا ہے کہ لیسٹر شہر میں گارمنٹ فیکٹریز کے سکینڈل کے بعد کئی ریٹیلرز نے اپنا کاروبار دیگر جگہوں پر منتقل کر دیا ہے۔کپڑوں کی درآمد اور برآمد کا کاروبار کرنے والے الکیش کپاڈیہ کا خیال ہے کہ یہ سکینڈل لیسٹر کے کاروباری ماڈل کے لیے بھی ایک سنگین دھچکا تھا۔ان کا کہنا ہے کہ جس بزنس ماڈل کے تحت فیکٹریز اپنا کاروبار چلا رہی تھیں، اس میں ان کا زیادہ تر انحصار ریٹیلرز کے بڑی مقدار پر مبنی آرڈرز پر تھا جبکہ آن لائن برانڈز کو ہر ڈیزائن کی بہت کم مقدار کی ضرورت ہوتی ہے۔الکیش کپاڈیہ لیسٹر میں اپنی فیکٹریز سے امریکہ، کینیڈا اور انڈیا جیسے ممالک میں کپڑے برآمد کرتے تھے۔لیکن ان کا کہنا ہے کہ گذشتہ 12 سے 18 مہینوں میں انھیں 2.5 ملین پاؤنڈز کا نقصان ہوا ہے کیونکہ ریٹیلرز نے ایسے وقت کم قیمتوں میں کپڑے خریدنے کا مطالبہ کیا جب لاگت میں اضافہ ہوا۔اب ان کی کمپنی نے پیداوار کو مراکش، ترکی اور تیونس کی فیکٹریز میں منتقل کر دیا ہے جہاں مینوفیکچرنگ کی لاگت سستی ہے۔الکیش کپاڈیہ کہتے ہیں ’فیشن میرا جنون تھا۔ میرا خاندانی نام کپاڈیہ جس کے معنی ہیں کپڑا۔ ہم 200 برس سے کپڑا بناتے آ رہے ہیں۔ اگر میں اپنا کاروبار بند کر دوں تو میرے (مرحوم) والد بہت افسردہ ہوں گے۔‘سعید خلجی اپنے کپڑوں کے بزنس کے لیے لیسٹر کی چھ فیکٹریز کے ساتھ کاروبار کرتے تھے لیکن اب وہ صرف درآمد اور برآمد کا کاروبار کرتے ہیں کیونکہ برطانیہ میں فیکٹریز چلانا ناقابل برداشت ہو گیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ’ایک کارخانے کے مالک کے طور پر ہم نہ صرف کم از کم اجرت ادا کرتے ہیں بلکہ قومی انشورنس، کرایہ، بجلی کے بل کی بھی ادائیگیاں ہوتی ہیں۔ کسی بھی چیز کی قیمت کم نہیں ہوئی ہے۔‘انھوں نے مزید کہا کہ ’لیسٹر میں 95 فیصد فیکٹریز جائز طریقہ کار کے ساتھ کام کر رہی تھیں لیکن انھیں منافع میں جدوجہد کا سامنا تھا۔ تاہم ان پانچ فیصد بُری فیکٹریز کی وجہ سے سب بدنام ہو گئے۔‘،تصویر کا ذریعہAlkesh Kapadiaکورونا وبا کے دوران آرڈرز منسوخ ہونے کے بعد سعید خلجی کی فیکٹری دوبارہ نہیں کھلی۔’ہمیں اپنے تمام آرڈرز پر کام روکنا پڑا کیونکہ ریٹیلرز نے آرڈر کینسل کر دیے تھے۔ وہ کپڑے فروخت نہیں کر پا رہے تھے۔ جب گاہکوں نے ریٹیلرز کے پاس دیے آرڈر کینسل کیے تو ہاری ادائیگی نہیں کر پا رہے تھے۔‘سعید خلجی کا کہنا ہے ان کے پاس مال بچ گیا ہے جسے وہ فروخت نہیں کر سکتے۔ اب وہ اسے عطیہ کریں گے۔ان کے مطابق لیسٹر میں گارمنٹس کی فیکٹریز کا ’کوئی مستقبل نہیں ہے۔‘ الکیش کپاڈیا بھی ان سے اتفاق کرتے ہیں۔ الکیش کپاڈیا کہتے ہیں کہ ’ہمیں خدشہ ہے کہ اس صورتحال کو سنبھالا نہیں گیا تو لیسٹر شہر غرق ہو جائے گا۔ اب کوئی اقدام لے بھی لیا جائے تو اس صنعت کو بچانا بہت مشکل ہے۔‘دونوں الکیش کپاڈیا اور سعید خلجی اب بھی لیسٹر میں رہائش پذیر ہیں لیکن دونوں نے اپنے اپنے آن لائن بزنس قائم کیے ہیں تاکہ درآمد شدہ کپڑے براہ راست صارفین کو فروخت کر سکیں۔دوسری جانب غیر سرکاری تنظیم ’لیبر بیہائنڈ دی لیبل‘ گارمنٹس کی صنعت کو بچانے کے لیے ایک مہم چلا رہی ہے۔ ان کی کوشش ہے کہ برانڈز اپنی مصنوعات کا کم از کم ایک فیصد لیسٹر کی فیکٹریوں سے آرڈر کرنے کا عہد کریں۔تاہم فیب ایل کے طارق اسلام کا کہنا ہے کہ برانڈز کو بیرون ملک گارمنٹس فیکٹریز کے مزدوروں کے استحصال پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔انھوں نے کہا کہ ’تصور کریں وہاں کیا استحصال ہو رہا ہے۔ بچوں سے مزدوری کروائی جا رہی ہے جبکہ فیکٹریز میں ٹریڈ یونینز کا قتل ہو رہا ہے۔ ایک برانڈ جو برطانیہ میں کپڑے بناتا ہے چاہے اس میں استحصال ہی کیوں نہ ہو رہا ہو، وہ اس برانڈ سے بہتر ہوگا جو بیرون ملک کپڑے بناتا ہے۔‘لیسٹر کی ڈے مونٹ فرٹ نامی یونیورسٹی کی پروفیسر ریچل گرینجر صنعت کی ماہر ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ لیسٹر کی گارمنٹس کی صنعت تبھی بحال ہو سکے گی جب نئی روبوٹک ٹیکنالوجی میں قابل قدر سرمایہ کاری ہو اور معیار پر توجہ دی جائے۔وہ کہتے ہیں کہ ’ایک دہائی پہلے جرمنی کو بھی یہی مسئلہ درپیش تھا۔ انھوں نے روبوٹس میں سرمایہ کاری کی۔ ہمارے پاس سرمایہ کاری کے وسائل نہیں ہیں۔ یہ مسئلے کی جڑ ہے۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.