تین برس میں سات حکومتوں کی چھٹّی: افریقہ میں فوجی بغاوت کی لہر کیوں زور پکڑ رہی ہے؟
- مصنف, نوربرتوپیردیز
- عہدہ, بی بی سی نیوز
افریقہ میں ایک اور سابق فرانسیسی کالونی میں فوج نے حکومت کا تختہ الٹ دیا ہے۔
نائجر کے صدر محمد بازوم کو ان کے اپنے صدارتی محافظ کے ہاتھوں یرغمال بنائے جانے کے صرف ایک ماہ بعد گذشتہ ہفتے گیبون کی فوج نے منتخب رہنما علی بونگو سے اقتدار چھین لیا اور انھیں گھر میں نظر بند کر دیا۔
یوں نائیجر اور گیبون فوجی بغاوتوں کے اس سلسلے کا حصہ بن گئے جو کہ حالیہ برسوں میں سب صحارا افریقہ، جو دنیا کے غریب ترین اور غیر مستحکم خطوں میں سے ایک ہے، میں رونما ہوئی ہیں۔
بغاوت کی تعریف عام طور پر فوجی یا دیگر سویلین حکام کی طرف سے مسند اقتدار پر برجمان رہنماؤں کا چلتا بنانے کے طورپر کی جاتی ہے۔
اگرچہ مختلف ممالک کے آزاد ہونے کے بعد افریقہ میں ایسی بغاوتوں کی تعداد زیادہ تھی مگر 1960 اور 1990 کی دہائی کے درمیان اوسطاً ہر سال تقریباً چار فوجی بغاوتیں ہوئیں۔
سنہ 2000 سے شروع ہونے والی بغاوتوں کی تعداد میں بتدریج کمی واقع ہوئی ہے۔ لیکن حالیہ برسوں میں افریقہ میں ایسی فوجی بغاوتیں دوبارہ دیکھنے میں آئی ہیں۔
نائجر اور گیبون سے پہلے، یہ برکینا فاسو تھا، جہاں 2022 میں ایک نہیں بلکہ دو ایسی بغاوتیں ہوئیں۔
گذشتہ برس جنوری میں اس وقت کے برکائن کے صدر روچ مارک کرسچن کابورے کو فوج نے معذول کر دیا تھا، جس کے صرف آٹھ ماہ بعد 30 ستمبر کو نچلے درجے کے فوجیوں نے اپنے ہی کمانڈر کو معذول کر دیا تھا۔
سنہ 2020 اور سنہ 2021 کے درمیان پانچ افریقی ممالک میں بغاوتیں ہوئیں۔ ان ممالک میں چاڈ، مالی، گنی، سوڈان اور نائجر شامل ہیں۔ واضح رہے کہ مالی میں دو بار فوجی بغاوت ہوئی۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گیترس نے سنہ 2021 میں کہا تھا کہ فوجی بغاوتوں کا پھر سے دور دورہ ہے جبکہ بین الاقوامی برادری کے درمیان اتحاد کا فقدان پایا جاتا ہے۔
دو سال بعد بھی ان کے الفاظ درست ثابت ہوئے۔ لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نئی لہر کس وجہ سے ہے؟
غیرجانبدار متبادل حکومتی ماڈل
کیمرون کے سیاسی تجزیہ کار لیونارڈ ایمبولے کا کہنا ہے کہ بغاوت افریقہ میں ایک نیا رجحان بن گئی ہے۔
بی بی سی منڈو کے ساتھ ایک انٹرویو میں وہ کہتے ہیں کہ ’ہم مزید یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ ایک الگ تھلگ معاملہ ہے۔
افریقی سیاست کے ماہر نے یقین دلایا کہ حالیہ برسوں میں جن ممالک میں بغاوتیں ہوئی ہیں وہاں کئی مستقل عوامل موجود ہیں۔
ان کے مطابق ’ان سب عوامل میں خراب گورننس، طاقت کا غلط استعمال، پست معیشیت اور کچھ معاملات میں ایسے لیڈر تھے، جنھوں نے انتخابات میں دھاندلی کی۔‘
لیونارڈ کے مطابق بہت سے افریقیوں کی فوج کو ایک قابل عمل متبادل کے طور پر دیکھنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ اقتدار سے بے دخل کیے گئے رہنماؤں میں سے بہت سے حکمرانوں نے کسی خاص نسلی گروہ یا علاقے کی حمایت کی تھی یا عوام کے بجائے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے اپنی پارٹی پر زیادہ محنت کی ہے۔
’فوج کو ایک غیر جانبدار ادارے کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو قوم کے فائدے کے لیے کام کر سکتا ہے۔‘
’نیو کالونیلسٹ‘ پالیسیوں کی مذمت
سوڈان کے علاوہ یہ تمام اقوام سابق فرانسیسی کالونیاں رہ چکی ہیں، جو اپنی آزادی کے بعد سے یورپی ملک کے اثر و رسوخ کے دائرے میں رہیں یا جسے ’فرانزافریقہ‘ کہا جاتا ہے۔
سنہ 1990 کے بعد سے سب صحارا افریقہ میں ہونے والی 29 بغاوتوں میں سے تقریباً 80 فیصد بغاوتیں سابق فرانسیسی کالونیوں میں ہوئی ہیں۔
ماہرین کے مطابق یہ محض اتفاق نہیں ہیں بلکہ ان کی وجوہات تلاش کی جا سکتی ہی۔
افریقہ میں بہت سے لوگ اکثر علاقائی عدم استحکام کی وجہ فرانس کو قرار دیتے ہیں جو کہ ایک سابقہ نوآبادیاتی طاقت ہے جو اب بھی براعظم پر اپنی مضبوط موجودگی برقرار رکھے ہوئے ہے۔
برکینا فاسو، نائجر اور مالی جیسے کئی ممالک میں بغاوت کی تحریکوں میں بھی فرانس مخالف جذبات موجود رہے ہیں، جہاں فرانس کی مبینہ مداخلت کو مسترد کرنے کے لیے مظاہرے کیے گئے ہیں، جن میں عام طور پر یورپی قوم کے جھنڈے جلائے جاتے ہیں۔
مثال کے طور پر نائیجر میں یہ الزامات عائد کیے جاتے ہیں کہ اب سابق صدر محمد بازوم، جنھیں رواں برس جولائی میں اقتدار سے بے دخل کیا گیا، وہ فرانسیسی مفادات کی خدمت کرنے والے محض کٹھ پتلی حکمران تھے۔ بڑی تعداد نے ان کی برطرفی کو جائز قرار دیا۔
مالی میں ستمبر 2022 میں فوجی حکومت کے ذریعے کرنل عبدولے مائیگا وزیر اعظم مقرر کیے گئے جنھوں نے فرانس کی ’نو استعماری، متعصبانہ، پدرانہ اور تجدید پسندانہ پالیسیوں‘ پر تنقید کی۔ ان کے مطابق فرانس ایک ایسا ملک جس نے ’ان کی عالمی اخلاقی اقدار سے انکار کیا تھا‘ اور مالی کی پیٹھ میں چھرا گھونپ تھا۔
افریقہ میں فرانس کی موجودگی
ماہرین نے نشاندہی کی ہے کہ اگرچہ براعظم کی تمام برائیوں کے لیے فرانس کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا، تاہم فرانسیسی نوآبادیاتی حکومت کی طرف سے وسائل نکالنے کے لیے بنائے گئے سیاسی نظام پر وسیع پیمانے پر بات ہوئی ہے۔
اور اپنی سابقہ کالونیوں کو آزادی دینے کے بعد بھی فرانس نے مختلف طریقوں سے براعظم پر اپنی حد سے زیادہ موجودگی کو یقینی بنائے رکھا ہے۔
مغربی افریقہ کی نو فرانسیسی بولنے والی ریاستوں میں سے سات اب بھی ’سی ایف اے فرانک‘ کو اپنی کرنسی کے طور پر استعمال کرتی ہیں، جو کہ یورو سے منسلک ہے اور فرانسیسی خزانے کے زیر کنٹرول ہے۔
مختلف ممالک کے ساتھ طے پانے والے دفاعی معاہدوں کی بدولت فرانس بھی براعظم پر اپنی مضبوط فوجی موجودگی کو برقرار رکھتا ہے حالانکہ حالیہ بغاوتوں نے اس موجودگی کو کافی حد تک کم کر دیا ہے۔
برکینا فاسو کی فوجی حکومت نے فروری میں فرانسیسی فوجیوں کو ملک میں کام کرنے کی اجازت دینے والے ایک دیرینہ معاہدے کو ختم کرتے ہوئے فرانس کو اپنی افواج کو واپس بلانے کے لیے ایک ماہ کا وقت دیا گیا۔
افریقہ وہ براعظم ہے جہاں دنیا میں سب سے زیادہ بغاوتیں ہوئیں۔
سنہ 2017 کے بعد عالمی سطح پر ریکارڈ کی گئی 18 بغاوتوں میں سے، ایک یعنی سنہ 2012 میں میانمار کے علاوہ باقی سب افریقہ میں ہوئیں۔
Comments are closed.