تیل کی پیداوار میں کٹوتی، عالمی قیمتوں میں اضافہ
- مصنف, جیما ڈیمپسی
- عہدہ, بی بی سی نیوز
- مقام لندن
سعودی عرب کی جانب سے جولائی میں یومیہ دس لاکھ بیرل تیل کی کٹوتی کے اعلان کے بعد تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔
تیل پیدا کرنے والے ممالک کے گروپ اوپیک پلس کے دیگر ارکان نے بھی قیمتوں میں اضافے کی کوشش میں پیداوار میں مسلسل کمی پر اتفاق کیا۔
اوپیک پلس دنیا کے خام تیل کا تقریباً 40 فیصد پیدا کرتا ہے اور اس کے فیصلوں کا تیل کی قیمتوں پر بڑا اثر پڑ سکتا ہے۔
پیر کے روز ایشیا میں برینٹ خام تیل کی قیمت میں 2.4 فیصد اضافہ ہوا اور یہ 77 ڈالر فی بیرل پر بند ہوا۔
اوپیک پلس نے کہا کہ 2024 سے پیداوار کے اہداف میں مزید 1.4 ملین بی پی ڈی کی کمی آئے گی۔
تیل کی دولت سے مالا مال ممالک کا اتوار کو سات گھنٹے تک جاری رہنے والا یہ اجلاس توانائی کی گرتی ہوئی قیمتوں کے پس منظر میں ہوا۔
گزشتہ سال جب روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تھا ، لیکن اب یہ تنازع شروع ہونے سے پہلے کی سطح پر واپس آ گیا ہے۔
گزشتہ سال اکتوبر میں اوپیک پلس نے تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم اور اس کے اتحادیوں کے حوالے سے پیداوار میں 20 لاکھ بیرل کمی پر اتفاق کیا تھا جو عالمی طلب کا تقریبا 2 فیصد ہے۔
اس سال اپریل میں گروپ نے مزید کٹوتی پر اتفاق کیا تھا، جو اس سال کے آخر تک جاری رہنے والی تھی۔ تاہم روس کے نائب وزیر اعظم الیگزینڈر نوواک نے کہا کہ اتوار کو ہونے والی بات چیت کے نتیجے میں معاہدے میں 2024 کے اختتام تک توسیع کی گئی۔
اتوار کے روز سعودی وزیر توانائی شہزادہ عبدالعزیز بن سلمان نے کہا تھا کہ اگر ضرورت پڑی تو ان کے ملک میں دس لاکھ بیرل یومیہ کی کٹوتی کو جولائی کے بعد بھی بڑھایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’یہ ایک سعودی لالی پاپ ہے،‘ جسے مارکیٹ کو مستحکم کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
سمیر ہاشمی، مشرق وسطیٰ کے کاروباری نامہ نگار کا تجزیہ
اوپیک پلس کے دو روزہ اجلاس کے آغاز سے قبل یہ توقع کی جا رہی تھی کہ تیل کا کارٹل قیمتوں میں اضافے کے لیے پیداوار میں کٹوتی کرے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ زیادہ تر ارکان اس خیال کے خلاف تھے، کیونکہ کسی بھی کٹوتی سے تیل کی آمدنی متاثر ہوگی، جو ان کی معیشتوں کو چلانے کے لیے اہم ہے۔
سعودی عرب کی جانب سے یومیہ دس لاکھ بیرل تیل کی رضاکارانہ کمی کا فیصلہ غیر متوقع تھا لیکن یہ کوئی بڑی حیرت کی بات نہیں ہے۔ تیل پیدا کرنے والے ملکوں کے رہنما کی حیثیت سے، اور تیل کے سب سے بڑے برآمد کنندہ کے طور پر، یہ واحد ملک تھا جو پیداوار کو کم کرنے کے قابل تھا۔
ریاض کے نقطہ نظر سے یہ ضروری ہے کہ خام تیل کی قیمت 80 ڈالر فی بیرل سے زیادہ رہے۔ سعودی حکام چاہتے ہیں کہ قیمتوں میں اضافہ کیا جائے تاکہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے زیر قیادت منصوبوں پر اربوں ڈالر خرچ ہوتے رہیں کیونکہ وہ مملکت کی معیشت کو تیل سے دور رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
سعودیوں کا یہ اقدام آنے والے مہینوں میں ایندھن کی طلب کے بارے میں غیر یقینی نقطہ نظر کی بھی نشاندہی کرتا ہے۔ عالمی معیشت کے بارے میں خدشات، خاص طور پر امریکہ اور یورپ میں کساد کے خدشات سے خام تیل کی قیمتوں پر مزید دباؤ پڑنے کی توقع ہے۔
یوکرین پر روسی حملے کے دوران تیل پیدا کرنے والے ممالک گرتی ہوئی قیمتوں اور مارکیٹ کے اعلی اتار چڑھاؤ سے نبرد آزما ہیں۔
Comments are closed.