تیل کی دولت سے مالا مال سعودی عرب، لاطینی امریکہ میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے؟
- مصنف, گیلیرمو ڈی اولمو
- عہدہ, بی بی سی نیوز
- 23 منٹ قبل
لاطینی امریکا اور کیریبین ممالک میں ایک نئی طاقت سر اُٹھا رہی ہے جس کا نام ہے سعودی عرب۔سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے’وژن 2030‘ کے اعلان کے بعد سعودی شاہی خاندان کی اس خطے میں دلچسپی بڑھ رہی ہے اور سعودی عرب نے دنیا کو یہاں اپنی اقتصادی اور سفارتی موجودگی کا بھی احساس دلایا ہے۔سنہ 2019 میں سعودی عرب کی لاطینی امریکہ کے لیے برآمدات کا کُل حجم 2 ارب 803 کروڑ ڈالر تھا جو 2023 میں بڑھ کر 4 ارب 581 کروڑ ڈالر تک پہنچ گیا تھا۔اسی طرح لاطینی امریکہ سے سعودی عرب کے لیے درآمدات کا کُل حجم 2019 میں 3 ارب 811 کروڑ ڈالر تھا جو گذشتہ برس بڑھ کر 4 ارب 993 کروڑ تک پہنچ گیا تھا۔
سعودی عرب اور لاطینی امریکہ کے درمیان بڑھتی تجارت کے علاوہ ریاض کی جانب سے اس خطے میں بھاری سرمایہ کاری بھی کی جا رہی ہے۔سعودی عرب تیل کی دولت سے مالا مال ہے اور اس کا شمار دنیا کو تیل فراہم کرنے والے بڑے ممالک میں ہوتا ہے۔ تیل کی مدد سے کمائی جانے والی دولت کا کچھ حصہ اب سعودی عرب، لاطینی امریکہ اور کیریبین ممالک میں بھی لگا رہا ہے۔گیانا نے گذشتہ برس نومبر میں اعلان کیا تھا کہ سعودی عرب نے آئندہ برسوں میں کیریبین ممالک میں ڈھائی ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا وعدہ کیا ہے۔دوسری جانب سعودی عرب کی سرکاری آئل کمپنی آرامکو نے چلّی میں ملک کی ایک بڑی تیل فراہم کرنے والی کمپنی بھی خریدی ہے اور وہ وہاں اپنے کاروبار کو وسعت دینے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔برازیل میں مڈل ایسٹ سٹڈیز اینڈ ریسرچ گروپ نامی تھنک ٹینک سے منسلک محقق نجد خوری نے بی بی سی منڈو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ تمام اقدامات اچھے تعلقات کی طرف پہلا قدم ہیں۔‘اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سعودی عرب، لاطینی امریکہ اور کریبین ممالک کے درمیان تعلقات آگے بڑھ رہے ہیں۔سعودی وزیر برائے سرمایہ کاری خالد الفالح نے اگست 2023 میں اس خطے میں سات ممالک کا دورہ کیا تھا اور اس دوران انھوں نے کہا تھا کہ وہ ’یہاں سرمایہ کاری کے مواقع ڈھونڈنے آئے ہیں اور سرمایہ کاری پر مبنی شراکت داری کو مضبوط کرنے کے خواہاں ہیں۔‘
سعودی عرب کا ’وژن 2030‘
جب سنہ 2015 میں شاہ سلمان نے سعودی عرب میں بادشاہت سنبھالی تو انھوں نے اپنے ساتویں بیٹے محمد بن سلمان کو ولی عہد کے منصب پر فائز کر کے دنیا کو حیران کر دیا تھا۔محمد بن سلمان اس وقت صرف 32 برس کے تھے لیکن وہ اپنے تمام بھائیوں کے مقابلے میں اپنے والد شاہ سلمان سے زیادہ قریب تھے۔واشنگٹن میں عرب گلف سٹڈیز انسٹٹیوٹ سے منسلک تجزیہ کار ٹم کیلن کہتے ہیں کہ محمد بن سلمان ’ایک بڑے منصوبے کے ساتھ سامنے آئے جس کا مقصد معیشت کو تنوع بخشنا، تیل پر انحصار کم کرنا اور تنگ نظر سعودی معاشرے کو بدلنا تھا۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
سعودی عرب لاطینی امریکہ اور کیریبین ممالک میں دلچسپی کیوں لے رہا ہے؟
محقق نجد خوری کے مطابق ’سعودی عرب لاطینی امریکہ اور کیریبین میں سرمایہ کاری کرنے میں اس لیے دلچپسی لے رہا ہے کیونکہ وہاں مستحکم ممالک ہیں اور جنگیں بھی نہیں ہو رہیں۔‘’لاطینی امریکہ اور کریبین ممالک کو سرمایہ کاری کی ضرورت ہے اور سعودی عرب کے پاس سرمایہ کاری کرنے کے لیے بہت ساری دولت موجود ہے۔‘اس خطے میں لیتھیم، نکل اور تانبے جیسی چیزیں موجود ہیں جو صحرائی عرب ملک میں ناپید ہیں اور مسقبل میں ان تمام چیزوں کی تعزویراتی اہمیت میں بھی اضافہ ہوگا۔یہ وہ چیزیں ہیں جو دنیا سے تیل کے ذخائر ختم ہونے کے بعد دنیا کی معیشت کے لیے اہم ہوں گی اور یہ سب جنوبی امریکہ میں وافر مقدار میں موجود ہیں۔سعودی عرب کی معیشت کو تیل سے جُدا کرنا مشکل ہو گا لیکن ریاض نے ابھی سے برقی توانائی کی طرف جانے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا ذریعہGetty Images
سعودی عرب اور برازیل کے تعلقات
سعودی عرب اور لاطینی امریکہ کے ممالک درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات کا راستہ برازیل سے ہوتے ہوئے گزرتا ہے۔ دونوں ممالک اپنے سیاسی اور اقتصادی تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔سعودی وزیر برائے سرمایہ کاری نے اپنے حالیہ دورہ برازیل میں اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ سعودی عرب برازیل میں اور برازیل سعودی عرب میں بڑی سرمایہ کاری کرے۔ انھوں نے کہا تھا اس کا مقصد ’گلوبل ساؤتھ میں تبدیلی لانا اور مشترکہ اقدار کو فروغ دینا ہے۔‘برازیل کے صدر لوئیز لولا ڈی سلوا سمجھتے ہیں کہ یہ ایک اچھا آئیڈیا ہے۔ اپنے حالیہ دورہ ریاض کے موقع پر انھوں نے کہا تھا کہ ’ہم صرف اس بات میں دلچپسی نہیں رکھتے کہ سعودی عرب برازیل میں کتنی سرمایہ کاری کرسکتا ہے بلکہ ہمیں اس بات میں بھی دلچسپی ہے کہ برازیل کے کاروباری حضرات سعودی عرب میں کتبی سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔‘سعودی عرب اور برازیل کے درمیان تعلقات حالیہ دور میں تیزی سے آگے بڑھے ہیں۔ برازیل نے بطور مشاہدہ کار سعودی عرب کی دعوت پر ’آرگنائزیشن آف دا پیٹرولیم ایکپسورٹنگ کنٹریز‘ میں بھی شمولیت اختیار کی۔دوسری جانب برازیل نے سعودی عرب کو برکس میں شامل کروایا ہے۔ برکس نامی تنظیم برازیل نے چین، انڈیا، مصر، جنوبی افریقہ، ایتھوپیا، متحدہ عرب امارات اور ایران کے ساتھ مل کر قائم کی تھی۔عرب برازیلین چیمبر آف کامرس کے نائب صدر محمد نوراد کہتے ہیں کہ ’یہ تعلقات سیاسی سے زیادہ کاروباری ہیں اور ایسا اس لیے ہو رہا ہے کیونکہ اس کے سبب دونوں ممالک کے لیے بہت سارے کاروباری اور اقتصادی مواقع پیدا ہوں گے۔‘اگر تجارت کی بات کی جائے تو برازیل سعودی عرب کو حلال فوڈ فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ برازیل سعودی عرب کو چینی، کارن اور حلال گوشت بھی ایکسپورٹ کرتا ہے۔محمد نوراد کہتے ہیں کہ ’برازیل قابلِ تجدید توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور یہ بات بھی سعودی عرب کی دلچسپی کی وجہ ہے۔‘وہ کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ ٹیکنالوجی کے میدان میں دونوں ممالک کے درمیان تعاون کو بڑھانے کی بہت گنجائش موجود ہے۔دوسری جانب نجد خوری کہتے ہیں کہ ’سعودی عرب، لاطینی امریکہ اور کریبین ممالک کے درمیان تعلقات کی ابھی ابتدا ہوئی ہے اور ان تعلقات کے سبب یہاں کاروبار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔‘تاہم وہ کہتے ہیں کہ ان تعلقات کے بیچ میں کچھ ’رکاوٹیں‘ بھی آئیں گی کیونکہ دونوں خطوں کے کلچر اور جغرافیہ مختلف ہیں۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.