چاندی کی کان کی دریافت سے، پہلے ڈالر تک
بوہیمیا اور سیکسونی کو تقسیم کرنے والے پہاڑی جنگلات کبھی بھیڑیوں اور ریچھوں کی آماجگاہ ہوا کرتے تھے۔ لیکن سنہ 1516 میں جب یہاں چاندی کی موجودگی کا انکشاف ہوا تو اس علاقے کی قسمت بدل گئی جس کا نام ’جوخائم‘ رکھا گیا۔،تصویر کا ذریعہEliot Stein
ڈالر سے پہلے امریکہ میں کون سی کرنسی تھی؟
جب شمالی امریکہ میں یورپ سے لوگوں نے منتقل ہونا شروع کیا تو وہ اپنے ساتھ سونا اور انگلش سکے لے کر گئے۔ تاہم یہ لوگ بہت امیر نہ تھے اور ان کے پاس موجود سرمایہ جلد ختم ہو گیا۔جیسن گوڈون نے اپنی کتاب ’آل مائٹی ڈالر اینڈ دی انونشن آف امریکا‘ میں لکھا ہے کہ ان لوگوں کے لیے مقامی آبادی سے لین دین ایک مسئلہ بن گیا۔ تاہم جلد ہی ان کو معلوم ہوا کہ مقامی لوگوں کے لیے ایک سیپ بہت قیمتی ہے جس کے بدلے وہ خوراک اور دیگر ضروریات زندگی جیسا کہ کھالیں ان سے خرید سکتے ہیں۔ یہ سیپ اتنی بیش قیمت ہو گئی کہ میسیچوسٹس کالونی نے 1637 میں اسے باقاعدہ کرنسی کا درجہ دے دیا۔ لین دین کے لیے تمباکو اور مکئی بھی استعمال ہوا کرتے تھے۔تاہم خرید و فروخت کے لیے یہ پیچیدہ نظام کافی مشکلوں کا باعث بن رہا تھا۔ ان مسائل کے حل میں شمالی امریکہ پر حکومت کرنے والے برطانوی بھی ایک رکاوٹ تھے جنھوں نے سونے اور چاندی کے سکوں کی برآمد روک رکھی تھی اور مقامی لوگوں کو اپنے سکے تیار کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتے تھے۔ ایسے میں ہسپانوی سکے بھی بطور کرنسی استعمال ہوئے۔برطانیہ کا یہی رویہ بعد میں ٹیکسوں کے نفاذ سمیت شمالی امریکہ میں بغاوت اور علیحدگی کی وجہ بنا اور 1783 میں امریکی کالونیوں نے برطانیہ کو شکست دے کر آزادی حاصل کر لی۔ تاہم اس جنگ کی وجہ سے تمام ریاستیں معاشی بحران کا شکار ہو گئیں کیوں یہ ایک طویل اور مہنگی جنگ تھی۔ایسے میں امریکی کانگریس نے کاغذی کرنسی کا اجرا کیا لیکن جنگ کے بعد یہ کاغذی کرنسی بے وقعت تھی اور جلد سے جلد نئے ملک کی معیشت کو سنبھالنے کی ضرورت تھی۔ یوں 1785 میں امریکی کانگریس نے نیو یارک میں ایک اجلاس کے بعد ڈالر کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی سرکاری کرنسی کا درجہ دینے کا اعلان کیا۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
ڈالر پر موجود علامت کا کیا مطلب ہے؟
،تصویر کا ذریعہGetty Imagesامریکی ڈالر پر موجود علامت کے بارے میں مصنف ایٹلس شرگڈ نے ایک ناول میں لکھا کہ ’یہ کامیابی، صلاحیت، انسانی تخیل کی علامت ہیں اور یونائیٹڈ سٹیٹس کا مخفف ہے۔‘لیکن یہ واحد نظریہ نہیں۔ اس علامت کے حوالے سے ایک اور روایت یہ ہے کہ سب سے پہلے جب تھالر سکہ کا اجرا ہوا تو اس پر ایک مسیحی کراس پر بل کھاتا سانپ نظر آتا تھا جو ایک مذہبی کہانی کی جانب اشارہ تھا اور امریکی ڈالر کی علامت بھی اسی سکے سے اخذ کی گئی۔ایک اور کہانی کے مطابق یہ علامت ہرکولیس کے ستونوں سے مستعار لی گئی جو قدیم یونانیوں کے دور میں ’سٹریٹ آف جبرالٹر‘ یا ’باب المغرب‘ کو بیان کرنے کے لیے بطور اصطلاح استعمال ہوتا تھا۔ 18ویں اور 19ویں صدی میں ہسپانوی ڈالر پر بھی یہ ستون استعمال کیے گئے تھے۔تاہم جو کہانی سب سے زیادہ مشہور ہے اس کا تعلق ہسپانوی سکوں سے ہے۔ اس کہانی کے مطابق مقامی ہسپانویوں اور سفید فام امریکیوں کے درمیان تجارت میں 1857 تک پیسو استعمال ہوتا تھا جس کا پورا نام ’پیسو ڈی اوچو ریالز‘ تھا۔ تاہم وقت کے ساتھ اس پورے نام کی جگہ صرف انگریزی کا حرف ’پی‘ اور ’ایس‘ استعمال ہونا شروع ہوئے جو گزرتے وقت کے ساتھ موجودہ شکل اختیار کر گئے۔
ڈالر دنیا کی سب سے طاقتور کرنسی کیسے بنا؟
،تصویر کا ذریعہGetty Imagesدوسری عالمی جنگ اختتام پذیر ہو رہی تھی کہ اتحادیوں کو یہ نظر آنا شروع ہوا کہ ان کی اپنی میعشت تباہ ہو چکی تھی۔ انھوں نے سوچنا شروع کیا کہ جب بحالی کا عمل شروع ہو گا تو بین الاقوامی تجارت کس کرنسی میں ہو گی۔اس وقت 44 ممالک کے نمائندے 22 دن کے لیے امریکہ میں بریٹن وڈز قصبے کے ماوئنٹ واشنگٹن ہوٹل میں اکھٹے ہوئے۔یہاں جنگ کے بعد عالمی معیشت اور تجارت کے مستقبل پر مذاکرات ہوئے۔یورپی ممالک جنگ کے نیتجے میں تباہ حال تھے جب کہ امریکہ کے پاس دنیا میں سونے کے سب سے بڑے ذخائر تھے۔ایڈ کونوے اپنی کتاب ’دی سمٹ‘ میں لکھتے ہیں کہ 22 دن تک شدید سیاسی لڑائی اور بحث ہوئی۔اس دوران دو شخصیات میں دو بدو لڑائی بھی ہوئی جس میں برطانوی جان کینز ایک عالمی کرنسی کا تصور لیے ہوئے تھے جبکہ دوسری جانب امریکی محکمہ خزانہ کے ہیری ڈیکسٹر تھے۔اس کانفرنس کے بعد طے ہوا کہ امریکی ڈالر بین الاقوامی تجارت کے لیے استعمال کیا جائے گا اور اسی ملاقات میں بنائے جانے والے ادارے، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک، جنگ کے بعد معاشی مشکل کا سامنا کرتے ممالک کو امریکی ڈالر میں ہی قرض دیں گے۔اس وقت کس نے سوچا ہو گا کہ ان مذاکرات کے نتیجے میں جدید بین الاقوامی معیشت کا بنیادی ڈھانچہ قائم کیا جا رہا ہے جو آج تک قائم ہے۔ یہ تحریر اسلام آباد سے زبیر اعظم نے بی بی سی پر ماضی میں شائع ہونے والے متعدد مضامین کی مدد سے تیار کی ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.