جمعرات 6؍صفر المظفر 1445ھ24؍اگست 2023ء

توشہ خانہ کیس، لطیف کھوسہ کے دلائل پر عدالت میں قہقہے

اسلام آباد ہائی کورٹ میں توشہ خانہ کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا معطلی کی درخواست پر سماعت جاری ہے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق اور جسٹس طارق جہانگیری سماعت کر رہے ہیں۔

چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ خواجہ حارث پیش نہیں ہو رہے، ان کے منشی کو اغواء کیا گیا تھا، خواجہ حارث کا اس سے متعلق بیان حلفی دے رہا ہوں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ہمیں سپریم کورٹ کا آرڈر بھی ملا ہے۔

وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا معطلی درخواست پر دلائل دوں گا، ان کی تین گراؤنڈ پر سزا معطلی کے لیے دلائل دوں گا، سب سے پہلے عدالتی دائرہ اختیار کا تعین ہونا ضروری تھا، الیکشن کمیشن اپنے کسی افسر کو کمپلینٹ دائر کرنے کا مجاز قرار دے سکتا ہے، اس کیس میں سیکریٹری الیکشن کمیشن نے ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر کو کمپلینٹ دائر کرنے کا کہا، صدر مملکت نے 14 اگست کو قیدیوں کی سزا میں 6 ماہ کی معافی کی، چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا کا دورانیہ پہلے بھی کم اور تین سال قید تھا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں الیکشن کمیشن کا کمپلینٹ دائر کرنے کا اجازت نامہ قانون کے مطابق نہیں؟ 

چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ جی بالکل، وہ اجازت نامہ درست نہیں ہے، ٹرائل کورٹ نے ہائی کورٹ کے آرڈر کو بھی نظر انداز کیا، ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں بہت خامیاں ہیں، اسلام آباد ہائی کورٹ نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کےخلاف ہماری اپیل منظور کی، ہائی کورٹ نے درخواست دوبارہ فیصلہ کرنے کے لیے ٹرائل کورٹ کو بھجوائی، کمپلینٹ ٹرائل کے لیے ڈائریکٹ سیشن جج کے پاس نہیں جا سکتی، قانون میں طریقہ کار دیا گیا ہے، کمپلینٹ پہلے مجسٹریٹ کے پاس جائے گی، سیشن کورٹ براہ راست کمپلینٹ سن ہی نہیں سکتی، ٹرائل کورٹ کا آرڈر غلطیوں کے باعث برقرار نہیں رہ سکتا، استدعا ہے چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا معطل کردی جائے، سزا کالعدم قرار دینے کی اپیل پر دلائل کے لیے ہم دوبارہ عدالت کے سامنے آئیں گے۔

معروف قانون دان خواجہ حارث توشہ خانہ کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی قانونی ٹیم سے الگ ہوگئے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ کیا ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں ان تمام ایشوز پر فیصلہ دیا گیا؟ 

وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ بالکل نہیں، جو فیصلہ انہوں نے دیا تھا وہ ہائی کورٹ کالعدم قرار دے چکی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس استفسار کیا کہ حتمی فیصلے میں کیا ٹرائل کورٹ نے وجوہات دیں؟ 

وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ جی ٹرائل کورٹ نے وجوہات نہیں دیں، ٹرائل جج نے آپ کو اگنور کیا، سوری آپ کے فیصلے کو اگنور کیا، لطیف کھوسہ کے دلائل پر عدالت میں قہقہے لگ گئے۔

جسٹس طارق جہانگیری نے سوال کیا کہ ٹرائل کورٹ نے دفاع کے گواہوں کو کس بنیاد پر غیر متعلقہ کہا؟ 

وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کے گواہوں کو غیرمتعلقہ قرار دے دیا، ٹرائل کورٹ نے گواہوں کو جانچے بغیر انہیں اسی روز غیرمتعلقہ قرار دیا، ٹرائل کورٹ نے گواہوں کو غیرمتعلقہ قرار دینے کی وجہ لکھی ہی نہیں، کیا فوجداری تاریخ میں ایسا کبھی ہوا ہے؟ حق دفاع ختم کرنے کے ٹرائل کورٹ فیصلے کی درخواست پر نوٹس جاری ہو چکا تھا۔

وکیل لطیف کھوسہ  نے چیف جسٹس سے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ معذرت کے ساتھ آپ نے بھی ٹرائل کورٹ کو حتمی فیصلہ کرنے سے روکا نہیں، اگر ہائی کورٹ نے نہیں روکا پھر بھی جج کو حتمی فیصلہ نہیں دینا چاہیے تھا، ملزم کواپنےدفاع میں گواہ پیش کرنےسےروکاہی نہیں جاسکتا، ایک شخص اپنا دفاع پیش کر رہا ہے آپ کیسے اُسے روک سکتے ہیں، چار گواہ تو پیش کر رہے تھے کوئی چالیس تو نہیں تھے، ٹرائل کورٹ کے فیصلے سے چیئرمین پی ٹی آئی کے آئینی حقوق متاثر ہوئے، گوشوارے جمع ہونے کے 120 دن کے اندر کمپلینٹ دائر کی جا سکتی ہے، یہ کمپلینٹ گوشوارے جمع ہونے کے 920 دن بعد دائر کی گئی، یہ تو نہیں ہو سکتا کہ میرے سر پر ہمیشہ تلوار لٹکی رہے, ٹرائل کورٹ نے ملزم کے دفاع کاحق ختم کیا بلکہ خواجہ حارث کی بحث بھی نہیں سنی، خواجہ حارث نے بتایا ان کے منشی کا مسئلہ بنا ہوا تھا جس وجہ سے آنے میں تاخیر ہوئی، خواجہ حارث 12 بجے ٹرائل کورٹ پہنچ گئے تھے مگر جج نے کہا اب آپ کی ضرورت نہیں، عدالت نے فیصلہ محفوظ کیا اور آدھے گھنٹے بعد 30 صفحات کا فیصلہ جاری کر دیا، ساڑھے بارہ بجے فیصلہ آیا اور 12:35 پر پولیس چیئرمین پی ٹی آئی کو گرفتار کرنے پہنچ گئی، چیئرمین پی ٹی آئی نے بتایا ان کے گھر کے گیٹ اور واش روم کا دروازہ تک توڑا گیا۔

چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ نے اپنے دلائل مکمل کر لیے۔

چیف جسٹس نے امجد پرویز سے استفسار کیا کہ امجد صاحب کیا آپ کو کچھ کہنا ہے؟ 

کھوسہ صاحب میرے نکاح کا گواہ بھی ہے، امجد پرویز کی بات پر عدالت میں قہقہے لگ گئے۔

بشکریہ جنگ
You might also like

Comments are closed.