توتن خامون کے مدفن کی دریافت جس میں مصری کارکنوں کے کردار کو نظر انداز کیا گیا
- اجیوما این ڈوکوے
- بی بی سی نیوز

،تصویر کا ذریعہHARRY BURTON/GRIFFITH INSTITUTE, OXFORD UNIVERSITY
توتن خامون کے سونے کے ماسک کو، جسے یہاں داڑھی کے بغیر دیکھا جا سکتا ہے، فوٹوگرافر ہیری برٹن نے پیرافن ویکس سے ڈھانپ کر تصویر اتاری تاکہ روشنی کے اثرات کو مدھم کیا جا سکے
قدیم مصر کے بادشاہ توتن خامون کے لکسور میں مقبرے کی دریافت کو جدید آثار قدیمہ کی سب سے اہم اور مشہور دریافت مانا جاتا ہے۔
برطانوی ماہر مصر ہاورڈ کارٹر اور ان کی ٹیم کی اس دریافت کے 100 سال مکمل ہونے پر برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی کی بوڈلین لائبریریز میں ایک نمائش منعقد کی جا رہی ہے۔
اس نمائش میں فوٹو گرافر ہیری برٹن کی کھینچی گئی ڈرامائی تصاویر سمیت خط، پلان، کارٹر کی محفوظ شدہ دستاویزات میں سے ڈرائنگز اور ڈائریز پیش کی گئی ہیں جن کی مدد سے 10 سال میں ہونے والی اس مقبرے کی کھدائی کو ایک نئے انداز میں دیکھا جا سکتا ہے جو قدیم مصر کے کسی بھی شاہی فرد کا پہلا معلوم مدفن تھا جو صحیح سلامت حالت میں پایا گیا۔
یہ نمائش اس وقت نظر انداز ہونے والے کئی ماہر مصری کارکنوں کے کام کو بھی اجگر کرتی ہے اور اس تاثر کو چیلنج کرتی ہے جس کے مطابق ہاورڈ کارٹر کو اس اہم دریافت کا واحد ہیرو مانا جاتا ہے۔
اس تصویر میں ایک نامعلوم مصری بچہ توتن خامون کے مقبرے سے ملنے والے ایک تابوت سے حاصل شدہ بھاری بھرکم اور زیورات سے لدا ہوا ہار پہنے ہوئے ہے۔
کئی افراد نے بعد میں دعوی کیا کہ کہ تصویر میں دکھائی دینے والا بچہ وہ ہی ہیں، ان میں کارٹر کی ٹیم کی مدد کرنے والے حسین عبد الرسول گرنا بھی شامل تھے، لیکن ان میں سے کسی دعوے کی تصدیق نہیں ہو سکی۔

،تصویر کا ذریعہHARRY BURTON/GRIFFITH INSTITUTE, OXFORD UNIVERSITY
اس نمائش میں اس تصویر کو مرکزی جگہ دی گئی ہے جس میں دریافت کے دوران دو کارکنوں اور ایک بچے کو دیکھا جا سکتا ہے جو انتہائی احتیاط سے مدفن چیمبر تک رسائی حاصل کرنے کے لیے ایک دیوار کی کھدائی کر رہے ہیں۔
کارٹر نے اپنی شائع ہونے والی دستاویزات میں دریافت میں مدد پر چار مصری کارکنوں کا نام لے کر شکریہ ادا کیا تھا جن میں احمد گریگر، گاد حسن، حسین ابو اود اور حسین احمد سعید شامل ہیں۔ لیکن کارکنوں کی تصاویر میں ان کی شناخت ممکن نہیں۔
اس نمائش کا انعقاد کرنے والوں میں ڈاکٹر ڈینئیلا روزنو بھی شامل ہیں جو ماہر قدیم مصر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کارٹر نے اس دریافت کے لیے 50 مقامی مصری کارکنوں کی خدمات حاصل کی تھیں۔ ان کے مطابق ان کے علاوہ اس مقام پر درجنوں دیگر کارکن بھی موجود تھے جن میں کم عمر بچے بھی شامل تھے۔
ان تمام افراد کے نام تو ریکارڈ نہیں کیے گئے لیکن ڈاکٹر روزنو کہتی ہیں کہ اس وقت کی تصاویر نوآبادیاتی نظام کے اس تصور کو چیلنج کرتی ہیں کہ یہ دریافت ایک شخص نے کی۔
’ان تصاویر کے ذریعے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ مصری شہریوں نے اس دریافت میں ایک کلیدی کردار ادا کیا اور اس سے واضح ہوتا ہے کہ ہمارے پاس کہانی کا صرف ایک ہی رخ موجود ہے۔‘
ان ڈرامائی اور جان بوجھ کر لی گئی تصاویر میں کارٹر کو اپنی ٹیم کے ساتھ ایک سنہرے مزار کا دروازہ کھولتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ ان افراد میں کارٹر زمین پر جھکے ہوئے بیٹھے ہیں جب کہ ان کے اسسٹنٹ آرتھر کلینڈر اور ایک نا معلوم مصری کارکن ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔
اس تصویر نے توتن خامون کے مقبرے کی دریافت کو دنیا بھر میں مشہور کیا جس کے ذریعے کارٹر کی ایک انگریز مہم جو کی حیثیت سے شہرت بھی پھیلی۔

،تصویر کا ذریعہHARRY BURTON/GRIFFITH INSTITUTE, OXFORD UNIVERSITY
برٹن کی توتن خامون کے باہری تابوت کی لی گئی یہ تصویر نوجوان بادشاہ کی پیشانی کو سجانے والے مکئی کے پھولوں اور زیتون کے پتوں کی مالا پر مرکوز ہے۔
جیسے ہی اس مالا کو باہر نکالا گیا اس میں شامل قدرتی اجزا ضائع ہو گئے۔ اس کی موجودگی کا واحد ثبوت اب یہی تصویر ہے۔
یہ بھی پڑھیے
برطانوی سرجن ڈگلس ڈیری کی تصویر جس میں وہ توتن خامون کے ممی شدہ جسم پر پہلی بار ایک سائنسی تجربے کے دوران نشتر چلا رہے ہیں۔ یہ تجربہ 11 نومبر 1925 کو شروع کیا گیا۔
ڈیری کے مصری ساتھی ڈاکٹر صالح حامدی ان کے داہنی طرف کھڑے ہیں۔ کارٹڑ، قدیم مصری سروسز کے فرانسیسی ڈائریکٹر جنرل پیئر لاکو اور ایک مصری اہلکار بھی تجربہ دیکھ رہے ہیں۔

،تصویر کا ذریعہHARRY BURTON/GRIFFITH INSTITUTE, OXFORD UNIVERSITY
تاتون خامون کی ممی شدہ لاش سے ملنے والا سونے کا ٹھوس ماسک اس مقبرے سے ملنے والی سب سے مشہور چیز تھی۔
کارٹر کی بنائی گئی ایک ڈرائنگ جس میں قدیم مصر کے مردوں کے دیوتا انوبس کے مجسمے کی پیمائش اور تحریر درج ہے۔
کارٹر ایک مصور کے بیٹے تھے جنھوں نے آثار قدیمہ کی کوئی باقاعدہ تربیت تو نہیں لی تھی لیکن بطور آرٹسٹ کام کرنے کے بعد ماہر آثار قدیمہ بن گئے۔

،تصویر کا ذریعہHARRY BURTON/GRIFFITH INSTITUTE, OXFORD UNIVERSITY
کارٹر نے توتن خامون کے مدفن کے مشرق میں موجود ایک سٹور روم کو خزانے کا نام دیا۔ اس تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح سے روشنی کے استعمال سے انوبس دیوتا کے مزار کو ڈرامائی انداز سے پیش کیا گیا ہے۔
Comments are closed.