بھارتی ریاست ہریانہ میں انتہا پسند ہندوؤں نے اپنے اجتماع میں پابندی کے باوجود مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز تقاریر کیں، ایک رہنما نے تقریر کے دوران کہ ’اگر تم انگلی اٹھاؤ گے تو ہم تمھارے ہاتھ کاٹ کر رکھ دیں گے۔‘
ہریانہ میں ہندوؤں کے ایک گروہ کو اس بات پر حکومت نے پروگرام کرنے کی اجازت دی تھی کہ اس میں نفرت انگیز تقاریر نہیں کی جائیں گی، اس کے باوجود کچھ رہنماؤں کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کی گئیں، جبکہ ایک رہنما نے تو ہندوؤں کو رائفلز کے لائسنس دینے کا مطالبہ بھی کردیا۔
ہندو رہنماؤں نے پولیس کی موجودگی میں مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز تقاریر کیں اور مسلمانوں کو کھلم کھلا دھمکیاں دیتے نظر آئے۔
ہریانہ مہا پنچایت میں ہندوؤں کی جانب سے مسلمانوں کے علاقے میں داخلے پر پابندی بھی عائد کی گئی۔
شدت پسند رہنماؤں نے علاقے میں گائے کے ذبیحے پر پابندی اور اپنے نیم فوجی دستے کا ہیڈ کوارٹر قائم کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔
دوسری جانب ہریانہ حکومت کی جانب سے مسلمانوں کے داخلے پر پابندی عائد کرنے والی پنچایت کے ارکان کو شو کاز نوٹس بھی بھجوادیے گئے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق 31 جولائی کو ریاست ہریانہ میں ہونے والے ہندو مسلم فسادات کے بعد مختلف اضلاع کی پنچایتوں نے قرار داد منظور کی، جس میں ان کے گاؤں میں مسلمانوں کو داخل ہونے سے روکنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔
ہریانہ کے ضلع نوح میں ہونے والے ہندو مسلم فسادات کے ردعمل میں ضلع ریواڑی، جھاجھر اور مہیندر گڑھ میں پنچایتوں نے قرارداد منظو کی ہے جس کے تحت ان کے علاقے میں مسلمانوں کے داخلے پر پابندی ہوگی۔
ان اضلاع کی پنچایتوں کا مؤقف ہے کہ اس قراداد کا مقصد دکانداروں کی ذاتی معلومات کی تصدیق کرنا ہے جس میں اکثریت کا تعلق مسلمان کمیونٹی سے ہے تاکہ جانوروں کی چوری کے بڑھتے ہوئے واقعات کو روکا جا سکے اور نوح میں پیدا ہونے والے حالات کے بعد کسی بھی ایسی صورتحال سے بچا جائے۔
Comments are closed.