’تمھارے بچے کو قتل کر کے گوشت تمھیں کھلائیں گے‘: عراق کے یزیدی اپنے آبائی علاقے واپس کیوں نہیں جانا چاہتے؟
- مصنف, کیرولین ہولے
- عہدہ, نامہ نگار برائے سفارتی امور، بی بی سی نیوز
- ایک گھنٹہ قبل
دس سال قبل نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے جنگجوؤں نے شمالی عراق کے علاقے سنجار میں مقیم یزیدی برادری کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کی تھی۔اس شدت پسند گروہ کے جنگجوؤں نے نہ صرف ہزاروں یزیدی مردوں کو قتل کیا تھا بلکہ خواتین اور لڑکیوں کا ریپ بھی کیا تھا اور انھیں اپنا غلام بنا لیا تھا۔اس ظلم و بربریت کے باوجود زندہ بچ جانے والے یزیدی برادری کے افراد کو اب ایک نئی پریشانی کا سامنا ہے۔ نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے ظلم سے بچنے کے لیے اس برادری کے ہزاروں افراد اپنا علاقہ چھوڑ کر عراق کے دیگر علاقوں میں منتقل ہو گئے تھے۔عراقہ حکومت اب منصوبہ بندی کر رہی ہے کہ ملک کے دیگر علاقوں میں یزیدی برادری کے لیے بنائے گئے کیمپس بند کر دیے جائیں تاکہ اس برادری سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنے آبائی علاقوں میں واپس جا سکیں۔
یزیدی برادری سے تعلق رکھنے والی وہ متعدد خواتین، جنھیں نہ صرف پناہ گزینوں کے کیمپس میں رہنا پڑا تھا بلکہ نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے جنگجوؤں کے ہاتھوں انسانیت سوز سلوک کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا، حال ہی میں برطانیہ کے دورے پر گئیں تھیں۔ان خواتین کے برطانیہ کے دورے کا مقصد اپنے کلچر کو فروغ دینا اور اپنی برادری کو درپیش مسائل کو اُجا گر کرنا تھے۔ اس دورے کے دوران انھوں نے متعدد مقامات پر لوگوں کے سامنے اپنے لوک گیت بھی پیش کیے تھے۔نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے جنگجوؤں نے سنہ 2014 میں یزیدی برادری کے آبائی علاقے پر قبضہ کیا تھا اور اس دوران انھوں نے یزیدی برادری پر جو ظلم کیا تھا اُسے یاد کر کے آج بھی امیرا کی آنکھوں سے آنسو نکل آتے ہیں۔اس بات کو ایک دہائی بیت چکی ہے لیکن امیرا کے زخم آج بھی تازہ ہیں۔انتباہ: یہ مضمون بعض قارئین کے لیے تکلیف دہ ہو سکتا ہے۔یزیدی برادری کے مردوں کو گولیاں ماری جا رہی تھیں، خواتین کا ریپ کیا جا رہا تھا اور انھیں غلام بنایا جا رہا تھا، لیکن اس دوران امیرا اپنے آبائی علاقے میں واقع پہاڑوں کی طرف فرار ہونے میں کامیاب ہو گئیں۔لیکن ان کی دو بہنوں کو نام نہاد دولتِ اسلامیہ نے اغوا کر لیا تھا اور انھِیں گروہ کے جنگجوؤں کے گھروں پر کام پر لگا دیا گیا تھا۔ نام نہاد دولتِ اسلامیہ نے یزیدی برادری کو ’شیطان کی پوجا کرنے والے‘ قرار دیا تھا۔،تصویر کا ذریعہAmar Foundation
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.