’تسمے باندھنے کی فکر مت کرو‘: پاکستان میں اغوا اور قتل ہونے والے امریکی صحافی ڈینیئل پرل پر کیا بیتی؟

امریکی صحافی ڈینیئل پرل

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

امریکی صحافی ڈینیئل پرل

  • مصنف, ریحان فضل
  • عہدہ, بی بی سی ہندی، نئی دہلی

38 سالہ امریکی صحافی ڈینیئل پرل معروف اخبار ’وال سٹریٹ جرنل‘ کے جنوبی ایشیا کے بیورو چیف تھے۔

اگرچہ ان کا دفتر ممبئی میں تھا لیکن وہ ایک خبر کے سلسلے میں کراچی گئے ہوئے تھے۔ ان کے ساتھ ان کی حاملہ اہلیہ ماریان پرل بھی تھیں۔

وہ اپنی دوست اور وال سٹریٹ جرنل میں ساتھ کام کرنے والی اسرا نعمانی کے گھر ٹھہرے ہوئے تھے۔ پاکستان میں ان کے دورے کا آخری دن 23 جنوری 2002 طے تھا جس کے بعد انھیں دبئی جانا تھا۔ دبئی جانے کی وجہ یہ تھی کہ ان دنوں پاکستان اور انڈیا کے درمیان کافی کشیدگی تھی اور دونوں ممالک کے درمیان براہ راست پروازیں بند تھیں۔

اس دن ڈینیئل پرل کو پیر مبارک علی شاہ جیلانی نامی شخص سے ’شو بمبار‘ کی رپورٹ کے سلسلے میں ملنا تھا۔ اسرا نے شیرٹن ہوٹل فون کیا اور اُن کے لیے ٹیکسی کا آرڈر دیا لیکن اس دن ہوٹل کے قریب کوئی ٹیکسی دستیاب نہیں تھی۔

مجبورا اسرا نے اپنے نوکر شبیر کو ٹیکسی لینے بھیجا۔ کچھ دیر بعد شبیر اپنی سائیکل چلاتے ہوئے ٹیکسی لے آئے۔

ڈینیئل ٹیکسی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئے اور چند ہی لمحوں میں ٹیکسی میرین اور اسرا کی نظروں سے اوجھل ہوگئی۔

ڈینیئل پرل اور اسرا نعمانی

،تصویر کا کیپشن

ڈینیئل پرل اور اسرا نعمانی

ڈینیئل کا فون بند ہو گیا

ماریان پرل اپنی سوانح عمری ’اے مائیٹی ہارٹ‘ میں لکھتی ہیں: ’ہم میں سے کوئی اگر اکیلے کوریج پر جاتا، تو اصول یہ تھا کہ دوسرے شخص کو ہر ڈیڑھ گھنٹے بعد فون کرنا ہوتا تھا، صرف یہ یقینی بنانے کے لیے کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔‘

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

’میں نے جب انھیں فون کیا تو اُن کا فون بند تھا۔ ان کے فون بند ہونے کی درجنوں وجوہات ہو سکتی تھیں لیکن عام طور پر وہ ہمیشہ اپنا فون آن رکھتے تھے۔‘

انھوں نے مزید لکھا: ’تھوڑی دیر بعد میں انھیں ہر 15 منٹ بعد فون کرنے لگی، لیکن ہر بار مجھے ایک ہی پیغام ملتا رہا کہ فون سوئچ آف ہے۔‘

’ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ چاہے ڈینی (ڈینیئل) کوسوو میں ہوں یا سعودی عرب یا ایران میں انھوں نے ہمیشہ مجھے فون کرنے کا راستہ تلاش کر لیا تھا۔‘

نصف شب کے قریب ایک کار اس گلی میں داخل ہوئی جہاں ڈینیئل پرل رہتے تھے۔

ان کی بیوی ماریان اور اسرا دروازے کی گھنٹی بجنے کی امید میں باہر کی طرف لپکیں لیکن وہاں موجود گاڑی آگے بڑھ گئی۔ دونوں نے فیصلہ کیا کہ اگر ڈینیئل رات دو بجے تک نہ آئے تو وہ پولیس کو فون کریں گی۔

جوں جوں رات گزر رہی تھی بے چینی بڑھنے لگی۔

جب ڈینیئل دو بجے تک گھر واپس نہیں آئے تو ماریان اور اسرا نے پولیس کو بلانے سے پہلے امریکی قونصل خانے کو فون کیا۔

سوتی ہوئی آواز میں قونصل خانے کے اہلکار کارپورل بیلی نے جواب دیا: ’میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں؟‘

ماریان اور اسرا نے انھیں ساری کہانی سُنائی۔ بیلی نے کہا: ’مجھے امید ہے کہ ڈینیئل صبح سویرے نشے کی حالت میں گھر واپس آ جائیں گے۔‘

پاکستان ایک اسلامی ملک ہے جہاں شراب کھلے عام دستیاب نہیں ہوتی اور بیلی کے لیے قونصل خانے میں ایسی کالیں آنا عام بات تھی۔

بیلی نے دونوں خواتین سے کہا کہ وہ صبح 6 بجے کال کریں، اگر ڈینیئل واپس نہیں آتے ہیں، اور آپریٹر سے کہیں کہ وہ ان کا ریجنل سکیورٹی آفیسر رینڈل بینیٹ سے رابطہ کروائیں۔

ماریان کو یہ نام سُنا سُنا سا لگا۔ دراصل، ڈینیل پرل ایک دن پہلے ہی رینڈل بینیٹ سے ملے تھے۔ ماریان نے سوچا کہ کم از کم بینیٹ کو یہ نہیں بتانا پڑے گا کہ ڈینیئل کون ہیں۔

سرورق

،تصویر کا ذریعہLITTLE BROWN BOOK GROUP

اغوا کاروں نے ڈینیئل کے گھر فون کیا

ماریان رات بھر ڈینیئل کو فون کرتی رہیں لیکن ان کا موبائل فون متواتر بند ملا۔ صبح کو انھوں نے ’دی وال سٹریٹ جرنل‘ کے خارجہ امور کے ایڈیٹر جان بسی اور ڈینیئل کے باس کو اس کی اطلاع دی۔

جان بسی نے ان سے پوچھا: ’اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟‘ 24 گھنٹے اسی طرح گزر گئے۔ اسی دوران ماریان کے موبائل فون کی گھنٹی بجی۔

ماریان لکھتی ہیں: ’اسرا نے لپک کر فون اٹھا کر کہا، ہیلو۔ دوسری طرف سے اُردو میں آواز آئی ’ہماری ڈینیئل پرل کی بیوی سے بات کروائیے۔‘ اسرا کو فوراً سمجھ آ گئی کہ یہ ڈینیئل کے اغوا سے متعلق کال تھی۔ انھوں نے کہا ’میں آپ کو بات کراتی ہوں لیکن یہ جان لیں کہ وہ اُردو نہیں بولتی ہیں۔‘

دوسری جانب موجود شخص نے کسی سے کہا ’وہ (ماریان) اُردو نہیں سمجھتیں۔‘

یہ کہہ کر اس نے فون بند کر دیا۔ ظاہر ہے کہ اردو بولنے والا رابطہ قائم کرنے کے لیے فون نہیں کر رہا تھا۔ وہ ڈینیئل کو چھوڑنے کے لیے اپنی شرائط بتانا چاہتا تھا۔

میرین پرل

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ماریان پرل

پاکستانی شدت پسندوں کی رہائی کا مطالبہ

بعد ازاں ڈینیئل پرل کے اغوا کاروں نے امریکی حکومت کو ایک ای میل بھیجی جس میں پرل کی رہائی کے بدلے گوانتاناموبے میں مقیم تمام پاکستانی شدت پسندوں کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

انھوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ امریکہ کی جانب سے پاکستان کو ایف 16 لڑاکا طیاروں کی سپلائی بحال کی جائے۔

اغواکاروں نے کہا کہ اگر ان کے مطالبات نہ مانے گئے تو نہ صرف ڈینیئل کو قتل کردیا جائے گا بلکہ کسی امریکی صحافی کو پاکستان میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا۔

اس ای میل کے ساتھ پرل کی ہتھکڑی پہنے اور اس دن کے ڈان اخبار کو پکڑے ہوئے ایک تصویر بھی بھیجی گئی۔

اغوا کاروں نے پرل کی رہائی کے لیے ان کی اہلیہ ماریان اور دیگر کئی لوگوں کی درخواستوں پر توجہ نہیں دی۔

ڈینیئل پرل کی بیرونی دنیا کو بھیجی گئی تصویر میں ان کے بال تو سنورے ہوئے تھے لیکن ان کی آنکھیں آؤٹ آف فوکس تھیں جبکہ اُن کے چہرے کا نچلا حصہ سوجا ہوا تھا۔

برنارڈ لیوی اپنی کتاب ’ہو کلڈ ڈینیئل پرل‘ میں لکھتے ہیں کہ ’اس کا چہرہ پیلا پڑ گیا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ یا تو اسے نشہ دیا گیا تھا یا مارا پیٹا گیا تھا۔ اس کے بال کاٹے گئے تھے۔‘

’اتنے دباؤ میں بھی ان کے چہرے پر ایک پُرسکون مسکراہٹ تھی۔ ان سے ان کی عینک چھین لی گئی تھی۔ ان کو کم کھانا دیا جاتا تھا۔ ان کے ایک محافظ کی گواہی کے مطابق، ایک بار جب ان کے اغوا کاروں نے انجیکشن کا لفظ استعمال کیا تھا تو پرل ہوشیار ہو گئے تھے۔‘

لیوی لکھتے ہیں کہ ’پرل کو لگا کہ وہ اس کے کھانے میں زہر ڈالنے والے ہیں۔ اس خوف کی وجہ سے انھوں نے دو دن تک بھوک ہڑتال کر دی۔‘

’انھوں نے اس وقت ہی کھانا شروع کیا جب ان کے محافظوں نے اسی سینڈوچ سے کھا کر دکھایا جو ان کے لیے لایا گیا تھا۔ ان کے دونوں ہاتھ بندھے ہوئے تھے اور ان کے پاؤں میں بیڑیاں تھیں۔‘

ڈینیئل پرل

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ڈینیئل پرل

ڈینیئل پرل کی قید سے فرار ہونے کی کوشش

ڈینیئل پرل کو کراچی کے شمالی علاقے کے مضافات میں ایک الگ تھلگ کمپاؤنڈ میں رکھا گیا تھا۔

ماریان پرل لکھتی ہیں کہ ’ٹوائلٹ جانے کے لیے اس کی بیڑیاں کھول دی جاتی تھیں۔ ایک بار انھوں نے ٹوائلٹ کی کھڑکی سے فرار ہونے کی کوشش کی۔ جب پکڑے گئے تو انھیں ایک کار کے انجن سے باندھ دیا گیا۔‘

’ایک بار پھر انھوں نے فرار ہونے کی کوشش کی جب ان کے اغوا کار انھیں صحن میں چہل قدمی کروا رہے تھے۔ ایک بار جب ایک سبزی فروش نے آواز لگائی تو انھوں نے چیخ کر اس کی توجہ اپنی جانب مبذول کرنے کی کوشش کی تھی۔‘

’لیکن انھوں نے انھیں بندوق دکھا کر اور اپنے ہاتھوں سے منہ دبا کر خاموش کروا دیا۔‘

ان کا کھانا نعیم بخاری نامی شخص لاتے تھے۔ وہ لشکر جھنگوی کی مقامی یونٹ کے سربراہ تھے۔ ڈینیئل کو اغوا کرنے سے پہلے بھی پولیس درجنوں شیعہ مسلمانوں کے قتل کے سلسلے میں اس کی تلاش میں تھی۔

23 جنوری کو جب ڈینیئل ہوٹل میٹروپول میں اپنی گاڑی میں بیٹھے تھے تو موٹرسائیکل پر بیٹھے نعیم ہی اسے اس احاطے تک لائے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

ڈینیئل پرل

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ڈینیئل پرل

’تسمہ باندھنے کی ضرورت نہیں‘

ڈینیئل کو آخری دم تک معلوم نہیں تھا کہ وہ مارے جانے والے ہیں۔

ہنری لیوی لکھتے ہیں کہ ’ڈینیئل پرل کو اس کی ایک جھلک اُس وقت ملی جب اس کمپاؤنڈ کے منتظم کریم انھیں جگانے آئے۔ خوابیدہ آنکھوں کے باوجود پرل کو معلوم ہوا کہ یہ پرانا کریم نہیں ہے۔‘

’اس کا چہرہ پتھر جیسا ہو گیا تھا۔ جب پرل کو اپنے جوتے کے تسمے باندھنے میں کچھ دقت پیش آئی تو کریم نے اس کی طرف دیکھے بغیر عجیب سے لہجے میں ڈینیئل سے جو کہا اسے سن کر اُن کا دل بیٹھ گیا۔‘

اس نے کہا: ’تسموں کو باندھنے کی زیادہ فکر نہ کریں۔ جہاں آپ جا رہے ہیں وہاں آپ کو ان کی ضرورت نہیں ہو گی۔‘

بعد میں سٹیو لیوائن نے وال سٹریٹ جرنل میں ڈینیئل پرل کے آخری لمحات کی مزید تفصیلات بتاتے ہوئے لکھا: ’اس کمپاؤنڈ کا مالک سعود میمن اپنے ساتھ تین عربی بولنے والے یمنیوں کو لایا تھا۔ بخاری نے عربی بولنے والے صرف ایک گارڈ کو چھوڑ کر باقی تمام گارڈز کو باہر جانے کو کہا۔‘

’ایک آدمی نے ویڈیو کیمرہ آن کر دیا اور دوسرے آدمی نے پرل سے ان کے مذہبی پس منظر کے بارے میں سوال کرنا شروع کر دیا۔ پرل سے کہا گیا کہ وہ جو کہیں وہ اسے دہرائیں۔‘

ڈینیل پرل

،تصویر کا ذریعہGetty Images

’اس دوران ایک ریوالور ان کے سر پر تان لی گئی۔ پرل نے کہنا شروع کیا: ’میرا نام ڈینیئل پرل ہے۔ میں یہودی امریکی ہوں اور کیلیفورنیا کے اینسینو کا باشندہ ہوں۔‘

اس شخص نے پرل کو ہدایت کی کہ وہ ٹیپ پر کہیں کہ ’اس کے والد یہودی ہیں، اس کی ماں یہودی ہیں اور وہ خود بھی یہودی ہیں۔‘

پرل نے یہ الفاظ کہے لیکن وہاں موجود یمنی شخص نے ان سے کہا کہ ٹھہرے ہوئے لہجے میں اور بہتر ڈھنگ سے یہ سب کہیں۔

اس نے مزید دو جملے جوڑ دیے۔ ’میں اسرائیل جاتا رہا ہوں۔ اسرائیل کے شہر بنائی براک میں ایک گلی ہے جس کا نام چایم پرل سٹریٹ ہے جو میرے پردادا کے نام سے منسوب ہے۔‘

اس کے بعد پرل کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی اور انھیں قتل کر دیا گیا۔

قتل کے تین ہفتے بعد 3 منٹ 36 سیکنڈ کی یہ ویڈیو دنیا کے لیے جاری کر دی گئی جس کا عنوان ’سلاٹر آف دی سپائی جرنلسٹ، دی جیو ڈینیئل پرل‘ رکھا گیا تھا۔

تین ماہ بعد ٹکڑوں میں دفن لاش ملی

اس واقعے کے تقریباً تین ماہ بعد ان کی لاش کراچی سے 48 کلومیٹر دور گڈاپ میں ایک قبر سے ملی۔ ان کے جسم کے 10 ٹکڑے کر دیے گئے تھے۔

پاکستان کی معروف فلاحی شخصیت شخص عبدالستار ایدھی نے ان کی باقیات کو جمع کرنے اور امریکہ بھیجنے کا انتظام کیا جہاں انھیں لاس اینجلس کے ماؤنٹ سینائی میموریل پارک قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔

چھ فروری 2002 کو قتل کے تفتیش کاروں نے اس آئی پی ایڈریس کا سراغ لگایا جس سے پرل کے تاوان کی ای میلز بھیجی گئی تھیں۔

اس سلسلے میں تین افراد فہد نسیم، سلیمان ثاقب اور محمد عادل کو گرفتار کیا گیا۔ انھوں نے یہ ای میل ایک اور شخص عمر سعید شیخ کو فارورڈ کی تھی۔

اس اغوا کی منصوبہ بندی کرنے والے عمر سعید شیخ نے آئی ایس آئی کے سابق افسر بریگیڈیئر اعجاز شاہ کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ انھوں نے شیخ کے ہتھیار ڈالنے کی خبر کو کراچی پولیس سے ایک ہفتے تک پوشیدہ رکھا۔

پاکستان کے سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے اپنی سوانح عمری ’ان دی لائن آف فائر‘ میں لکھا ہے کہ ’جب پیر مبارک علی شاہ کو گرفتار کیا گیا اور ان سے پوچھ گچھ کی گئی تو انھوں نے بتایا کہ ڈینیئل پرل سے ملنے کے لیے عمر شیخ بہت بے تاب تھے۔‘

’ابتدائی طور پر ہمیں عمر شیخ کے ٹھکانے کا علم نہیں تھا، لیکن پولیس نے ان کے کچھ دوستوں اور رشتہ داروں کو گرفتار کر لیا۔‘

’ایک شخص عادل شیخ کی گرفتاری کے بعد عمر شیخ کا فون نمبر ملا۔ یہ عادل شیخ ہی تھا جس نے بتایا کہ وہ اور عمر شیخ ڈینیل پرل کو اغوا کرنے کے منصوبے میں ملوث تھے۔‘

گرفتاری کے بعد عمر شیخ نے اعتراف کیا کہ وہ ڈینیئل پرل کو اغوا کرنے کے منصوبے میں ملوث تھے تاہم انھوں نے اس بات سے انکار کیا کہ پرل کے قتل کا حکم انھوں نے دیا تھا۔

ڈینیئل پرل

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ڈینیئل پرل

عمر سعید انڈیا کی جیل سے رہا ہوئے تھے

عمر سعید شیخ برطانوی شہری تھے اور ان کی تعلیم لندن کے مشہور سکول آف اکنامکس سے ہوئی تھی۔ انھیں مغربی ممالک کے لوگوں کو اغوا کرنے میں مہارت حاصل تھی۔

یہ وہی شخص تھا جسے سنہ 1994 میں انڈیا میں تین برطانوی افراد کو اغوا کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

1999 میں عمر سعید شیخ اور مولانا اظہر مسعود ان تین افراد میں سے شامل تھے جنھیں انڈین حکومت نے اس وقت رہا کیا تھا جب ایک انڈین طیارے کو ہائی جیک کرکے قندھار لے جایا گیا تھا۔

ماریان پرل لکھتی ہیں: ’انڈیا کی جیل سے رہائی کے بعد، عمر لاہور میں سکونت اختیار کر گیا تھا لیکن وہاں سے اس نے حرکت الجہادی الاسلامی افغانستان کے ارکان کو تربیت دینے کے لیے چار بار افغانستان کا دورہ کیا۔‘

پرویز مشرف لکھتے ہیں: ’عمر شیخ نے افغانستان کے دورے کے دوران اسامہ بن لادن اور ملا عمر سے ملاقات کا دعویٰ کیا تھا۔ اگرچہ وہ القاعدہ کا رکن نہیں تھا لیکن اس نے اغوا سے حاصل ہونے والی تاوان کی رقم سے القاعدہ کی مدد کی تھی۔‘

خالد شیخ محمد

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

خالد شیخ محمد یعنی کے ایس ایم

کے ایس ایم نے پرل کے قتل کی ذمہ داری لی

15 جولائی 2002 کو پاکستانی عدالت نے ڈینیئل پرل کے قتل کے الزام میں عمر شیخ اور دیگر تین افراد کو سزائے موت سنائی۔

2 اپریل 2020 کو عمر کی اپیل کے بعد پاکستانی عدالت نے ان کی سزائے موت کو سات سال قید کی سزا میں تبدیل کر دیا۔

ہوا یوں کہ 10 مارچ 2007 کو القاعدہ کے نمبر تین خالد شیخ محمد (کے ایس ایم) نے گوانتاناموبے میں ’کمبیٹنٹ اسٹیٹس ریویو ٹربیونل‘ کے سامنے ایک گواہی میں ڈینیئل پرل کے قتل کی ذمہ داری قبول کی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے کراچی میں امریکی صحافی ڈینیئل پرل کا اپنے ہاتھوں سے سر قلم کیا تھا۔‘ اس کے بعد عمر سعید کے وکلا نے خالد کی گواہی کی بنیاد پر عمر کی رہائی کا مطالبہ کیا۔

انھوں نے کہا کہ ’ڈینیئل پرل کے اغوا میں عمر شیخ کا کردار ضرور تھا لیکن پرل کا اصل قاتل خالد شیخ محمد ہے۔‘

اس سے پہلے کہ عمر شیخ کو رہا کیا جاتا، پاکستانی حکومت نے انھیں اور ان کے تین ساتھیوں کی دوبارہ گرفتاری کا حکم دیا۔

ان کا استدلال تھا کہ وہ عدالت کے اس حکم کے خلاف اعلیٰ عدالت میں اپیل کریں گے لیکن کئی دنوں کی قانونی جنگ کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی عمر سعید اور ان کے تین ساتھیوں کی رہائی کا حکم دے دیا۔

30 جنوری 2021 کو حکومت پاکستان نے عمر سعید کی رہائی کے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست دائر کی۔

2 فروری2021 کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکم دیا کہ عمر شیخ، جو 18 سال سے ’ڈیتھ رو‘ پر تھے، کو سرکاری سیف ہاؤس میں منتقل کیا جائے۔

اس سیف ہاؤس کو سکیورٹی اہلکاروں کی نگرانی میں رکھا گیا تھا لیکن عمر شیخ کی اہلیہ اور ان کے بچوں کو ان سے ملنے کی اجازت دی گئی۔

8 مارچ 2021 کو کراچی انتظامیہ نے عمر سعید شیخ کو کوٹ لکھپت جیل کے گیسٹ ہاؤس بھیج دیا۔

یہ کہا گیا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے ان کے خلاف تمام اپیلوں کا فیصلہ ہونے تک وہ وہیں رہیں گے۔

BBCUrdu.com بشکریہ