ترک صدر رجب طیب اردوان کے ساتھ اکثر اوقات غیر ملکی دوروں کے دوران نظر آنے والی خاتون کا نام فاطمہ ابو شناب ہے۔
فاطمہ ابو شناب ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کی مترجم ہیں اور ہر غیر ملکی دورے پر ان کے ہمراہ ہوتی ہیں، فاطمہ ابو شناب ایک بہت ہی قابل خاتون مانی جاتی ہیں، انہوں نے ورجینیا کی یونیوسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے شعبے میں تعلیم حاصل کی اور وہ امریکا کے ’تھنک ٹینک دی ووڈ رو ولسن سینٹر ‘میں بطور اسسٹنٹ ریسرچر کام بھی کر چکی ہیں ۔
فاطمہ ترکی کی مشہور مسلمان خاتون سیاستدان مروہ قواچی کی صاحبزادی ہیں، فاطمہ کو ملنے والی غیر معمولی اہمیت کی وجہ اصل میں ان کی ماں ہی ہیں۔
اسلامک ورچو پارٹی سے وابستہ مروہ قواچی 30 برس کی عمر میں 1999 میں ترک پارلیمنٹ کی رکن منتخب ہوئیں، اس وقت پارلیمنٹ میں سکیولر پارٹیز کی اکثریت تھی، انہوں نے مروہ کے حجاب پہننے کو سکیولر اقدار کی خلاف ورزی قرار دیکر ہنگامہ کیا اور یہاں تک کہ ناصرف انہیں رکنیت کا حلف بھی اٹھانے سے روکا گیا بلکہ توہین اور تذلیل کا نشانہ بناتے ہوئے ایوان سے بے دخل بھی کردیا گیا۔
بات یہاں تک ختم نہیں ہوتی، اس وقت کی سکیولر حکومت نے مروہ قواچی سے اپنے ملک کی شہرت تک چھین لی، جس کی وجہ سے انہیں اپنا ملک چھوڑ کر امریکا میں رہنا پڑا، پھر حالات بدلے تو مروہ نے 2017 میں اپنی ترکی کی شہرت دوبارہ حاصل کی اور انہیں ملائشیا میں ترکی کی سفیر تعینات کیا گیا، جبکہ ان کی بیٹی ملک کے صدر کے آفس میں کام کر رہی ہیں۔
حجاب پہننے پر توہین اور تذلیل کا نشانہ بننے والی ترک خاتون کی بیٹی فاطمہ ابوشناب بھی حجاب ہی پہن کرسب اپنے ملک کے صدر کی عالمی لیڈرز کے ساتھ ملاقاتوں میں شرکت کر رہی ہیں۔
امریکی صدر جو بائیڈن اور ترک صدر کے درمیان 14 جون 2021 کو ہونے والی ملاقات میں شریک فاطمہ ابوشناب پوری دنیا کی توجہ کا محور بن گئیں، اب انہیں ترکی میں ریاست، مذہب اور معاشری کے درمیان مفاہمت کی علامت سمجھا جا رہا ہے۔
Comments are closed.