ترکی کے ’کمال گاندھی‘ کون ہیں جنھوں نے اردوغان کو چیلنج کیا؟

ترکی

،تصویر کا ذریعہReuters

ترکی کی چھ اپوزیشن جماعتوں نے آئندہ انتخابات میں موجودہ صدر رجب طیب اردوغان کے خلاف مشترکہ امیدوار کھڑا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ترکی میں رواں سال 14 مئی کو عام انتخابات ہونے والے ہیں جس میں اردوغان ایک بار پھر اقتدار میں واپس آنے کی کوشش کریں گے۔

اردوغان گذشتہ 20 سال سے ترکی میں برسراقتدار ہیں۔

ان کے دور میں ترک کرنسی لیرا میں تیزی سے کمی کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں جارحیت دیکھنے میں آئی ہے۔

لیکن حالیہ شدید زلزلے کی وجہ سے اردوغان کے لیے آنے والے انتخابات گذشتہ انتخابات کے مقابلے میں زیادہ مشکل ہو گئے ہیں۔

آخر حیرت انگیز فنکار کون ہیں؟

ترکی

،تصویر کا ذریعہReuters

ریپبلکن پیپلز پارٹی کے رہنما ہیں جو اس وقت ترکی کی سیاست میں ایک بڑی اپوزیشن جماعت کا کردار ادا کر رہی ہے۔

اس جماعت کی بنیاد جدید ترکی کے بانی مصطفی کمال اتاترک نے رکھی تھی۔

ایسے میں ترک سیاست کے لحاظ سے اردوغان کے خلاف مشترکہ امیدوار کے طور پر اس جماعت کے رہنما کا انتخاب بہت اہم ہو گیا ہے۔

کلچادرلو کو چھ جماعتوں کے اتحاد کے ذریعے مشترکہ امیدوار کے طور پر منتخب کیے جانے کے بعد ان کے حامیوں کو جشن مناتے ہوئے دیکھا گیا۔

اپوزیشن کے لیے متحد ہونا آسان نہیں تھا

کرپشن کے خلاف لڑنے والے سابق سرکاری ملازم کلچادرلو کے لیے ترکی کی چھ اپوزیشن جماعتوں کا مشترکہ امیدوار بننا آسان نہیں تھا۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق پیر کے معاہدے کے بعد کلچادرلو کے جیتنے کے امکانات بڑھ سکتے ہیں کیونکہ گذشتہ جمعے کو دائیں بازو کی جماعت آئی وائی آئی کے احتجاج کے بعد حزب اختلاف تقسیم ہو گئی تھی۔

لیکن 72 گھنٹوں کی کوششوں کے بعد اپوزیشن جماعتوں نے پیر کو ایک بار پھر میٹنگ کی، جس میں آئی وائی آئی کی تجویز کو قبول کر لیا گیا۔

اس تجویز میں استنبول اور انقرہ کے میئر کو نائب صدر بنانے کی شرط بھی شامل ہے۔

کلچادرلو نے پیر کے روز اپنی تقریر میں کہا کہ باقی پانچ پارٹیوں کے رہنما بھی نائب صدر بنیں گے۔

اس سے پہلے آئی وائی آئی نے جمعہ کے روز کلچادرلو کے جیتنے کے امکانات پر خدشات کا اظہار کرتے ہوئے اتحاد سے دستبرداری اختیار کرلی تھی۔

آئی وائی آئی نے کہا تھا کہ اتحاد کو دو میئروں میں سے کسی ایک کو امیدوار کے طور پر منتخب کرنا چاہیے کیونکہ اس کی کارکردگی میں بہتری کا امکان ہے۔

تاہم پیر کے معاہدے کے بعد آئی وائی آئی نے اپنا موقف تبدیل کرتے ہوئے کلچادارلو کی حمایت کی ہے۔

ترکی کی سیاست پر نظر رکھنے والی تنظیم سٹریٹجک ایڈوائزری سروسز کے منیجنگ ڈائریکٹر ہاکان اکباس کا کہنا تھا کہ ’یہ اردوغان کے خلاف ایک بڑی سیاسی بغاوت ہے جس کے بعد اپوزیشن جماعتوں کو 14 مئی کو فیصلہ کن فتح ملنی چاہیے۔‘

ترکی کی پارلیمان میں تیسری سب سے بڑی جماعت ایچ ڈی پی نے کہا ہے کہ وہ کلچادرلو کی حمایت کرے گی۔ یہ جماعت کردوں کی حمایت کے لیے جانی جاتی ہے۔

پارٹی لیڈر مٹھان شنکر نے کہا، ‘ہماری بنیادی توقع مضبوط جمہوریت کی طرف بڑھنا ہے۔ اگر ہم بنیادی اصولوں پر متفق ہو سکتے ہیں تو ہم صدارتی انتخابات میں ان کی حمایت کر سکتے ہیں۔

جہاں اردوغان کو ترکی کی سیاست میں کرشماتی رہنما کے طور پر دیکھا جاتا ہے وہیں کمال کلچادرلو کو ترکی کا گاندھی یا کمال گاندھی کہا جاتا ہے۔

74 سالہ کمال کلاچادرلو ترکی کے بارے میں اردوغان سے ہٹ کر ایک مختلف نقطہ نظر پیش کرتے ہیں۔

تاہم، ان کے ساتھیوں کو لگتا ہے کہ ان میں ووٹ حاصل کرنے کی صلاحیت کم ہے۔

فی الحال کمال کلچادرلو نے کہا ہے کہ وہ اتفاق رائے اور مشاورت سے ترکی پر حکومت کریں گے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ہم امن کے حق میں ہیں۔ ہمارا واحد مقصد ملک کو خوشی، خوشحالی اور امن کے دور میں لے جانا ہے۔‘

اس کے ساتھ ہی انھوں نے کہا ہے کہ وہ ترکی میں پارلیمانی نظام بحال کریں گے۔

واضح رہے کہ ترکی کے موجودہ صدر رجب طیب اردوغان نے سال 2018 میں ترکی میں صدارتی نظام نافذ کیا تھا جس کے تحت انہیں لامحدود اختیارات حاصل ہوئے تھے۔

کلچادرلو کے معاونین انتخابات جیتنے کی ان کی اہلیت کے بارے میں فکرمند ہوسکتے ہیں، لیکن انھوں نے اپنی قبولیت بڑھانے کے لیے اقلیتی برادریوں تک پہنچنا شروع کر دیا ہے۔

انھوں نے دائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ اتحاد کیا ہے۔

اس کے ساتھ ہی انہوں نے اردوغان کو چیلنج کرنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے جو گذشتہ چند سالوں میں ان کی تنقید سے عدم رواداری کا شکار ہو گئے ہیں۔

ترکی

،تصویر کا ذریعہReuters

اردوغان کے لیے کتنا بڑا چیلنج

ترکی میں آنے والے زلزلے سے قبل بھی افراط زر 85 فیصد تک بڑھنے کی وجہ سے اردوغان کی مقبولیت میں کمی آئی تھی۔

لیکن انتخابی سروے کرنے والوں نے جمعے کے روز کہا کہ اردن اور ان کی جماعت اے کے ایک حد تک عوام میں اپنی حمایت بچانے میں کامیاب رہے ہیں۔

2002 ء میں اپنی کامیابی کے بعد سے اردوغان کی پارٹی کو کبھی بھی سنگین انتخابات میں شکست کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے ترکی کو ایک مقدس، تحفظ پسند معاشرے اور ایک جارحانہ علاقائی طاقت کے طور پر تشکیل دیا ہے۔

حزب اختلاف کی جماعتوں نے کہا ہے کہ وہ اردوغان کی طرف سے لائے گئے صدارتی نظام کو ختم کریں گے اور پارلیمانی جمہوریت کا نظام لائیں گے۔

دوسری جانب حزب اختلاف کی جماعتوں نے کہا ہے کہ وہ مرکزی بینک کو آزاد کرائیں گے جس نے معاشی ترقی بڑھانے کے لیے اردوان کے کہنے پر شرح سود میں کمی کی تھی لیکن اس اقدام سے ترک کرنسی لیرا میں تیزی سے گراوٹ اور افراط زر میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا۔

اپوزیشن جماعتوں نے 2019 میں ہونے والے انتخابات میں استنبول، انقرہ سمیت بڑے شہروں میں اے کے پارٹی کو شکست دے کر مل کر کام کرنا شروع کر دیا ہے۔

کلچادرلو کی امیدواری کا اعلان سننے آئے ایک سابق ٹیچر دیولت کاس نے کہا، ‘میں نے یہاں تاریخ بنتے ہوئے دیکھا ہے۔ ہم سب بدل جائیں گے. ہمارا ملک آزاد ہو جائے گا۔ اپوزیشن جماعتوں کی جیت کے بعد ہمارے بچے ایک آزاد اور خوش حال ملک میں رہیں گے۔

BBCUrdu.com بشکریہ