ترکی کے وہ ننّھے بچے جن سے زلزلے نے ان کی شناخت چھین لی
- مصنف, ٹام بیٹ مین
- عہدہ, بی بی سی نیوز، اڈانا، ترکی
زلزلے سے متاثرہ چھ ماہ کی اس بچی کا چہرہ زخمی ہے اور اس کی شناخت کے ٹیگ میں ’گمنام‘ لکھا ہے
ترکی کے اڈانا سٹی ہسپتال میں داخل زخمی بچوں میں بعض اتنے کم عمر ہیں کہ انھیں خود اندازہ بھی نہیں کہ ان کا کتنا نقصان ہو چکا ہے۔
میں نے ہسپتال کے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں ڈاکٹرز کو چھ ماہ کی ایک زخمی بچی کو بوتل سے دودھ پلاتے ہوئے دیکھا جس کے والدین کا پتہ نہیں چل سکا ہے۔ یہاں ایسے مزید سینکڑوں بچے موجود ہیں جن کے والدین یا تو زلزلے میں ہلاک ہو چکے ہیں یا لاپتہ ہیں۔
زلزلے نے پہلے ان کے گھر تباہ کر دیے اور اب ان سے ان کی شناخت بھی چھین لی ہے۔
ڈاکٹر نُرسہ کیسکن نے آئی سی یو میں داخل بچی کا ہاتھ تھام لیا جسے اب صرف اس کے بستر پر لگے ٹیگ سے جانا جاتا ہے جس پر اس کی شناخت ’گمنام‘ لکھی ہے۔
اس بچی کی کئی ہڈیاں ٹوٹیں ہوئی ہیں، اور اس کا چہرہ بری طرح زخمی ہے جبکہ آنکھ پر سیاہ نیل ہیں تاہم وہ ہمیں دیکھ کرمسکراتی ہے۔
ہسپتال کے ماہر امراض اطفال اور ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر کیسکن نے زخمی بچی سے متعلق تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہمیں یہ توعلم ہے کہ یہ بچی کہاں سے ملی اور یہاں تک کیسے پہنچی تاہم اس کا پتہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ہماری تلاش ابھی تک جاری ہے۔‘
ان میں سے زیادہ تر ایسے بچے ہیں جنھیں دوسرے علاقوں میں زلزلے سے تباہ شدہ عمارتوں سے نکال کر اڈانا کے ہسپتال منتقل کیا گیا۔
زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں بہت سے دوسرے طبی مراکز یا تو منہدم ہو گئے ہیں یا ان کی عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے ایسے میں اڈانا ایک امدادی مرکز میں تبدیل ہو گیا ہے۔ امدادی کارروائیوں کے دوران نوزائیدہ بچوں کو اسکندرون شہر کے ایک ایسے ہسپتال کے زچگی وارڈ سے یہاں پہنچایا گیا جو زلزلے سے متاثر ہو کر بری طرح تباہ ہو گیا تھا۔
ترکی کے صحت کے حکام کے مطابق ملک میں زلزلے سے متاثرعلاقوں میں اس وقت 260 سے زیادہ ایسے زخمی بچے موجود ہیں جن کی شناخت نہیں ہو سکی۔ اس تعداد میں ابھی مزید اضافے کا خدشہ موجود ہے کیونکہ مزید علاقوں تک رسائی ہونے سے بے گھر ہونے والوں کا تناسب بھی بڑھ رہا ہے۔
ڈاکٹرز کے مطابق بہت سے بچے صدمے اور خوف کے باعث بات نہیں کرپا رہے
میں ڈاکٹر کیسکن کے ساتھ زخمیوں سے بھرے ایک برآمدے میں چل رہا تھا جہاں بچ جانے والے زخمی افراد ٹرالیوں پر لیٹے تھے جبکہ کچھ کو ایمرجنسی ایریا میں بستروں پرکمبل اوڑھا کر رکھا گیا تھا۔
ہم ایک ایسی بچی سے بھی ملے جس کی عمر ڈاکٹروں کے مطابق پانچ سے چھ سال ہے۔ وہ بچی سو رہی تھی اور اسے دوائی قطروں کی صورت میں اس کی کلائی سے بندھی ڈرپ کے ذریعے دی جا رہی تھی۔
طبی عملے کے مطابق اس چھوٹی بچی کے سرمیں گہری چوٹ اور متعدد فریکچر ہیں۔ میں نے پوچھا کہ کیا وہ انھیں اپنا نام بتانے میں کامیاب رہی؟ میرے اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر ایلیکنور بینلے سیکر کا جواب نفی میں تھا۔
’نہیں، یہ بچی صرف آنکھوں سے رابطہ اور اشارے کر پاتی ہے۔ بہت سے بچے صدمے کی وجہ سے بات تک نہیں کر پا رہے، وہ اپنے نام جانتے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ جب ایک سے دو روز میں ان کی حالت بہتر ہو گی تو ہم ان سے بات کرنے میں کامیاب ہو پائیں گے۔‘
محکمہ صحت کے اہلکار کا کہنا ہے کہ وہ ان شناخت سے محروم بچوں کے گھروں اور والدین کے پتے ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں تاہم اب وہاں اکثرعمارات کے بجائے محض کھنڈرات ہیں۔
ترکی کے سوشل میڈیا پر بھی گمنام بچوں سے متعلق پیغامات بھرے ہوئے ہیں جہاں موجود تفصیلات میں بتایا گیا ہے کہ تباہ شدہ عمارتوں میں وہ بچے کس منزل پر رہتے تھے۔ بعض پیغامات میں امید ظاہر کی گئی ہے کہ غالباً انھیں بچا لیا گیا ہو گا اور طبی امداد کے لیے ہسپتال لے جایا گیا ہو گا۔
یہ بھی پڑھیے:
یہاں زندہ بچ جانے والے مریضوں اور طبی عملے کا دکھ ایک جیسا ہے۔
ڈاکٹر کیسکن بھی متاثرین میں سے ہیں جنھوں نے زلزلے میں اپنے رشتہ داروں کو کھو دیا اور آفٹر شاکس کے بعد اپنے بچوں کے ساتھ ہسپتال میں پناہ لی۔
میں نے ان سے پوچھا کہ وہ اس صورت حال کا کیسے مقابلہ کر رہی ہیں۔ تو ان کا کہنا تھا کہ ’میں ٹھیک ہوں، اور ٹھیک رہنے کی ہی کوشش کر رہی ہوں کیونکہ ان (بچوں) کو واقعی ہماری ضرورت ہے۔ لیکن میں خدا کا شکر ادا کرتی ہوں کہ میرے پاس اب بھی میرے بچے موجود ہیں۔ ایک ماں کے لیے اپنے بچے کو کھونے سے بڑا دکھ اور کوئی نہیں ہو سکتا۔‘
ہم سے کچھ آگے وارڈز میں بعض بچے اپنے والدین کے واپس آنے کے منتظر ہیں۔ کچھ بچوں کو ان کے خاندان سے دوبارہ ملا دیا گیا ہے تاہم ابھی بھی بہت سے زلزلے کے گمنام بچے ہی ہیں۔
Comments are closed.