- مصنف, رچرڈ کولیٹ
- عہدہ, نمائندہ فیچرز
- 14 منٹ قبل
سورج طلوع ہونے کے بعد میں میں مسافر کشتی پر سوار ہو چکا تھا۔ میری منزل ترکی میں واقع ’ادالار‘ یا شہزادوں کے جزائر تھی۔ ’ادالار‘ مجموعی طور پر نو چھوٹے بڑے جزیروں کا مجموعہ ہے۔ ان نو جزائر میں سے صرف چار آباد ہیں۔یہ وہ جزائر ہیں جہاں ماضی میں بازنطینی بادشاہ اور عثمانی سلطان سرکش اور تنگ کرنے والے شہزادوں اور اپنے دیگر حریفوں کو جلاوطن اور قید کرتے تھے۔ تاہم آج یہ ایسے منفرد جزیرے بن گئے ہیں جن کی سڑکوں پر گاڑیاں نہیں چلتیں۔یہ جزائر کشتی پر استنبول سے ایک گھنٹے کی دوری پر واقع ہیں اور یہاں آپ استنبول کے کثیر ثقافتی ماضی کی جھلک سے محظوظ بھی ہو سکتے ہیں اور استنبول کی ہنگامہ خیز اور شور سے بھرپور زندگی سے باہر جا کر تازہ ہوا اور پرسکون ماحول میں سانس بھی لے سکتے ہیں۔مؤرخ بیٹنی ہیوز اپنی کتاب ’استنبول: ٹیل آف تھری سیٹیز‘ میں ان جزائر کے بارے میں لکھتی ہیں ’یہاں (سرکش) شہزادوں کو نابینا کیا جاتا، اُن پر تشدد کیا جاتا، اور قید و جلاوطن کیا جاتا۔ آج جزائر کی جانب جانے والا خوشگوار سفر گذشتہ صدیوں میں عام طور پر ایک انتہائی تکلیف دہ سفر ہوتا ہو گا۔‘
ان جزائر کی جانب میری رہنمائی کرنے والی میری گائیڈ اوزگے اجارفروم نے مجھے بتایا کہ زبردستی ملک بدر کرنے والے لوگوں کی پناہ گاہ سے یہ خود ساختہ جلاوطنی کی جگہ کیسے بنی (یعنی اب یہاں افراد سکون میں تلاش میں خود سے جاتے ہیں)؟وہ کہتی ہیں کہ 1930 کی دہائی میں سویت یونین کے اُجرتی قاتلوں سے بچنے کے لیے لیون ٹراٹسکی نے یہاں پناہ لی تھی، جبکہ ماضی کے کئی معروف مصنفین اور فنکاروں نے بھی اس جگہ سے ’فیض‘ حاصل کیا۔ میری گائیڈ نے مجھے بتایا کہ کورونا کی وبا کے دوران وہ شہر کی زندگی چھوڑ کر یہاں ان جزائر پر آ کر آباد ہو گئی تھیں اور وہ یہاں کئی ماہ رہیں۔ انھوں نے بتایا کہ وہ کورونا کی وبا کے دوران کینالی آدا کے چھوٹے جزیرے کے ساحل پر مقیم رہی تھیں۔ کینالی آدا ان نو جزائر میں سے ایک جزیرہ ہے۔،تصویر کا ذریعہRichard Collettکینالی آدا کے سامنے سے گزرتے ہوئے میری گائیڈ نے کہا کہ ’موسم سرما میں کینالی آدا کے جزیرے پر صرف 500 لوگ رہتے ہیں۔ میں استنبول میں نہیں رہنا چاہتی تھی لہذا میں نے رضاکارانہ طور پر جلا وطنی اختیار کی۔ یہاں دن میں صرف پانچ سے چھ مسافر کشتیاں آتی ہیں، آپ ایک ہی جیسی شکلیں دیکھتے ہیں، آپ انھی لوگوں سے بات کرتے ہیں اور اُن کی کہانیوں کے بارے میں جانتے ہیں۔‘اوزگے صرف ایک ٹور گائیڈ نہیں ہیں بلکہ وہ ایک ماہر ’ایپیگرافسٹ‘ ہیں اور انھیں قدیم زبانوں کے بارے میں بھی بہت معلومات ہیں۔ انھوں نے ان نو جزائر میں سے چار آباد جزیروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان کے قدیم یونانی نام بھی بتائے۔ وہ بتاتی ہیں کہ قدیم زمانے میں کینالی آدا کو یونانی زبان میں ’پروتی‘ کہا جاتا تھا جس کا مطلب تھا ’پہلا‘، بُرگز آدا کو ’اینٹی گونی‘ کہا جاتا تھا، ہیبیلی آدا کو (ہلکی) اور بیوک آدا کو (پرانکیپو) کہا جاتا تھا۔سنہ 1453 میں قسطنطنیہ کی عثمانیوں کے ہاتھوں فتح کے بعد بھی یہ جزائر اپنی بازنطینی شناخت کیسے قائم رکھ پائے، اس بارے میں اوزگے کہتی ہیں کہ ’روایتی طور پر اِن جزیروں پر رہنے والے زیادہ تر لوگ استنبول کے اقلیتی گروہوں میں سے تھے۔ خاص طور پر یونانی اور آرمینیائی۔ یہ عموماً کثیر ثقافت سلطنت عثمانیہ کے اشرافیہ ہوتے تھے اور ان میں سے بہت سے قدیمی خاندانوں کے آج بھی یہاں گھر ہیں۔‘کثیر الثقافت ہونا سلطنت عثمانیہ کا خاصہ تھا جس نے بلقان خطے سے لے کر شمالی افریقہ تک کی قومیتوں اور نسلوں کو اپنے اندر جذب کر لیا تھا۔ لیکن پہلی عالمی جنگ اور سلطنت عثمانیہ کے اختتام کی وجہ سے مسلمانوں اور عیسائیوں کی بڑی آبادی کی نئی ریاست ترکی اور پڑوس میں یونان کے درمیان تقسیم ہو گئی۔،تصویر کا ذریعہAlamyاستنبول کافی مختلف تھا، پہلے تو یونانی اور آرمینیائی لوگوں کو شہر اور جزائر میں رہنے کی اجازت دی گئی۔ نقل مکانی، انضمام اور بعض اوقات امتیازی سلوک اور قتل و غارت کی وجہ سے شہر کی یونانی برادری کو 20ویں صدی میں کم ہوتے دیکھا گیا، لیکن کچھ آج بھی عثمانی دور کی باقیات ان جزیروں میں پائے جاتے ہیں۔یہ بتاتے ہوئے کہ کس طرح مشکل اور مصائب سے بھرپور تاریخ نے جزیرے کی ایک منفرد شناخت بنائی ہے، اوزگے کہتی ہیں کہ ’ماضی کے ساتھ ایک جذباتی رشتہ ہے اور جزیرے کے لوگوں کو اس پر فخر ہے۔ انھیں لگتا ہے کہ ان کی کہانی میں تسلسل ہے اور انھیں اس پر فخر ہے۔‘ہم ہیبیلی آدا پہنچے (جس کا ترکی زبان میں مطلب ہے زين کا تھيلا)، یہ ان نو جزائر میں دوسرا سب سے بڑا جزیرا ہے۔ یہاں ریسٹورانٹ بندرگاہ پر قطار میں بنے ہوئے تھے۔ ان میں سے بہت ساروں کا رنگ یونانی آرتھوڈوکس سے منسلک روایتی سفید اور نیلا ہے اور عثمانی سلطنت کے طرز کے مکانات چوڑے درختوں سے جڑے بلیوارڈز پر چھائے ہوئے تھے۔ایک پولیس کی گاڑی کے علاوہ اس جزیرے پر گاڑیاں نہیں تھیں۔ ہم ایک بجلی سے چلنے والی گالف کارٹ پر سوار ہوئے اور نویں صدی کے آیا تريادا خانقاہ کی طرف نکل گئے۔ایک آرتھوڈوکس عیسائی خانقاہ کے صحن میں ترکی کا جھنڈا لہرا رہا تھا اور ہماری ملاقات داخلی ہال میں سیاہ لباس میں ملبوس ایک پادری میلیٹیوس سٹیفاناتوس سے ہوئی۔ انھوں نے ہمیں ایک لائبریری کا دورہ کروایا جس میں دھول آلود مذہبی متن اور الیاڈ جیسی قدیم قصے کہانیوں کی کتابیں موجود تھیں۔انھوں نے ہمیں ایک ہزار سال پرانے بازنطینی شبیہوں سے سجا ہوا ایک چیپل دکھاتے ہوئے کہا ’ ہیبیلی آدا میں اکثریت لوگ مسلمان ہیں، لیکن آرمینیائی عیسائیوں کے چھوٹے گروہ بھی ہیں اور شاید 30 سے 40 یونانی عیسائی بھی۔‘میلیٹیوس سٹیفاناتوس کا تعلق ایتھنز سے ہے اور وہ گذشتہ چار سالوں سے جزیرے پر مقیم ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ 1844 میں اس خانقاہ میں حالکی مکتب فکر کی بنیاد رکھی گئی۔ لیکن علم و تدریس کا ایک اہم مقام ہونے کے باوجود ترکی اور یونان کے درمیان دیرینہ تنازعات کے نتیجے میں 1971 میں یہ خانقاہ بند ہو گئی۔،تصویر کا ذریعہRichard Collettیہ بتاتے ہوئے کہ وہ آزادی سے خانقاہ میں عبادت کر سکتے ہیں لیکن درس نہیں دے سکتے، وہ کہتے ہیں کہ ’لیکن جزیرے کے لوگ ہمارے ساتھ بہت اچھے ہیں۔ مسئلہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان نہیں ہے اور نہ ہی ترک اور یونانی لوگوں کے درمیان ہے۔ ہم کئی سالوں سے اکٹھے رہ رہے ہیں، یہ خالص سیاسی مسئلہ ہے۔‘ہم پیدل واپس ساحل کی طرف گئے جہاں سے کشتی نے ہمیں بویوک آدا لے کر جانا تھا۔ دس منٹ بعد ہم ’بڑے جزیرے‘ پر پہنچ گئے جہاں سمند کے کنارے پر یونانی طرز کے ہوٹلوں کی بھرمار تھی۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ جزائر ماضی میں پھنس گئے ہیں اور یہاں موجود بہت سے ریسٹورانٹ، ہوٹل اور کیفیز پر یونان کا نیلا اور سفید رنگ لگا ہوا ہے۔اوزگے سمجھاتی ہیں کہ اس کے باوجود کہ بہت کم لوگ اپنی شناخت بطور یونانی آرتھوڈوکس عیسائی کراوتے ہیں لیکن جزیرے کے باشندے اپنے ورثے کو دکھانا پسند کرتے ہیں جو یہاں آنے والے متجسس ترک سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔یونانی طرز کے ریسٹورانٹ میں ہم سبزی کباب کے کھانے کے بعد ہم جزیرے کی سیر کے لیے الیکٹرک بس پر چڑھ گئے۔جب ہم بس سے اترے اور چٹان کی چوٹیوں پر واقع ایک پرانے آرمینیائی چرچ کے لیے راستے پر چلنے لگے تو اوزگے نے کہا ’سوچیں (16 ملین) آبادی والے شہر کے ساتھ اس طرح کے خاموش جزیرے کو کیسے رکھا جاتا ہو گا۔ میں اس کوشش کا احترام کرتی ہوں۔ چھ یا سات ملین یورو کے گھروں کے مالک اپنی بی ایم ڈبلیو اور چمکتی گاڑیاں یہاں نہیں لا سکتے۔ جزیرے کی ایک ثقافت ہے اور لوگوں کو اسے اپنانا ہو گا۔‘کیونکہ یہاں گاڑیوں کی اجازت نہیں ہے مقامی افراد بجلی سے چلنے والی سکوٹر اور گالف بگیز استعمال کرتے ہیں جبکہ سیاح کرائے کی سائیکل لے سکتے ہیں، بجلی سے چلنے والی بسیں استعمال کر سکتے ہیں یا پیدل چل سکتے ہیں۔بجلی سے چلنے والے ذرائع آمد و رفت ایک اچھی تبدیلی ہے۔ جب میں سنہ 2016 میں یہاں آیا تھا تو سیاح ٹانگے استعمال کرتے تھے۔ گھوڑوں کو غلیظ ماحول میں رکھا جاتا تھا لہذا 2020 میں مقامی حکومت نے بگیوں پر پابندی لگا دی تھی اور اس کی جگہ بجلی سے چلنے والی گاڑیاں متعارف کروا دیں۔ان دنوں جزیرے سرزمین سے اچھی طرح جڑے ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود ادالار حیرت انگیز طور پر سرسبز رہنے میں کامیاب رہے ہیں۔ہم نے بویوک آدا میں چند کلو میٹر کی چہل قدمی کی اور اس راستے پر چلے جو جنگل سے گزرتا ساحل پر پہنچ جاتا ہے اور اس راستے میں آپ کو عثمانی شہزادوں کے محلات بھی نظر آتے ہیں۔ شہروں سے آنے والے لوگوں میں یہاں کا سبزا بہت مقبول ہے، وہ یہاں تازہ ہوا اور قدرت کے قریب ہونے کے لیے آتے ہیں۔ہم بس پر واپس چلے گئے اور پھر شاندار 19ویں صدی کے بنے ہوئے ٹرمینل پر اگلی کشتی کا انتظار کرنے لگے۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesاستنبول میں میرے دورے سے پہلے ایک مقامی ٹور گائیڈ گلپیری پارلاک نے مجھے کہا تھا ’اگر آپ چند دنوں کے لیے استنبول میں ہیں تو میں ادالار جانے کا مشورہ نہیں دوں گا لیکن اگر آپ کے پاس زیادہ وقت ہے تو آپ کو جانا چاہیے۔ گرمیاں بہترین وقت ہے جزیروں میں جانے کے لیے۔ ہم مقامی لوگ ریتیلے ساحل پر جا کر دھوپ کا مزہ لیتے ہیں۔‘مقامی لوگوں کا پیغام ہے کہ جلدی مت کریں اور جزائر پر آرام سے سیر کریں، خوبصورت نظاروں کو جذب کریں اور منفرد کثیر الثقافتی ماحول سے استفادہ حاصل کریں۔جب کشتی جا رہی تھی تو اوزگے نے خبردار کیا کہ ’سارا دن جزیروں پر گزارنے کے بعد آپ کو مارمرائے لائن (استنبول کی مقامی ریلوے) عجیب لگے گی۔‘وہ درست کہہ رہی تھیں کشتی نے ہمیں سیدھا استنبول کی گہما گہمی میں پہنچا دیا جہاں ہم شہر کے ایشیا سے یورپ کے حصے کی طرف جانے والی ریل گاڑی پر مشکلوں سے سوار ہوئے۔ابھی جزائر سے نکلے زیادہ وقت نہیں گزرا تھا لیکن مجھے ادالار میں جلاوطنی کا ایک اور دن گزارنے کی خواہش ہو رہی تھی۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.