- مصنف, ناماک خوشناؤ، کرسٹوفر جائلز اور صفورا سمتھ
- عہدہ, بی بی سی آئی
- 48 منٹ قبل
شمال مشرقی شام کے خشک سالی سے متاثرہ علاقے میں ترکی کی جانب سے کی جانے والی بمباری کے باعث دس لاکھ سے زیادہ افراد کے لیے بجلی اور پانی کی فراہمی بند ہو گئی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بمباری بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ اکتوبر 2019 سے جنوری 2024 تک ترکی نے مشرقی اور شمالی شامی علاقوں میں کردوں کے ماتحت خودمختار علاقوں میں 100 سے زیادہ حملے کیے ہیں۔ بی بی سی کی جانب سے جمع کیے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق ترکی نے اِن علاقوں میں تیل و گیس کی تنصیبات اور بجلی گھروں کو نشانہ بنایا ہے۔ ان علاقوں میں پہلے ہی خانہ جنگی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں خشک سالی تھی تاہم ترکی کے حملوں نے اس صورتحال کو مزید ابتر بنا دیا ہے۔
یہاں پانی کی قلت تو پہلے ہی سے تھی لیکن گذشتہ برس اکتوبر میں بجلی کے انفراسٹرکچر پر حملوں کے نتیجے میں ’الوک‘ نامی علاقے میں پانی کا مرکزی سپلائی سٹیشن مکمل طور پر ناکارہ ہو گیا تھا۔ بی بی سی کو مقامی صورتحال دیکھ کر اندازہ ہوا کہ وہاں لوگ پانی کے حصول کی جی توڑ کوششیں کر رہے ہیں۔ ان حملوں کے حوالے سے ترکی کا کہنا تھا کہ اُن کی جانب سے کرد علیحدگی پسند ’دہشتگردوں‘ کے آمدن کے ذرائع کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ترکی کا مزید کہنا ہے کہ اسے معلوم ہے کہ علاقے میں خشک سالی ہے اور پانی کی سپلائی کے ناقص انتظامات اور انفراسٹرکچر پر عدم توجہ کے سبب حالات مزید بدتر ہو گئے ہیں۔ دوسری جانب کرد گروہ (روجاوا) نے الزام عائد کیا ہے کہ ترکی اس علاقے کے لوگوں کو تباہ کرنا چاہتا ہے۔
- ترکی کردوں کے ساتھ امریکی اتحاد قبول نہیں کرے گا: اردوغان17 مئ 2017
- ’کردوں کا پہاڑوں کے سوا کوئی دوست نہیں‘11 اکتوبر 2019
اس جنگ کے نتائج کو موسمیاتی تبدیلی سے بھی جوڑا جا رہا ہے۔ سنہ 2020 سے شمال مشرقی شام اور عراق کو شدید اور غیر معمولی خشک سالی نے اپنے شکنجے میں لے رکھا ہے۔ موسم سے متعلق یورپیین کلائمیٹ ڈیٹا کے مطابق گذشتہ 70 سال میں ان علاقوں میں درجہ حرارت دو ڈگری بڑھا ہے۔ ایک وقت تھا جب دریائے خابور حسکہ میں پانی کی فراہمی کا ذریعہ تھا، لیکن اب اس کی سطح بہت کم ہو گئی ہے اس لیے لوگ آلوک واٹر سٹیشن سے پانی لینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ مگر سنہ 2019 میں ترکی نے راس العین کے علاقے کا کنٹرول حاصل کیا جہاں آلوک بھی واقع ہے۔ ترکی کا کہنا ہے کہ وہ ایک ’سیف زون‘ بنانا چاہتا ہے تاکہ وہاں سے وہ ملک کو دہشت گردوں کے حملوں سے بچا سکے۔ اس کے دو سال کے بعد سے اقوام متحدہ نے آلوک سے شمال مشرقی شام میں مسلسل بنیادوں پر پانی کی سپلائی بند ہونے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور کہا کہ علاقے میں کم ازکم 19 مرتبہ پانی کی سپلائی میں خلل آیا۔ فروری 2024 میں اقوام متحدہ کے ایک آزاد کمیشن نے رپورٹ شائع کی جس میں کہا گیا کہ اکتوبر 2023 میں بجلی کی تنصیبات پر حملوں کو جنگی جرائم قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ اس کی وجہ سے شہریوں تک پانی کی رسائی ختم ہو گئی تھی۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.