یوکرین جنگ: ترکی کو سویڈن اور فن لینڈ کے نیٹو اتحاد کا حصہ بننے پر کیا اعتراض ہے؟
سویڈن اور فن لینڈ کی جانب سے نیٹو اتحاد میں شمولیت کی باضابطہ درخواست دائر کیے جانے کے بعد نیٹو کے ایک ممبر ملک، ترکی، نے ان کی نیٹو میں شمولیت کی مخالفت کا اعلان کیا ہے۔ ترکی کی مخالفت کی وجہ دونوں ملکوں کا کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) اور کرد جنگجوؤں کے حوالے سے موقف ہے۔
نیٹو اتحاد میں کسی نئے ممبر کی شمولیت کے لیے اتحاد کے موجودہ 30 ممبران کی رضامندی لازمی ہے۔
ترکی کی مخالفت کی وجہ کیا ہے اور کیا سفارت کاری کے ذریعے کوئی گنجائش نکالی جا سکتی ہے؟
ترکی کیوں مخالفت کر رہا ہے؟
ترکی 1952 سے نیٹو اتحاد کا حصہ ہے اور وہ ماضی میں نیٹو اتحاد میں توسیع کا حامی رہا ہے۔ ترکی نے 1999 اور 2004 میں نیٹو کی سابق سوویت یونین علاقوں کی جانب توسیع پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا تھا۔
یوکرین پر روسی حملے نے سویڈن اور فن لینڈ کو اپنی غیرجانبداری کی پالیسی کو ترک کرنے پر مجبور کیا ہے
ترک صدر رجب طیب اردوغان نے فن لینڈ اور سویڈن پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ کرد پارٹی پی کے کے اور کردش پیپلز پروٹیکشن یونٹ (وائی جی پی) کی حمایت کرتے ہیں جنھیں ترکی دہشتگرد تنظیمیں گردانتا ہے۔
یورپی یونین، برطانیہ، اور امریکہ بھی پی کے کے کو دہشتگرد تنظیم تسلیم کرتے ہیں لیکن وہ پی کے کے سے منسلک وائی جی پی کے ساتھ شام میں نام نہاد دولت اسلامیہ کے خلاف مل کر کام کرتے ہیں۔
انقرہ کا کہنا ہے کہ دونوں ملک کرد پارٹی سے منسلک ممبران کو پناہ فراہم کرتے ہیں۔
جب ترکی نے 2019 میں شمالی شام میں وائی پی جی کے خلاف فوجی آپریشن شروع کیا تو فن لینڈ اور سویڈن نے ترکی کو اسلحہ کی فروخت پر پابندی عائد کر دی۔
کارنیگی یورپ کے سکالر اور ترک سفارت کار سنان اولگن کے مطابق ترکی کے کچھ جائز خدشات ہیں جنھیں وہ سویڈن اور فن لینڈ کی نیٹو میں شمولیت سے پہلے حل کرانا چاہتا ہے۔
سنان اولگن نے بی بی سی کو بتایا کہ ترکی کی خصوصاً سویڈن سے ’جائز شکایات‘ ہیں اور یہ سویڈن کی پی کے کے اور اس سے منسلک تنظیموں سے متعلق ہیں۔
ترکی کا کہنا ہے کہ سویڈن نے ترکی کے مطالبے پر 21 ایسے افراد کو حوالے کرنے سے انکار کیا جن کے مبینہ طور پر دہشتگردوں سے تعلقات ہیں۔ اسی طرح فن لینڈ نے بھی 12 افراد کو ترکی کے حوالے سے انکار کیا ہے۔
سنان اولگن کا کہنا ہے کہ ’ترکی کے کئی مطالبات ہیں اور وہ سمجھتا ہے کہ اب وہ اس پوزیشن میں ہے کہ وہ سویڈن سے اپنی شرائط منوا لے۔‘
ترکی اور یونان کی کیوں باتیں ہو رہی ہیں؟
موجودہ صورتحال پر بحث کے دوران 1974 میں ترکی کے قبرص کے ایک حصے میں فوجیں بھیجنے کا معاملہ پھر سے زیر بحث آیا ہے۔
جب ترکی نے 2019 میں شمالی شام میں وائی پی جی کے خلاف ملٹری آپریشن شروع کیا تو فن لینڈ اور سویڈن نے ترکی کو اسلحے کی فروخت پر پابندی عائد کر دی
یونان نے 1974 میں نیٹو چھوڑنے کا اعلان کیا تھا۔ یونان کا موقف تھا کہ نیٹو نے قبرص پر ترکی کے حملے پر کارروائی کرنے سے انکار کیا تھا۔ لیکن یونان چھ سال بعد، 1980 میں ایک بار پھر نیٹو میں شامل ہو گیا اور ترکی نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا۔
لندن سکول آف اکنامکس سے منسلک پروفیسر یپرک گرسوائے کا کہنا ہے کہ ترکی اسے اپنی غلطی سمجھتا ہے اور وہ اس غلطی کو دہرانا نہیں چاہتا۔
پروفیسر یپرک گرسوائے نے بی بی سی کو بتایا کہ ترکی میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ اگر ترکی نے اس وقت یونان کی نیٹو میں واپسی پر اعتراض کیا ہوتا تو شاید کچھ مسائل جو ابھی تک موجود ہیں وہ حل ہو سکتے تھے۔
اب یونان اور قبرص دونوں یورپی یونین کے ممبر ہیں اور دونوں کا سفارتی اثرو رسوخ زیادہ ہے اور ترکی نے اس وقت برابری کی سطح پر آنے کا موقع گنوا دیا تھا۔
پروفیسر گرسوائے کہتی ہیں ’یہاں ترکی کے لیے ایک پیغام ہے اور وہ وہی غلطی دوبارہ نہیں کرنا چاہتا۔‘
ترکی چاہتا کیا ہے؟
ترک صدر کی فن لینڈ اور سویڈن کی مخالفت کے باوجود کئی مبصرین سمجھتے ہیں کہ ترک صدر مذاکرات کریں گے اور بالآخر وہ نیٹو اتحاد میں توسیع پر اپنے اعتراضات ختم کر دیں گے۔
سنان اولگن کہتے ہیں: ’میں سمجھتا ہوں کہ ترکی سویڈن پر دباؤ ڈالنا چاہتا ہے تاکہ وہ پی کے کے اور اس کی کارروائیوں کے حوالے اپنے موقف پر نظر ثانی کرے۔‘
امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن کا کہنا ہے کہ انھیں یقین ہے کہ ترکی کے اعتراضات ختم ہو جائیں گے
پروفیسر گرسوائے کہتی ہیں کہ ترکی کے پاس اہم موقع ہے اور وہ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر کچھ مانگ رہا ہے۔ ترکی اس موقع پر اپنے اتحادیوں کو باور کروا رہا ہے کہ وہ اس کے عالمی اور اندرونی سیکورٹی کے خدشات پر غور کریں۔
ترکی کے وزیر خارجہ میولت چووشولو کا 18 مئی کو امریکہ کا دورہ اور امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن سے ملاقات اس معاملے میں بہت اہم ہے۔
اطلاعات کے مطابق ترکی امریکہ کے ایف 35 سٹیلتھ فائٹر جیٹ کے منصوبے میں اپنی سرمایہ کاری کے بدلے 40 جدید ایف سولہ طیارے خریدنے اور موجودہ 80 ایف سولہ طیاروں کو جدید بنانے کا خواہشمند ہے۔
ترکی کو روس سے ایس 400 اینٹی میزائل سسٹم خریدنے کی وجہ سے ایف 35 طیارے کے منصوبے سے نکال دیا گیا تھا۔
اس ملاقات سے پہلے امریکی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ انھیں یقین ہے کہ ترکی، سویڈن اور فن لینڈ کے مابین جاری بات چیت سے ترکی کے اعتراضات ختم ہو جائیں گے۔
تھینک ٹینک چیٹم ہاؤس سے منسلک گالپ دالے نے بی بی سی کو بتایا کہ صدر اردوغان کی پوزیشن ان کی ناراضی کا اشارہ ہے اور سفارتی کاری کی گنجائش موجود ہے۔ ’میں سمجھتا ہوں کہ جون کے آخر میں میڈرڈ میں نیٹو کے سربراہی اجلاس سے پہلے ترکی، نیٹو، سویڈن اور فن لینڈ میں سفارت کاری دیکھی جائے گی۔‘
گالپ دالے کہتے ہیں کہ اگر 30 جون تک معاملات حل نہ ہوئے تو پھر یہ معاملہ بحران کی شکل اختیار کر جائے گا اور یہ بحران صرف سویڈن اور فن لینڈ کے لیے نہیں ہو گا بلکہ ترکی اور نیٹو کے مابین بھی بحران ہو گا۔
نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینز سٹولٹنبرگ نے کہا ہے کہ دونوں ملک نیٹو اتحاد کے قریبی ترین پارٹنر ہیں۔
کیا اس طرح کے اختلافات پہلے بھی سامنے آئے ہیں؟
نیٹو کی 73 سالہ تاریخ میں پہلے بھی کئی اختلافات سامنے آ چکے ہیں۔
سب سے تازہ ترین جھگڑا تب سامنے آیا تھا جب یونان نے میسیڈونیا کی نیٹو میں شمولیت پر یہ کہہ کر اعتراض کیا کہ وہ یونانی تاریخی ورثے کو چوری کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یونان نے 10 برس تک میسیڈونیا کی نیٹو میں شمولیت کو روکے رکھا۔ اس مسئلے کا بالآخر یہ حل نکالا گیا کہ میسیڈونیا نے اپنا آئینی نام بدل کر نارتھ میسیڈونیا رکھ لیا۔
ترکی نے 2009 میں ڈنمارک کے وزیر اعظم آندرے راسموسن کے نیٹو چیف بننے پر اعتراض کیا تھا۔ ترکی کا اعتراض تھا کہ آندرے فاگ راسموسن نے 2006 میں پیغمبرِ اسلام کے کارٹون بنانے کے بحران میں کمزور قیادت کا مظاہرہ کیا تھا۔
ڈینش فنکار کرٹ ویسٹرگرٹ نے پیغمبر اسلام کے خاکے بنائے تھے جس پر اسلامی دنیا میں شدید غم و غصے کا اظہار کیا گیا تھا۔
ترکی نے بات چیت کے بعد نیٹو میں اچھے سیاسی اور فوجی عہدے لینے کے بعد راسموسن کی تعیناتی پر اپنے اعتراضات کو ختم کر دیا تھا۔
اب کیا ہو گا؟
سویڈن اور فن لینڈ کی جانب سے نیٹو اتحاد میں شمولیت کی باضابطہ درخواستوں کے بعد اب نیٹو اتحاد کے تمام ممبران کے لیے ایک پروٹوکول تیار کیا جائے گا۔
عام حالات میں نیٹو اتحاد کا حصہ بننے کے لیے بات چیت کا طویل سلسلہ شروع ہوتا ہے لیکن موجودہ عالمی حالات میں توقع کی جا رہی ہے کہ جون کے آخر میں نیٹو ممبران کی سربراہ کانفرنس سے پہلے سویڈن اور فن لینڈ کی درخواستوں کے تکنیکی معاملات کو طے کر لیا جائے گا۔
امید کی جا رہی ہے کہ نیٹو سربراہان سویڈن اور فن لینڈ کی درخواست کی منظوری دے دیں گے جس کی ہر ممبر ملک کی پارلیمنٹ سے توثیق ہونا لازم ہے۔
کئی عوامل سویڈن اور فن لینڈ کے حق میں ہیں۔ دونوں ملک لمبے عرصے سے نیٹو کے پارٹنر ہیں، دونوں ملک ترقی یافتہ جمہورتیں ہیں جن کے پاس بہت کارآمد افواج ہیں۔
دونوں ملکوں کی درخواستیں وصول کرتے ہوئے نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینز سٹولٹنبرگ نے کہا : ’آپ ہماے قریبی پارٹنر ہیں اور آپ کی نیٹو میں شمولیت ہماری مشترکہ سکیورٹی میں اضافے کا باعث ہو گی۔‘
سابق امریکی سفیر مارک گرین کا کہنا ہے کہ سویڈن اور فن لینڈ کی شمولیت سے نیٹو کی صلاحیت میں خاطر خواہ اضافہ ہو گا۔
سابق امریکی سفیر نے بی بی سی کو بتایا: ’یہ یاد رکھیں کہ نیٹو ایک دفاعی نظام کا نام ہے۔ یہ صرف اسی وقت متحرک ہو گا جب روس نیٹو کے علاقے میں گھسے گا۔ لہذا یہ ضروری ہے کہ ہم ایسے اتحاد بنائیں۔ حملے کے بعد کچھ کرنے کا کوئی مقصد نہیں ہے۔‘
Comments are closed.