ترکی کا زلزلہ جہاں ماں اپنے دس دن کے بچے کے ساتھ ملبے کے پہاڑ تلے چار دن تک دفن رہی

  • مصنف, ایلس کیڈی
  • عہدہ, بی بی سی نیوز ، سویدیہ ترکی

turkey

ترکی اور شام میں تباہ کن زلزلے کو آئے ایک ہفتہ گزر گیا ہے۔ اس زلزلے میں جہاں ہزاروں افراد اپنی زندگی کی بازی ہار گئے وہیں مایوسی کے لمحات میں متاثرین کی چند ایسی کہانیاں بھی سامنے آئیں جو کسی معجزے سے کم نہیں۔

ایسی ہی دل چھو لینے والی ایک کہانی نیکلا کموز اور ان کے نومولود بیٹے یاگیز کی بھی ہے۔

ترکی کے جنوبی صوبے ہاتائے کی رہائشی نیکلا کاموز نے 27 جنوری کو اپنے دوسرے بیٹے کو جنم دیا اور اس کا نام یاگیز رکھا جس کے معنی ہیں ’بہادر‘۔

اس رات 33 سالہ نیکلا کاموز گھر میں اپنے 10 دن کے بیٹے یاگیز کو دودھ پلا رہی تھیں جب مقامی وقت کے مطابق چار بج کر 17 منٹ پر زلزلہ آیا اور چند لمحوں کے اندر وہ دونوں ماں بیٹے ملبے کے ڈھیر تلے دب گئے۔

نیکلا اور ان کا خاندان سویدیہ کےعلاقے میں واقع ایک جدید پانچ منزلہ عمارت کی دوسری منزل پر رہتے تھے۔

نیکلا کا کہنا ہے کہ وہ ایک اچھی عمارت تھی اور وہ خود کو وہاں بہت محفوظ سمجھتی تھیں۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ علاقہ زلزلے سے اس قدر متاثر ہو گا کہ جہاں ہر موڑ پر موجود لوگوں سے بھری عمارتیں تباہ اور برباد ہو جائیں گی۔

’جب زلزلے کے جھٹکے شروع ہوئے تو میں دوسرے کمرے میں موجود اپنے شوہر کے پاس جانا چاہتی تھی اور وہ بھی یہی چاہتے تھے لیکن جب انھوں نے ہمارے دوسرے بیٹے کے ساتھ میرے پاس آنے کی کوشش کی تو الماری ان پر گر گئی اور ان کے لیے حرکت کرنا ممکن نہ رہا۔‘

’زلزلے کے جھٹکے شدید ہوتے گئے یہاں تک کے ہماری دیوارگر گئی، اس وقت کمرہ لرز رہا تھا اور عمارت بھی اپنی جگہ سے ہل چکی تھی۔ جب عمارت لرزنا بند ہوئی تو مجھے یہ احساس نہیں ہوا کہ میں ایک منزل سے نیچے گر گئی ہوں۔ میں نے اپنے شوہر کا نام پکارا لیکن مجھے کوئی جواب نہیں ملا۔‘

چند لمحوں بعد نیکلا نے اپنے ننھے بچے کو اپنے سینے پر لیٹا پایا جو اس تمام عرصے میں اب بھی ان کی بازوؤں کے حصار میں موجود تھا۔ زلزلے کے جھٹکوں سے گرنے والی الماری کنکریٹ کے ایک بڑے سلیب کو ان دونوں پر گرنے سے روکنے میں حائل رہی اور وہ کچلنے سے محفوظ رہے۔

یہ دونوں ماں بیٹے ملبے کے ڈھیر میں تقریباً چار دن تک اسی پوزیشن میں رہے۔

ترکی زلزلہ

ملبے کے ڈھیر میں پہلا دن: ’کوئی ہے، کیا کوئی مجھے سن سکتا ہے‘

ملبے کے ڈھیر کے نیچے دبی نیکلا کو اپنے آس پاس گھپ اندھیرے کے سوا کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اس لیے انھیں اپنے اردگرد کے ماحول سے متعلق جاننے کے لیے اپنے دیگر حواسوں پر انحصار کرنا پڑا۔

ان کے اطمینان کے لیے سب سے بڑی بات یہ تھی کہ ان کا نومولود بیٹا یاگیز ابھی تک سانس لے رہا تھا۔

دھول اور مٹی کی وجہ سے انھیں پہلے تو سانس لینے کے لیے دشواری محسوس ہوئی لیکن وہ ملبے میں دبے ہونے کی وجہ سے سردی سے محفوظ تھیں اور انھوں نے خود کو تسلی دی کہ سب جلدی ٹھیک ہو جائے گا۔

انھیں لگا جیسے ان کے نیچے بچوں کے کھلونے دبے ہوئے ہیں لیکن وہ اسے چیک کرنے یا خود کو زیادہ آرام دہ پوزیشن میں لانے کے لیے کوئی تدبیر نہیں کر سکتی تھیں۔

الماری کے علاوہ نیکلا اپنے نوزائیدہ بیٹے کی ملائم جلد اور پہنے گئے کپڑوں کے لمس کے علاوہ جو محسوس کر پا رہی تھیں وہ کنکریٹ اور ملبے کا ڈھیر تھا۔

انھیں دور سے کچھ آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ نیکلا نے مدد کے لیے چیخنے کی کوشش کی اور الماری پر ہاتھ مارنے شروع کیے اور زور سے بولیں۔ ’کوئی ہے، کیا کوئی مجھے سن سکتا ہے۔۔۔‘

جب ان کی یہ کوششیں کام نہ آئیں تو انھوں نے اپنے آس پاس بکھرے ملبے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو اٹھایا اور ان کو الماری پر مارنے لگیں کہ شاید اس کی نسبتاً تیز آواز سے کوئی متوجہ ہو تاہم اس دوران انھیں ڈر رہا کہ الماری ان کے اوپر گر نہ جائے لیکن ان کی ان آوازوں کا کہیں سے جواب نہ آیا۔

نیکلا کوخدشہ ہوا کہ شاید ان کی جانب کوئی بھی نہیں آئے گا۔ ’میں بہت گھبرا گئی تھی۔‘

’سب سے پہلے وقت گزرنے کا احساس کھویا‘

ملبے کے نیچے گھپ اندھیرے میں نیکلا نے سب سے پہلے وقت گزرنے کا احساس کھو دیا اور ساتھ ہی انھیں ان گنت اندیشوں نے گھیر لیا۔

’جب ننھا بچہ پیدا ہوتا ہے تو والدین اپنی زندگی کے لیے بہت سی نئی چیزوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں اور پھر ایک دن اچانک آپ ملبے کے نیچے دب جاتے ہیں۔‘

ان تمام خدشات کے باوجود وہ جانتی تھیں کہ انھیں اپنے بیٹے یاگیز کی دیکھ بھال کرنی ہے۔

اس چھوٹی سی جگہ میں وہ اسے دودھ پلانے کے قابل ضرور تھیں تاہم ان کے اپنے لیے نہ پانی تھا نہ خوراک جس سے وہ اپنی توانائی بحال رکھ پاتیں۔

مایوسی کے اس عالم میں انھوں نے اپنی چھاتی کا دودھ خود پینے کی کوشش کی تاہم وہ ناکام رہیں۔

نیکلا گھپ اندھیرے میں اوپر سے ڈرل مشینوں کی گڑگڑاہٹ کو محسوس کر رہی تھیں۔ ساتھ ہی بھاگتے قدموں کی آوازیں بھی سنائی دیتی تھیں لیکن وہ آوازیں مدہم تھیں۔ انھوں نے اس وقت تک اپنی توانائی بچانے اور خاموش رہنے کا فیصلہ کیا جب تک کہ باہر سے سنائی دینے والی آوازیں قریب نہ آ جائیں۔

ترکی

،تصویر کا کیپشن

نیکلا اوران کا 10 دن کا ننھا بچہ یاگیزملبے کےاس ڈھیر میں چار روز دبے رہے

نیکلا کا ایک بچہ ان کے سینے پر تھا جبکہ ان کے شوہر اور بڑا بیٹا ان سے کہیں دور ملبے میں دبے تھے۔

خود نیکلا اس دوران مسلسل اپنے خاندان کے بارے میں سوچ رہیں تھیں۔ انھیں مسلسل یہ سوچیں بھی پریشان کر رہی تھیں کہ زلزلے میں ان کے پیاروں کا کیا حال ہوا ہو گا۔

نیکلا نے یہ نہیں سوچا تھا کہ وہ اسے ملبے سے نکل پائیں گی تاہم یاگیز کی موجودگی ان کے لیے امید کی کرن تھی۔

نیکلا کا 10 روز کا بیٹا زیادہ وقت سوتا رہتا تھا اور جب وہ جاگ کر روتا تو وہ خاموشی سے اسے فیڈ کروا دیتیں یہاں تک کہ وہ چپ ہو جاتا۔

’صرف اتنا یاد ہے کہ زلزلہ آیا تو میرا بیٹا 10 دن کا تھا‘

نیکلا کو ملبے کے ڈھیر میں نوے گھنٹے سے زیادہ کا وقت ہو چکا تھا جب ان کے کانوں میں کتوں کے بھونکنے کی آواز آئی۔ پہلا خیال انھیں آیا کہ شاید وہ کوئی خواب دیکھ رہی ہیں لیکن پھر کتوں کے بھونکنے کے دوران ان کے کانوں میں کچھ آوازیں آنا شروع ہوئیں اور انھوں نے کسی کے سوال سنے۔

’آپ ٹھیک ہیں؟ ہاں کے لیے ایک بار دستک دیں۔‘ ایک اور آواز سنائی دی کہ ’آپ کس اپارٹمنٹ میں رہتی ہیں؟‘

آخر کار ان کو ڈھونڈ لیا گیا تھا۔ امدادی کارکنوں نے انھیں ریسکیو کرنے کے لیے احتیاط سے ملبہ ہٹانے کا کام شروع کیا یہاں تک ٹارچ کی روشنی نے اندھیروں کو توڑ ڈالا۔

جب استنبول میونسپلٹی فائر ڈپارٹمنٹ کی ریسکیو ٹیم نے سوال کیا کہ ان کے بیٹے یاگیز کی عمر کتنی ہے تو وقت کے احساس سے عاری نیکلا بے یقینی کا شکار تھیں۔

’میں صرف اتنا جانتی ہوں کہ جب زلزلہ آیا تو میرا بیٹا 10 دن کا تھا۔‘

یاگیز کو امدادی کارکنوں کے حوالے کرنے کے بعد نیکلا کو سٹریچر پر منتقل کر کے باہر نکالا گیا جہاں ان کے سامنے ایک بڑا ہجوم موجود تھا تاہم وہ کسی چہرے کو پہچان نہیں پا رہی تھی۔

جب انھیں ایمبولینس میں منتقل کیا گیا تو انھیں بتایا گیا کہ ان کا دوسرا بیٹا بھی بچ گیا ہے۔

ترکی

،تصویر کا ذریعہEKREM IMAMOGLU

’جو کچھ بیت گیا اب ایسا دوبارہ کبھی نہ ہو‘

جب نیکلا ہسپتال سے فارغ ہوئیں تو انھیں بتایا گیا کہ ان کے شوہرعرفان اور تین سالہ بیٹے یگت کریم کو بھی بچا لیا گیا ہے تاہم ان کی ٹانگوں اور پیروں پر شدید چوٹیں آئی تھیں اور علاج کے لیے ان کو کئی گھنٹوں کی مسافت پر واقع ترکی کے دوسرے صوبے اڈانا کے ایک ہسپتال میں منتقل کر دیا گیا تھا۔

نیکلا بالآخر اپنے شوہر عرفان اور تین سالہ بیٹے یگت کریم کے ساتھ ملاقات کرنے میں کامیاب ہو گئی ہیں۔

نیکلا اور یاگیز معجزانہ طور پر شدید جسمانی چوٹ سے محفوظ رہے تھے اور انھیں طبی امداد کے لیے صرف 24 گھنٹے تک ہسپتال میں رکھا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

نیکلا کے پاس ہسپتال سے نکل کر جانے کے لیے اب اپنا گھر نہیں تھا تاہم ان کے ایک رشتہ دار انھیں لکڑی اور ترپال سے بنائے گئے عارضی نیلے خیمے میں لے گئے۔

ان خیموں میں مزید 13 متاثرین موجود ہیں اور یہ سب اپنے گھر کھو چکے ہیں۔

کیمپ میں موجود یہ تمام لوگ ایک خاندان کی طرح ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں، ایک چھوٹے سے چولہے پر کافی بناتے ہیں، وقت گزاری کے لیے شطرنج کھیلتے ہیں اور اپنے دکھ سکھ ایک دوسرے کو سناتے ہیں۔

ترکی

،تصویر کا کیپشن

زلزلے کے دوران جو کچھ بیتی نیکلا اس کو بھولنا چاہتی ہیں

نیکلا کے ساتھ جو کچھ بیتی اب وہ ذہنی طور سے اس سے نکلنے کی کوشش میں ہیں۔

’اپنی جان بچانے کے لیے اپنے بیٹے یاگیز کی مقروض ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ اگر میرا بچہ اتنا بہادر نہ ہوتا تو شاید میں اس قدر مضبوط نہ ہو پاتی۔‘

اب نیکلا کا ایک ہی خواب ہے کہ جو کچھ بیتا اب ایسا دوبارہ کبھی نہ ہو۔ ’میں بہت خوش ہوں کہ میرا بیٹا اتنا چھوٹا ہے کہ یہ (بھیانک خواب) اسے یاد نہیں رہے گا۔‘

نیکلا کو اپنی آپ بیتی سنانے کے دوران فون پر ایک کال آتی ہے تو وہ بے ساختہ مسکراتی ہیں۔

دوسری جانب فون پر ہسپتال کے بستر سے ان کے شوہر عرفان اور تین سالہ بیٹا یگت کریم مسکراتے اور ہاتھ لہراتے دکھائی دے رہے ہیں۔

عرفان موبائل سکرین کے ذریعے اپنے ننھے بچے سے پوچھ رہے ہیں۔’ہیلو جنگجو، کیسا ہے میرا بہادر بیٹا؟

BBCUrdu.com بشکریہ