ترکی میں کساد بازاری صدر اردوغان کے لیے کتنا بڑا مسئلہ بن سکتی ہے؟
صدر اردوغان نہیں چاہتے کہ سود کی شرح میں اضافہ کیا جائے
چند ماہ قبل تک ترکی میں جہاں لوگ اپنا تھیلا بھر کر راشن، سبزی اور گوشت لاتے تھے، اب اتنی ہی رقم میں ان کے تھیلے خالی ہوتے ہیں۔ پلیٹوں سے گوشت غائب ہو گیا ہے اور کئی خاندانوں کے لیے گھر چلانا مشکل ہو گیا ہے۔
بازار کی یہ حالت ملک کی کرنسی لیرا میں مسلسل کمی کی وجہ سے ہے۔ جنوری 2021 میں جہاں ڈالر کے مقابلے لیرا کی قدر 7.3 تھی وہیں سال کے آخر تک اس کی قدر 16.69 تک گر گئی، جس کی وجہ سے مہنگائی کی شرح 48 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔
اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے سینٹرل بینک سود کی شرح میں اضافہ کرے لیکن تُرکی میں ایسا نہیں ہو رہا کیونکہ صدر رجب طیب اردوغان شرح سود میں اضافے کے خلاف ہیں۔
ملک میں اگلے سال انتخابات ہونے والے ہیں اور بڑھتی ہوئی مہنگائی سے پریشان لوگوں میں اردوغان کی مقبولیت کم ہو رہی ہے۔ ایسے میں ان کے لیے اقتدار میں رہنا مشکل ہو سکتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کساد بازاری کے دہانے پر کھڑے ترکی میں رجب طیب اردوغان کے لیے آگے کا راستہ کتنا مشکل ہو سکتا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ ترکی میں حالات کب تک نارمل ہوں گے۔
مہنگائی کے دور میں زندگی
اوزگی اوزدیمیر بی بی سی ترک سروس کی صحافی ہیں اور ترکی کے تیسرے بڑے شہر ازمیر میں رہتی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ کس طرح مہنگائی نے لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کیا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’مہنگائی کے ساتھ خاندانوں کے لیے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔ لوگ سوال کرنے لگے ہیں کہ کیا انھیں پانی گرم کرنے کے لیے گیس یا بجلی استعمال کرنے کے لیے بھی اپنے گھر کے بجٹ میں بھی کٹوتی کرنا پڑے گی۔ لوگ مایوس اور پریشان ہیں اور مزید قرض لے کر اپنی ضروریات پوری کر رہے ہیں۔‘
لیرا کی قیمت کم ہونے کی وجہ سے کسانوں کے لیے زرعی سامان خریدنا پہلے سے زیادہ مہنگا ہو گیا ہے۔
بڑھتی مہنگائی کے سبب لوگوں کے لیے گھر چلانا مشکل ہو رہا ہے
اناج، سبزیوں اور گوشت کی پیداوار کے حوالے سے ترکی کا کہنا ہے کہ ترکی اپنی ضروریات کا بیشتر حصہ خود پیدا کرتا ہے لیکن اس کے لیے وہ کھاد جیسی چیزیں درآمد کرتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ بڑھتی ہوئی مشکلات کے درمیان معاشی بحران کی وجوہات کے بارے میں شہریوں کی رائے منقسم ہے۔ ایک بڑے طبقے کو صدر اردوغان پر مکمل اعتماد ہے، جن کا کہنا ہے کہ اگر لیرا کی قدر کم رہی تو برآمدات بڑھیں گی۔
وہ کہتی ہیں کہ ’بہت سے لوگ اردوغان پر بھروسہ کرتے ہیں اور ان کی حمایت کرتے ہیں۔ وہ ان کی نئی اقتصادی پالیسیوں پر یقین رکھتے ہیں جبکہ کچھ اردوغان سے مایوس ہیں اور حکومت پر سے اپنا اعتماد کھو چکے ہیں۔‘
لیکن بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بگڑتی ہوئی صورتحال کے باوجود بھی اردوغان کو عوام کی حمایت کیوں حاصل ہے۔ یہ جاننے کے لیے ہمیں بطور ایک رہنما ان کے سفر کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
صدر اردوغان
رجب طیب اردوغان کی پیدائش بحیرہ اسود کے قریب واقع شہر ریز میں ایک سادہ گھرانے میں ہوئی تھی۔ جب وہ 13 سال کے تھے تو ان کے والد دارالحکومت استنبول چلے گئے۔ ان کا بچپن مذہبی ماحول میں گزرا۔
کہا جاتا ہے کہ بچپن میں وہ سڑکوں پر لیموں پانی بیچا کرتے تھے۔ وہ پروفیشنل فٹبال بھی کھیل چکے ہیں۔
برک ایسن ترکی کی سبانسی یونیورسٹی میں سیاسیات کے ماہر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اردوغان کے طاقتور ہونے میں مذہبی بنیاد پرستی نے اہم کردار ادا کیا اور ان کے زیادہ تر حامی انھیں ایک مضبوط رہنما کے طور پر دیکھتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’وہ تین دہائیوں سے زیادہ عرصے سے ترکی کی سیاست میں ہیں۔
وہ سنہ 1994 سے 1998 تک استنبول کے میئر رہے تھے۔ اس سے پہلے وہ اسلامسٹ نیشنل سالویشن پارٹی اور پھر ویلفیئر پارٹی کے رکن تھے۔ سنہ 2003 میں وہ ترکی کے وزیراعظم بنے اور سنہ 2014 تک اس عہدے پر فائز رہے۔ پھر سنہ 2014 میں وہ صدر بنے، آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ طویل عرصے سے کسی نہ کسی شکل میں ترکی میں برسراقتدار رہے ہیں۔‘
ترکی تقریباً سو سال پہلے سنہ 1923 میں وجود میں آیا تھا اور مصطفیٰ کمال اتاترک کی قیادت میں یہ مسلم اکثریتی ملک ایک سیکولر جمہوریہ بن گیا۔
کئی دہائیوں بعد اردوغان کی جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی ملک میں اکثریت حاصل کرنے والی پہلی اسلامی جماعت تھی۔ ان کے مخالفین ان پر مذہبی بنیاد پرستی کا الزام لگاتے ہیں لیکن جب ان کی پارٹی اقتدار میں آئی تو بڑا مسئلہ مذہب نہیں بلکہ معیشت تھا۔
فوجی وردی میں جدید ترکی کے بانی مصطفیٰ کمال اتاترک
برک ایسن کہتے ہیں کہ ’ایک رہنما کے طور پر ان کے ستارے بلند تھے۔ سنہ 2001 میں ملک کو شدید معاشی بحران کا سامنا کرنا پڑا اور سنہ 2002 میں اردوغان کی پارٹی نے الیکشن جیتا۔ ایک آئینی ترمیم کے بعد سنہ 2003 میں وہ وزیر اعظم بنے اور ان کے دور حکومت میں ملک کی معیشت نے بھی ترقی کی۔
غیر ملکی سرمایہ کاری میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ زیادہ تر رقم بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں پر خرچ کی گئی، جس سے شہروں کا چہرہ بدل گیا اور ملازمتیں پیدا ہوئیں۔ اردوغان مقبول ہونے لگے۔
برک ایسن کا کہنا ہے کہ ملک کے بدلتے چہرے کے درمیان اردوغان جمہوریہ ترکی کی تصویر بدلنے کی کوشش کر رہے تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’انھوں نے آہستہ آہستہ میڈیا پر قدغن لگانا شروع کر دی۔ ناقدین کو نشانہ بنایا گیا اور میڈیا پر حکومتی کنٹرول بڑھ گیا۔ بہت سے اخبارات اور ٹی وی چینلز کے مالکان اردوغان کے حامی تھے۔ ایسے میں ان کی پالیسیوں پر تنقید کرنے کے طریقے بہت محدود تھے۔‘
ایک طرف اردوغان کے ناقدین پر دباؤ بڑھنے لگا، ان کے مخالف رہنما الگ تھلگ ہونے لگے اور دوسری طرف حکومتی اداروں پر ان کی گرفت مضبوط ہوتی گئی۔
برک ایسن کہتے ہیں کہ ’اردوغان ہمیشہ سے ایک مطلق العنان سیاستدان رہے ہیں۔
ان کی پارٹی میں طویل عرصے تک اقتدار میں رہنے سے بڑی تبدیلیاں آئی ہیں۔ بہت سے پرانے رہنما الگ تھلگ ہو گئے ہیں اور ان کی جگہ ان کے حامیوں نے لے لی ہے۔ یہ وہ رہنما ہیں جنھیں اردوغان سے وفاداری کی وجہ سے اہم عہدے ملے۔ ان کی مدد سے اردوغان سیاست کے جمہوری ڈھانچے کو بدل رہے ہیں اور یہاں پارلیمانی نظام کے بجائے مضبوط صدر راج نافذ کر دیا گیا ہے۔‘
سنہ 2014 میں اردوغان نے وزارت عظمیٰ کا عہدہ چھوڑ دیا اور صدر بنے تو ان کی طاقت میں مزید اضافہ ہوا۔
انھوں نے دو سال بعد فوجی بغاوت کی کوششوں کو آسانی سے ناکام بنا دیا۔ اس کے بعد سنہ 2018 میں وزارت عظمیٰ کا عہدہ ختم ہونے کے بعد اردوغان انتخابات جیت کر ایک بار پھر صدر بن گئے۔
اب ترکی میں اگلے سال انتخابات ہونے والے ہیں اور اردوغان کے بہت سے حامیوں کو مہنگائی کے درمیان نئی حکومت کے انتخاب کا چیلنج درپیش ہے۔
رجب طیب اردوغان نومبر 2002 کی ایک تصویر میں
بگڑتی معیشت کے چیلنجز
گذشتہ ایک سال کے دوران ترک کرنسی لیرا کی قیمت ڈالر کے مقابلے میں 44 فیصد کم ہو گئی ہے۔ معاشی ماہرین کا مشورہ ہے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کو روکنے کے لیے شرح سود میں اضافہ کیا جانا چاہیے لیکن اردوغان چاہتے ہیں کہ شرح سود کم رہے۔ یہ اس وقت معیشت کو درپیش سب سے بڑا چیلنج ہے۔
استنبول کی کوچ یونیورسٹی میں معاشیات کی پروفیسرسلوا دیمیرالپ کہتی ہیں کہ گذشتہ سال ستمبر سے اب تک بینک نے شرح سود میں پانچ فیصد کمی کی اور اس دوران مہنگائی میں کم از کم 20 فیصد اضافہ ہوا۔
پروفیسر سیلوا کہتی ہیں کہ ’اگر آپ شرح سود کو کم رکھیں گے تو قرض سستا ہو گا یعنی لوگ قرض لینے کی طرف راغب ہوں گے، وہ زیادہ خرچ کریں گے۔ سامان زیادہ بکے گا۔ مینوفیکچرنگ بڑھے گی، ترقی نظر آئے گی لیکن ایسا نہیں ہو سکتا۔
لمبے عرصے تک برقرار رہنے والے قرضوں سے مہنگائی میں اضافہ ہونے کا امکان ہے اور طویل مدت میں بڑھتی ہوئی مہنگائی معیشت کو کمزور کر دے گی۔‘
ترکی میں یہی ہوا، مہنگائی بے لگام ہو رہی ہے اور غریبوں پر اس کا مزید بُرا اثر پڑ رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
وہ کہتی ہیں کہ ملک میں غربت میں اضافہ ہوا اور حکومت حالات سے نمٹنے کے لیے لوگوں کی تنخواہیں بڑھا رہی ہے اس سے ایک اور مسئلہ پیدا ہو گا لوگوں کو زیادہ پیسے ملیں گے تو وہ زیادہ خرچ کریں گے اور مسئلہ سنگین ہوتا جائے گا۔
ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سینٹرل بینک اس طرح معیشت کا پہیہ کب تک چلا سکے گا۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا سینٹرل بینک سیاسی مداخلت کے بغیر کوئی فیصلہ لے سکے گا؟
وہ کہتی ہیں کہ ’پوری دنیا میں ہم نے سیاستدانوں کو سینٹرل بینکوں پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کرتے دیکھا۔
امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں، بینکوں پر شرح سود کو کم کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا تھا۔ میں توقع کرتی ہوں کہ ترکی کے سینٹرل بینک صورتحال کو سمجھیں۔ میرے خیال میں جب حکومت دیکھے گی کہ وہ ترقی کی رفتار کو کم کر رہی ہے تو وہ پیچھے ہٹ جائے گی۔‘
پروفیسر سیلوا کہتی ہیں کہ ’اس میں کچھ وقت لگے گا اور آنے والے برسوں میں اس مہنگائی کی قیمت چکانی پڑے گی۔ حالات پر اس وقت تک قابو نہیں پایا جا سکتا جب تک حکومت معیشت کی رفتار پر قابو پانے کے لیے روایتی راستہ اختیار نہیں کرتی۔‘
ترکی میں مہنگائی، شرح سود اور معیشت پر بحث کی اہم وجہ یہ ہے کہ یہاں اگلے سال انتخابات ہونے ہیں۔
اردوغان شرح سود میں کمی کو انتخابی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں لیکن فی الحال مقبولیت کے لحاظ سے وہ پیچھے ہیں۔
آگے کیا ہو گا؟
لندن کے کنگز کالج میں فنانس کی پروفیسر گلشین اوزگان کہتی ہیں کہ یہ پہلی بار نہیں جب ترکی کی کرنسی میں زبردست کمی ہوئی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ایسا پہلے بھی کئی بار ہو چکا ہے۔ سنہ 1990 اور 2000 کی دہائی کے اوائل میں ہوا اور پھر سنہ 2018 میں لیرا کی قدر گرنا شروع ہو گئی۔ اس وقت کچھ مہینے تک حکومت کا کہنا تھا وہ پالیسی ریٹ میں سدھار نہیں چاہتی لیکن چند ماہ بعد شرح سود بڑھا دی گئی۔
’اس بار انتخابات جون 2023 میں ہونے والے ہیں اور حکومت پر بہت دباؤ ہے۔‘
اس سے قبل بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے معیشت کو بحران کے منفی اثرات سے بچانے کے لیے مداخلت کی تھی تو کیا دوبارہ ایسا ممکن ہے؟
گلشین کا کہنا ہے کہ وہ ایسا نہیں کریں گے۔ ’پہلی وجہ یہ ہے کہ ترک صدر اور حکمران جماعت ووٹروں کو بتاتے رہے ہیں کہ وہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے مدد نہیں لیں گے۔ وہ انتخابات سے پہلے اپنی بات سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر ایسا کوئی معاہدہ طے پا جاتا ہے تو ترک حکومت کو اپنے اخراجات پر بات کرنی پڑے گی اور اردوغان ایسا نہیں چاہیں گے۔‘
دیکھا جائے تو کم شرح سود اور خرچ کرنے کی آزادی انتخابات کی دوڑ میں اردوغان کے لیے بہت اہم ہے لیکن اس کے علاوہ ایک اور وجہ بھی ہے اور وہ یہ کہ اس سے اپوزیشن کی طاقت کو ختم کرنا آسان ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’یہ آہستہ آہستہ ہوا ہے اور حالیہ دنوں میں اس میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کے لیے یہاں الیکشن جیتنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔‘
لیکن اپوزیشن جماعتیں بھی کمر بستہ ہیں۔ اکیلے میدان میں اترنے کے بجائے وہ اتحاد بنا رہی ہیں لیکن کیا اپوزیشن اتحاد اردوغان کو سخت مقابلہ دے سکے گا؟
گلشین کا کہنا ہے کہ ’ابھی یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن ایسا لگتا ہے کہ گذشتہ دو دہائیوں میں پہلی بار اپوزیشن بڑے پیمانے پر اردوغان کے خلاف اتحاد پیدا کرنے میں کامیاب ہو رہی ہے۔ جیسے جیسے مہنگائی بڑھ رہی ہے، اردوغان کی مخالفت بڑھ رہی ہے۔
آئندہ انتخابات میں معیشت سب سے بڑا مسئلہ بن سکتی ہے، اگر اتحاد میں شامل جماعتیں متفق رہیں تو ممکن ہے کہ وہ اگلی حکومت بنائیں۔‘
آئیے اپنے سوال کی طرف لوٹتے ہیں کہ کساد بازاری کے دہانے پر کھڑے ترکی میں اردوغان کے لیے آگے کا راستہ کتنا مشکل ہو گا۔
صدر اردوغان کی اقتصادی پالیسی کا نتیجہ ہے کہ ترکی میں عام آدمی کے لیے گھر چلانا دن بہ دن مہنگا ہوتا جا رہا ہے۔ مہنگائی کی وجہ سے نہ تو طلبا کی تعلیمی ضروریات پوری ہوتی ہیں اور نہ ہی تاجر پیداوار میں استعمال ہونے والی چیزیں خریدنے کے قابل ہو رہے ہیں۔
شرح سود کم رکھنے سے نہ پیداوار بڑھ رہی ہے نہ برآمدات بڑھی ہیں۔ اس کے برعکس اس کی وجہ سے معیشت کی رفتار ماند پڑنے لگی ہے۔
آگے کیا ہو گا اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ اردوغان ملکی کرنسی لیرا کی گراوٹ کو روکنے کے لیے کیا فیصلے کریں گے۔ کیا وہ شرح سود کو کم رکھ کر معیشت کو تیز کرنے کے اپنے مؤقف پر قائم رہیں گے؟
ترکی کی معیشت میں بہتری کے آثار کب نظر آئیں گے اس بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن ماہرین کے مطابق ترکی لامحدود امکانات کا ملک ہے اور یہاں کے حالات کی بہتری سب کے مفاد میں ہے۔
Comments are closed.