ترکی زلزلہ: ’ہم اپنے بچوں کو ڈھونڈنا چاہتے ہیں بے شک وہ مرے ہی کیوں نہ ہو‘
عصمت اور سراک کے والدین جو زلزلے میں ہلاک ہو چکے ہیں
- مصنف, فندانور اوزترک اور بیرزا سیمسک
- عہدہ, بی بی سی نیوز، ترکش
ترکی اور شمالی شام میں آنے والے زلزلے کو سات ہفتے گزر چکے ہیں مگر اورہان کوسکر نے اپنے بھتیجوں کی تلاش نہیں چھوڑی۔
13 اور نو برس کے عصمت اور سراک، زلزلے کے وقت جنوب مشرقی ترکی کے شہر غازی انتیپ میں اپنے گھر میں سو رہے تھے۔
ان کے والدین اور بہن سب زلزلے میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان سب افراد کی لاشیں نو دن بعد ملبے سے نکالی گئی تھیں مگر ان دونوں لڑکوں کا ابھی تک کوئی سراغ نہیں ملا۔
غازی انتیپ ترکی کے ان 11 شہروں میں سے ایک ہے، جو چھ فروری کے زلزلے سے بہت متاثر ہوا تھا اور یہاں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی تھی۔
اس زلزلے کے نتیجے میں صرف ترکی میں 50 ہزار افراد ہلاک ہوئے جبکہ شام کے مغربی اور شمالی علاقوں میں چھ ہزار افراد کی ہلاکت ہوئی۔
ترکی میں زلزلے سے نقصانات کا تخمینہ ایک ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔
اپنے پیاروں کی تلاش
جہاں ایک جانب زلزلہ متاثرین کی زندگیوں کو معمول پر لانے کے لیے بہت ساری کوششیں کی جا رہی ہیں، وہیں اب بھی سینکڑوں خاندان اپنے لاپتہ پیاروں کو تلاش کر رہے ہیں اور انھیں اپنے پیاروں کے زندہ یا مردہ ملنے کی امید ہے۔
عینی شاہدین نے اورہان کو بتایا کہ ان کے بھتیجوں کی عمارت زلزلے کے ایک یا دو منٹ بعد گر گئی تھی اور بہت سے لوگ اس دوران اس سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
انھیں یقین تھا کہ ان کے دونوں بھتیجے بھی بچ کر نکل گئے ہوں گے۔
اورہان کوسکر نے ابھی تک اپنے بھتیجوں کی تلاش نہیں چھوڑی
ہیلپ لائن
خاندانی اور سماجی امور کی وزارت کی طرف سے فراہم کردہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، زلزلوں کے بعد سے تقریباً دو ہزار بے سہارا بچوں کو ملبے کے نیچے سے نکالا گیا اور حکام کے پاس رجسٹرڈ کرایا گیا۔
ان میں سے تقریباً 200 بچوں کی شناخت ہونا اور انھیں ان کے گھر والوں سے ملانا ابھی باقی ہے۔ ترکی کی وزارت صحت نے زلزلہ متاثرین اور لاپتہ افراد کے لواحقین کے لیے ایک ہیلپ لائن قائم کی ہے۔
اورہان کا کہنا ہے کہ وہ روزانہ اس ہیلپ لائن پر کال کر کے یہ معلوم کرتے ہیں کہ حالیہ شناخت کیے جانے والے بچوں میں ان کے بھتیجے تو شامل نہیں۔
ان کے اہلخانہ نے حکام کو اپنے ڈی این اے کے نمونے بھی جمع کروا دیے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ہم اپنے بچوں کو ڈھونڈنا چاہتے ہیں چاہے وہ مر چکے ہوں۔ چاہے ہمیں صرف ان کی ہڈیاں ہی کیوں نہ ملیں لیکن ہم تلاش جاری رکھیں گے۔ خدا ہماری مدد کرے۔‘
ترکی میں زلزلے کے بعد لاپتہ ہونے والوں کی تعداد کے بارے میں کوئی سرکاری اعداد و شمار موجود نہیں لیکن خیال کہا جاتا ہے کہ کم از کم 1400 لاشوں کی شناخت ہونا باقی ہے۔
ایک ماہ سے زائد عرصے سے لاپتہ
عبدالقدوس کازان کے لیے ان کی بہن حکران کی تلاش بہت زیادہ مشکل رہی ہے۔ 44 سالہ حکران کاراداگ کو زلزلے کے بعد چند گھنٹوں میں ہی ان کے اپارٹمنٹ کے ملبے تلے سے نکال لیا گیا تھا۔
انھیں ایمبولینس کے ذریعے ہسپتال لے جایا گیا لیکن اگلے ایک مہینے تک ان کے گھر والوں کو یہ معلوم نہیں ہو سکا تھا کہ وہ زندہ ہے یا مر چکی ہیں۔
ان کے گھر والوں نے انھیں تقریباً ایک درجن شہروں میں تلاش کیا۔
پھر انھیں ایک اطلاع ملی کہ زلزلے کے تقریباً ایک ہزار متاثرین کو انتاکیہ شہر کے بالکل باہر نارلیکا کے ایک قبرستان میں دفن کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
44 سالہ حکران کاراداگ کو زلزلے کے بعد چند گھنٹوں میں ہی ان کے اپارٹمنٹ کے ملبے تلے سے نکال لیا گیا تھا
اجتماعی قبریں
عبدالقدوس نے لاپتہ متاثرین کی اجتماعی قبروں کے نئے قبرستان کا دورہ کیا۔
ترک حکام نے نامعلوم لاشوں کو دفن کرنے سے قبل ان کی تصاویر لیں تھی، ان کے ڈی این اے کے نمونے جمع کیے تھے اور فنگر پرنٹس لیے تھے جبکہ زلزلے میں ہلاک ہونے والے ہر نامعلوم فرد کی قبر پر ایک نمبر لگایا گیا تھا۔
عبدالقدوس نے اپنی بہن کی تلاش میں تقریباً 1500 تصاویر کی جانچ کی تھی، یہاں تک کہ انھوں نے باڈی بیگ بھی کھولے اور لاشوں کی جانچ پڑتال کی کہ آیا ہیکران کہیں وہاں تو موجود نہیں۔
انھیں سکھ کے آنسوؤں کے ساتھ ساتھ گہری دکھ کے ساتھ یہ علم ہوا کہ ان کا ڈی این اے نمونہ ایک لاش سے مماثلت رکھتا ہے جسے اس قبرستان میں دفن کیا گیا تھا۔
حکران کے ڈیتھ سرٹیفکیٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ جسم اور سر میں چوٹیں لگنے کی وجہ سے وہ دل کا دورہ پڑنے کے باعث اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی تھی۔
یہ واضح نہیں تھا کہ ان کا ہسپتال میں کوئی علاج ہوا تھا یا نہیں تاہم سرٹیفکیٹ میں بتایا گیا کہ ان کی لاش کو فیلڈ ہسپتال کی کار پارکنگ میں دو دن تک کھلے میں چھوڑا گیا تھا۔ اس کے بعد انھیں نامعلوم لاش کے طور پر دفن کر دیا گیا۔
ان کی بہن کا کہنا ہے کہ ’آپ کو اپنے لاپتہ پیاروں کی تلاش کرنا بہت مشکل ہے۔ آپ کو یہ علم نہیں ہوتا کہ وہ زندہ ہیں یا مردہ لیکن آپ کو ہمیشہ ان کے ملنے کی امید ہوتی ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’یہاں تک کہ جب حکام نے مجھے بتایا کہ ڈی این اے کے نمونے ملتے ہیں ، تب بھی میں امید کر رہی تھی کہ وہ غلط ہو سکتے ہیں اور یہ کہ میری بہن زندہ ہو سکتی ہے مگر اب مجھے سکون ہے کہ اس کی اپنی ایک قبر ہے۔‘
Comments are closed.