ترکی اور شام میں زلزلہ: کیا قدرتی آفات کے بعد وی آئی پی دورے امدادی سرگرمیوں میں رکاوٹ بنتے ہیں؟
- مصنف, زبیر اعظم
- عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام
’شہباز شریف اور بلاول بھٹو کا اس وقت ترکی جانے کا کیا مقصد ہے؟ اعلی عہدیداران اور ان کے وفد کی موجودگی پہلے سے ہی محدود وسائل پر مزید دباؤ ڈالے گی۔ یہ اس وقت درست فیصلہ نہیں۔‘
ایسی تنقید پاکستان میں سوشل میڈیا پر اس وقت سامنے آئی جب سرکاری ذرائع کے حوالے سے یہ خبریں سامنے آئیں کہ پاکستان کے وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف اور وفاقی وزیر برائے خارجہ امور بلاول بھٹو زرداری اظہار یکجہتی کے لیے ترکی کا دورہ کریں گے جس کے لیے آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد بھی معطل کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ سوموار کو ایک طاقتور زلزلے نے جنوبی ترکی اور شمالی شام میں تباہی مچا دی تھی جہاں اب تک ہلاکتوں کی تعداد آٹھ ہزار کے قریب جا پہنچی ہے اور عالمی ادارہ صحت کے مطابق یہ تعداد بڑھ سکتی ہے۔
پاکستان کی جانب سے سرکاری اور عوامی سطح پر جہاں اس زلزلے کے بعد فوری طور پر ترکی سے اظہار افسوس کیا گیا وہیں حکومت کی جانب سے امدادی سرگرمیوں میں ہاتھ بٹانے کے لیے ریسکیو سامان اور ٹیمیں بھجوانے کا بھی اعلان کیا گیا۔
تاہم ایسے میں جب یہ خبر سامنے آئی کہ وزیر اعظم شہباز شریف اور بلاول بھٹو سرکاری طور پر ترکی کا دورہ کرنے والے ہیں تو سوشل میڈیا پر صارفین نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے اس فیصلے پر سوالات اٹھائے۔
وزیر اعظم آفس کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف کے ترکی دورے کے حوالے سے کوئی باقاعدہ اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس دورے کی منسوخی کا اعلان کیا گیا تاہم سرکاری ذرائع نے بی بی سی نمائندہ سحر بلوچ کو بتایا کہ وزیر اعظم کا دورہ ترکی منسوخ کر دیا گیا ہے۔
لیکن اس منسوخی کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی۔
بی بی سی نمائندہ سحر بلوچ نے جب وزیر اعظم آفس سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ جب وزیر اعظم آفس کی جانب سے وزیر اعظم شہباز شریف کے ترکی کا دورہ کرنے کے بارے میں کوئی باقاعدہ اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا تو اس دورے کی منسوخی کے بارے میں بھی کوئی اعلامیہ جاری نہیں کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے وزیراعظم شہباز شریف کی انقرہ روانگی کا اعلان کیا تھا۔
’جو کرنا ہے پاکستان میں رہتے ہوئے کریں‘
حقوق خلق پارٹی کے صدر فاروق طارق نے ٹوئٹر پر ردعمل میں کہا کہ ’شہباز شریف کا ترکی جانے کا فیصلہ اچھا نہیں۔‘
انھوں نے لکھا کہ ’ایک ایسے وقت میں ترکی پر اس بات کا دباؤ کیوں ڈالا جائے کہ وہ کسی اعلی عہدیدار کے پروٹوکول کا خیال رکھیں جب ان کو اپنے وقت کا ایک ایک منٹ زلزلہ زدگان کی مدد کے لیے درکار ہو گا۔‘
انھوں نے مشورہ دیا کہ ’جو بھی کرنا ہے، پاکستان میں رہتے ہوئے کریں۔‘
کامران خان نامی صارف نے بھی کچھ ایسے ہی ردعمل کا اظہار کیا۔ انھوں نے لکھا کہ ’شہباز شریف اور بلاول بھٹو کا فوری طور پر ترکی جانے کا کیا مقصد ہے؟‘
انھوں نے کہا کہ ’ایک اعلی وفد کی موجودگی پہلے سے ہی محدود وسائل پر مزید دباؤ ڈالے گی اس لیے اس وقت یہ درست ترجیح نہیں۔‘
راچل نامی صارف نے حکومت اور وزیر اعظم شہباز شریف کو مشورہ دیا کہ جو پیسے انھوں نے ترکی کے دورے پر خرچ کرنے ہیں، وہ ترکی کی حکومت کو دے دیں۔
چند صارفین نے یہ تنقید بھی کی کہ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کو معاشی بحران کا سامنا ہے، وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کا ایک بیرونی دورہ کرنا کیا ظاہر کرتا ہے جبکہ چند صارفین نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ کیا حکومت کی ترجیح آل پارٹیز کانفرنس کے ذریعے ملکی مسائل کا حل تلاش کرنا نہیں ہونا چاہیے؟
تاہم ایک صارف نے ناقدین کو یاد دلایا کہ جو لوگ شہباز شریف کے اس فیصلے پر تنقید کر رہے ہیں ان کو یاد رکھنا چاہیے کہ 2005 میں جب پاکستان میں زلزلہ آیا تو ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان وہ پہلے غیر ملکی سربراہ حکومت تھے جنھوں نے پاکستان کا دورہ کیا اور متاثرہ علاقوں میں جا کر نقصان کا جائزہ لیا۔
یہ بھی پڑھیے
’اولین ترجیح ملبے تلے دبے افراد کو سلامت نکالنا ہوتا ہے‘
مجتبی حیدر پاکستان ریلیف انٹرنیشنل ڈیزاسٹرز اینڈ ایمرجنسیز اکیڈمی کے سربراہ ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ترکی میں حالیہ زلزلے کے بعد اولین ترجیح ملبے میں دبے افراد کو سلامت باہر نکالنا، طبی سہولیات کی فوری فراہمی اور دیگر متاثرین تک ہنگامی امداد رسانی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’عمومی انسانی نفسیات کے پیش نظر، کیفیت الم و آزمائش میں کسی جانب سے ہمدردی کے دو بول بھی انسانی حوصلے کو برقرار رکھنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں تاہم یہ امر بھی اہم ہے کہ ترک قوم کو جس اندوہناک سانحے کا سامنا ہے اس کا تقاضا ہے کہ ان کے تمام ریاستی ادارے بشمول حکام بالا اپنی تمام تر توجہ اس صدمے کے موجودہ اور پیش آمدہ اثرات سے نبرد آزما ہونے پر مرکوز رکھ پائیں۔‘
’ایسے دورے میں روایتی پروٹوکول سے پرہیز اور میزبان رہنماؤں کے وقت اور ذمہ داریوں کا ادراک و احساس بھی یقنی بنایا جائے تو زیادہ مفید ہوگا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ لمحات ایک باریک اور نازک لکیر کی مانند ہیں جن کے بارے میں محتاط طرز عمل کے ساتھ ترکی کا دورہ دونوں ملکوں کے عوام کو مزید قریب لانے کا باعث ہوگا۔ دکھ کی گھڑی میں گھر کی دہلیز پہ پہنچ کر ہاتھ تھامنے والے ہمیشہ یاد رکھے جاتے ہیں۔‘
دوسری جانب پاکستان کے سابق سفارت کار علی سروس نقوی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے ترکی کا دورہ کرنے کا اعلان ایک علامتی عمل تھا کہ پاکستان کو زلزلے کے نقصانات کا احساس ہے۔
ان کے مطابق قدرتی آفات کے دوران بین الاقوامی شخصیات کا دورہ ایک معمول کی بات ہوتی ہے جن کو باہمی مشورے سے طے کیا جاتا ہے۔
’2005 میں پاکستان میں زلزلہ ہو یا 2022 کا سیلاب آیا، اس وقت باہر کے ممالک سے اہم شخصیات پاکستان آئیں تھیں جیسا کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل آئے اور ان کے دوروں کی سہولت کاری کی گئی۔‘
تاہم ان کے مطابق ’ترکی میں آنے والے زلزلے کا پیمانہ اتنا وسیع ہے کہ ایسی صورتحال میں شاید ایک غیر ملکی سربراہ کا دورہ فوری طور پر ممکن نہیں ہوتا۔‘
’اس سے ایسا بلکل ظاہر نہیں ہوتا کہ سفارتی طور ہر کوئی ایسی بات ہوئی جو ناپسندیدہ ہے بلکہ ترکی نے پاکستان کی جانب سے خیر سگالی کے جذبے کو سراہا ہے۔‘
Comments are closed.