تتلی کا بوجھ: عاصمہ شیرازی کا کالم

تصویر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, عاصمہ شیرازی
  • عہدہ, صحافی و تجزیہ کار

جنگ کا ایک اور بٹن آن ہو چکا ہے۔ طبلِ جنگ بج چکا ہے۔ کیا اب کی بار کسی آغاز کا انجام ہے یا کسی انجام کا آغاز؟ کیا ایک اور عالمی سٹیج تیار ہو چکا، منظر بدل گیا ہے یا منظر نامہ؟

عالمی طاقتوں کی نظر سے چھپی چنگاری لپک گئی ہے، اقوام متحدہ کی کونسلوں اور کمیٹیوں میں گمشدہ فائل ایجنڈے میں سرفہرست آ گئی ہے، کوئی بھولی بسری داستان جس کا کوئی سرا کسی کے پاس نہیں تھا اچانک شہ سرخیوں میں جگہ لے بیٹھی ہے۔

مسئلہ فلسطین پھر سلگ گیا ہے، بھلا جنگ بھی کبھی مسئلے کا حل ہوئی ہے مگر جنگ کو ہتھیار ضرور بنایا گیا ہے۔

فلسطین کا مسئلہ عالمی استعمار کا نشان جبکہ روشن خیال ذہنوں کا امتحان ہے۔ کہنے کو کم و بیش 75 برس پرانا مسئلہ مگر لہو ہے کہ رُکتا نہیں۔ عالمی ادب ہو یا دیگر فنون فلسطین کے خون نے فکر کو ہمیشہ ایک نئی تحریک دی، نیا آہنگ دیا، نئی جلا بخشی جبکہ غزہ کی دہلیز پر تسلط کا رعب دکھاتا جبر ہمیشہ نئی تہذیب کو پرانا زخم دکھاتا رہا اور بیت المقدس کی چوکھٹ پر معصوم فلسطینیوں کی قربان گاہ پر غاصبیت کا جھنڈا لہراتا رہا ہے۔

عرب کے ماتھے کا جھومر اور لہو لہو پیشانی لیے فلسطین انسانی حقوق کے دعویداروں کو بے نقاب کرتا رہا ہے۔

فلسطین کے قومی شاعر اور 30 کتابوں کے مصنف محمود درویش نے فلسطین کے نوحے کو اپنی مشہور اور طویل نظم ’شناختی کارڈ‘، جس پر اسرائیل کی پارلیمنٹ میں بحث ہوئی، یوں اظہار کیا ہے:

درج کرو! میں عرب ہوں اور تم نے میرے اجداد کے باغات چرا لیے ہیں اور وہ زمین بھی جہاں میں اپنے تمام بچوں کے ہمراہ کاشت کاری کیا کرتا تھا، تم نے میرے لیے اور میرے تمام پوتوں کے لیے کچھ بھی باقی نہیں چھوڑا ہے سوائے ان پتھروں کے، تو کیا تمہاری حکومت، جیسا کہ کہا گیا ہے، ان پتھروں کو بھی چھین لے گی؟

محمود درویش ارض فلسطین کو ’تتلی‘ سے تشبیہ دیتے تھے اور اس بابت اُن کی ایک کتاب ’تتلی کا بوجھ‘ عالمی شہرت یافتہ ہے۔

تصویر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

فلسطین فیض احمد فیض کی زبان میں فلسطینی بچے کی لوری ہے تو کہیں فلسطین کی تذلیل کا غم اُن کی شاعری کا پیغام۔ فلسطین ہر حساس دل کا احساس اور ہر غم کا بیان بنا ہے۔ بقول فیض:

دور پردیس کی بے مہر گزرگاہوں میں

اجنبی شہر کی بے نام و نشاں راہوں میں

جس زمیں پر بھی کھْلا میرے لہو کا پرچم

لہلہاتا ہے وہاں ارضِ فلسطیں کا عَلَم

تیرے اعدا نے کیا ایک فلسطیں برباد

میرے زخموں نے کیے کتنے فلسطیں آباد

اور بزبان اقبال:

زندان فرانسیس کا مے خانہ سلامت

پر ہے مئے گل رنگ سے ہر شیشہ حلب کا

ہے خاک فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق

ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا

فلسطین کی جنگجو تحریک حماس نے اسرائیل پر حملے میں پہل کی ہے۔ حملہ بروقت تھا یا نہیں؟ درست تھا یا غلط، مقاصد کیا تھے اور کیا حاصل ہوئے یا ہوں گے یا نہیں، سوال اب بہت پیچھے رہ گئے ہیں، جواب صرف بم کے گولوں اور فضائی حملوں، فوجی کاروائیوں کی زبانی مل رہے ہیں۔

کوئی اسے حماس کی غلطی قرار دے رہا ہے تو کوئی نتائج سے آگاہ کر رہا ہے کہ بھگتنا تو بالآخر مظلوم فلسطینیوں کو ہی پڑے گا۔ یہ دلیل درست ہو سکتی ہے تاہم سوال یہ بھی ہے کہ فلسطین اور بالخصوص غزہ کی پٹی میں بسنے والوں کی زندگیاں تھیں ہی کہاں، ہزاروں چیک پوسٹوں، سینکڑوں چوکیوں، طویل باڑوں کے درمیان گزرنے والی زندگی کو اگر زندگی کہا جائے گا تو پھر موت کیا ہے؟

غربت، بے روزگاری، بھوک اور افلاس کی قید میں زندہ درگور ان فلسطینیوں کو کیا معلوم کہ آزادی کے معنی کیا ہیں۔

یہ سب ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب سعودی عرب اور عرب ریاستیں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو تسلیم کرنے کا کم از کم ارادہ رکھتی تھیں۔ واشنگٹن اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان ایک نئے معاہدے کی خواہش دل میں لیے بیٹھا تھا اور اسرائیل فلسطین کے پاس رہ جانے والی غزہ کی 40 فیصد پٹی پر بھی تسلط کی چاہ رکھے بیٹھا تھا۔

تصویر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ایک اور ابراہام معاہدے کی راہ ہموار ہو رہی تھی کہ حماس کے اس حملے نے اسرائیل اور حامیوں کو پوائنٹ زیرو پر لاکھڑا کیا۔ نہیں معلوم کہ طاقت کے آگے حماس کب تک لڑ پائے گی اور کب آگ کے شعلے لبنان اور شام کو گھیر لیں گے مگر عالمی ڈیپ فریزر سے یہ معاملہ اب باہر آ چکا ہے۔

سنہ 1973 کے بعد حماس کے اس حملے نے ایک بار پھر اس بھولے بسرے مسئلے کو زندہ کر دیا ہے، انجام کچھ بھی ہو سلامتی کونسل دو ہی دنوں میں فائل سے گرد ہٹا رہی ہے، عالمی تنظیمیں انگشت بدنداں ہیں بظاہر اسرائیل کے حق کے لیے اُٹھ کھڑے ہونے والے دھیمے لہجے میں فلسطین کے حق کے لیے بھی دبی دبی آواز اُٹھا رہے ہیں۔

دُنیا پھر تقسیم ہو گئی ہے، دو حصوں میں بٹی دُنیا حق اور باطل کے درمیان کھڑی ہے، برسوں چُپ رہنے والے بول پڑے ہیں، ریاستیں اگر ظالم کے ساتھ ہیں تو عوام مظلوم کے ساتھ۔ ریاستیں اگر طاقت کے ساتھ ہیں عوام محکوم کے حق کے لیے عرصہ دراز کے بعد بول پڑے ہیں۔

مگر کیا اقوام عالم محمود درویش کی ’تتلی‘ کو بوجھ سے آزاد کروا سکیں گے؟

BBCUrdu.com بشکریہ