الزبتھ بلیک ویل: تاریخ کی ’پہلی خاتون ڈاکٹر‘ جن کے میڈیکل کالج میں داخلے کے خلاف مردوں نے متفقہ ووٹ دیا
- جینس پی نمورا
- بی بی سی ہسٹری ایکسٹرا
الزبتھ کے آٹھ دیگر بہن بھائی تھے اور یہ نو کے نو بلیک ویل خاندان کے چشم و چراغ تضادات کا ایک مجموعہ تھے
آپ شاید الزبتھ بلیک ویل کے نام سے واقف ہوں، عام طور پر انھیں ’پہلی خاتون ڈاکٹر‘ کہا جاتا ہے۔ 19 ویں صدی کے اوائل میں برسٹل میں پیدا ہونے والی الزبتھ امریکہ سے میڈیکل کی باقاعدہ ڈگری حاصل کرنے والی پہلی خاتون ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ بچپن میں آپ کے پاس ان کے بارے میں کوئی تصویری کتاب بھی ہو جو کہ متاثر کن لڑکیوں کے بارے میں ہوتی ہیں۔ یا ہو سکتا ہے کہ آپ نے ان کے بارے میں کبھی سُنا ہی ہو۔
الزبتھ کے آٹھ دیگر بہن بھائی تھے اور یہ نو کے نو بلیک ویل خاندان کے چشم و چراغ تضادات کا ایک مجموعہ تھے۔
ان کے والد سیموئیل ایک ڈائسینٹر تھے یعنی وہ چرچ آف انگلینڈ سے اختلاف رکھنے والے نان کنفارمسٹ تھے۔ تضادات میں ان کا بھی کوئی ثانی نہیں تھا۔ ان کی اپنی شوگر ریفائنری بھی تھی اور وہ غلام رکھنے کے بھی خلاف تھے۔ یعنی ایک طرف وہ غلاموں کی محنت سے منافع کما رہے تھے اور دوسری طرف انھیں غلام رکھنے سے نفرت تھی۔
یہ بھی پڑھیے
انھوں نے اپنی پانچ بیٹیوں کو بھی اتنے ہی تعلیمی مواقع فراہم کیے جتنے انھوں نے اپنے چار بیٹوں کو کیے تھے اور اس کے بعد سنہ 1832 میں وہ اپنے بچوں سمیت برسٹل سے نیویارک منتقل ہو گئے۔ اُن کو امید تھی کہ وہ کیریبیائی گنے کی چینی کو شمال میں اگنے والے گنے کی چینی سے بدلنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
لیکن پھر ان کا انتقال ہو گیا اور جب انھوں نے دنیا چھوڑی تو وہ بالکل کنگلے ہو چکے تھے۔ ان کا آخری سبق تھا کہ شوہر کا ہونا تحفظ کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔
اور شاید اسی لیے ان کی کسی بھی بیٹی نے کبھی بھی شادی نہیں کی۔
الزبتھ بلیکویل کون تھیں؟
الزبتھ نے 1849 میں طب کی ڈگری حاصل کی۔ پانچ سال کے بعد ان کی بہن ایملی نے بھی یہ ڈگری حاصل کر لی
بلیک ویل ایک روشن خیال اور معاشرتی طور پر ذرا مختلف خاتون تھیں جنھیں اپنے قابل ہونے کا بہت احساس تھا۔
وہ ماورائی مصنف (ٹرانسینڈلسٹ رائٹر) اور ایڈیٹر مارگریٹ فلر کی ہم خیال تھیں جنھوں نے اعلان کیا تھا کہ انسانیت اس وقت تک روشن خیالی حاصل نہیں کر سکتی جب تک کہ خواتین اس بات کو ثابت نہیں کرتیں کہ وہ سب کچھ کر سکتی ہیں جو وہ چاہتی ہیں اور یہ کامیابی جنسی صلاحیت کی وجہ سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ قابلیت اور محنت سے آتی ہے۔
الزبتھ ایسی شخصیت بننا چاہتی تھیں جن کی زندگی فلر کے خیال کے عین مطابق ہو۔
انھوں نے طب کی تعلیم کا انتخاب اس لیے نہیں کیا تھا کہ انھیں سائنس سے پیار تھا یا وہ دوسروں کو اچھا کر کے راحت محسوس کرتی تھیں (حقیقت میں تو وہ سمجھتی تھی کہ بیماری کمزوری کی علامت ہے) بلکہ ان کے لیے اپنی بات ثابت کرنے کا یہ ایک غیر معمولی طریقہ تھا۔
اگر کوئی خاتون میڈیکل سکول کے لیکچر ہال میں بیٹھے اور ڈپلوما لینے کے لیے درکار تمام امتحانات پاس کرنے میں کامیاب ہو جائے تو کون ہے جو یہ بحث کر سکتا ہے کہ وہ ڈاکٹر نہیں ہے؟
کئی مرتبہ رد کیے جانے کے بعد بلیک ویل مغربی نیو یارک ریاست کے ایک چھوٹے سے دیہی جنیوا میڈیکل کالج میں داخلہ لینے میں کامیاب ہو گئیں۔ داخلے کے لیے کالج میں ان کی منظوری بھی ایک مسئلہ بنی۔ فیکلٹی نے طالب علموں میں کسی خاتون کو شامل کرنے کے خیال کی مخالفت کی اور اسے مضحکہ خیز سمجھتے ہوئے اس کے خلاف متفقہ طور پر ووٹ دیا۔
سنہ 1849 میں انھوں نے کلاس میں اول پوزیشن حاصل کر کے گریجویشن کی اور اپنی قابلیت اور نظم و ضبط کی وجہ سے اپنے ہم جماعتوں سے غیر متزلزل احترام حاصل کیا۔
کالج سے باہر لوگ دو چیزیں سوچنے لگے کہ یا تو وہ بہت چالاک تھیں یا پھر پاگل یا خبطی۔ کون سی عورت ہو گی جو مردوں میں رہتے ہوئے جسم کے متعلق پڑھنا چاہے گی۔ اپنے پروفیشنل راستے کی تنہائی سے اچھی طرح باخبر بلیک ویل نے بعد میں اپنے سے پانچ سال چھوٹی بہن ایملی کو بھی طب کی طرف ہی راغب کیا۔
’الزبتھ بلیکویل: ایک خاتون فزیشن‘
1847 کے بنائے گئے ایک خاکہ میں بلیک ویل اپنے ایک ساتھی طالب علم کا ایک شرارتی نوٹ پڑھتے ہوئے
میڈیکل سکول میں طالب علموں کو اصل مریضوں کے متعلق کچھ زیادہ پتہ نہیں ہوتا تھا اور وہاں سے فارغ التحصیل ہونے والے طالب علموں میں ان کے متعلق حد درجہ لاعلمی کا عنصر پایہ جاتا تھا۔
بلیک ویل فارغ التحصیل ہونے کے تین ماہ بعد اپریل 1849 میں یورپ کے لیے روانہ ہو گئیں تاکہ پیرس میں طب کی عملی تربیت حاصل کر سکیں۔ وہاں انھوں نے زچگی کے ایک سرکاری ہسپتال میں تعلیم حاصل کی اور اسی دوران ایک مریض سے انفیکشن لگنے کے بعد ان کی ایک آنکھ بھی ضائع ہو گئی۔
اس کے بعد وہ لندن چلی گئیں جہاں انھوں نے سینٹ بارتھولومیوز ہسپتال میں کام کیا اور یہیں ان کی دوستی نوجوان فلورنس نائیٹنگیل سے ہوئی جنھوں نے بعد میں بہت نام پیدا کیا۔
سنہ 1851 میں نیو یارک واپس آنے کے بعد انھیں لگا کہ ’فیمیل فزیشن‘ کے فقرے نے انھیں مریضوں سے دور کر رکھا ہے۔ اس دور میں تاثر یہ تھا کہ ایک خاتون معالج صرف اسقاط حمل کرنے والی کوئی خاتون ہوتی تھی جو چھپ کے غیر قانونی کام کرتی تھی۔ اور جیسے پھلتے پھولتے کاروبار کی انھوں نے امید کی تھی ویسا نہیں ہوا۔
لیکن کچھ ہی عرصے بعد ایملی بھی اپنی میڈیکل ڈگری کے ساتھ ان کے ساتھ شامل ہو گئیں اور پھر سنہ 1857 میں دونوں بہنوں نے مل کر نیویارک ’انفرمری فار انڈیجینٹ وومن اینڈ چلڈرن‘ قائم کی۔ غریب خواتین اپنے ڈاکٹر کی جنس کے بارے میں زیادہ پریشان نہیں ہوتی تھیں اور انفرمری بھی ان خواتین میڈیکل گریجویٹس کو جگہ دینے لگی جن کی تعداد آہستہ آہستہ بڑھ رہی تھی اور جو اپنی تربیت ختم کرنا چاہتی تھیں۔
یہ پہلا ہسپتال تھا جس کا پورا عملہ خواتین پر مشتمل تھا۔
سنہ 1861 میں امریکی خانہ جنگی کے فوراً بعد بلیک ویل بہنوں نے اپنے ڈونرز اور حمایتیوں کا ایک اجلاس بلایا اور نیویارک کی خواتین سے اپیل کی۔ اس کے جواب میں ہزاروں خواتین نے وومنز سینٹرل ایسوسی ایشن آف ریلیف کے پہلے تنظیمی اجلاس میں شرکت کی، جو بعد میں یونائیٹڈ سٹیٹس سینیٹری کمیشن بنا اور جو جنگ کے بعد کی سب سے بڑے شہری تنظیم تھی۔
بلیک ویلز نے محاذ پر بھیجنے کے لیے نرسوں کا انتخاب کیا اور ان کی تربیت کی نگرانی کی۔ لیکن آخر کار جب یہ بات واضح ہو گئی کہ مرد ڈاکٹر مساوی شرائط کی بنیاد پر ان کی شراکت کو تسلیم نہیں کر رہے تو وہ ان کوششوں سے دستبردار ہو گئیں۔
انھوں نے اپنی توجہ اپنی اگلی کامیابی کی طرف موڑ دی، جو کہ 1869 میں ویمن میڈیکل کالج آف دی نیویارک انفرمری کا افتتاح تھا۔
ڈاکٹر الزبتھ بلیک ویل اپنے خاندان کے ہمراہ
ایک بار جب انفرمری اور کالج مضبوط بنیادوں پر کھڑا ہو گیا تو الزبتھ نے اسے ایملی کے حوالے کیا اور واپس انگلینڈ چلی گئیں جسے وہ ہمیشہ اپنا گھر سمجھتی تھیں، اور جہاں برٹنز میڈیکل رجسٹر میں شامل ہونے والی وہ پہلی خاتون تھیں۔
الزبتھ گیریٹ اینڈرسن اور صوفیہ جیکس بلیک سمیت معروف خواتین ڈاکٹروں کی حوصلہ افزائی کرنے کے بعد انھوں نے پریکٹس سے ہٹ کے صحت عامہ کے متعلق ایڈوکیسی اور متعدی بیماریوں کے قانون کے خلاف مہم چلانا شروع کر دی، جس کے تحت جسم فروش خواتین کو زبردستی ہسپتالوں میں داخل کرایا جاتا تھا۔
وہ نیشنل ہیلتھ سوسائٹی کی بانی بن گئیں جس کا نعرہ تھا ’پرہیز علاج سے بہتر ہے۔‘ انھیں یقین تھا کہ ایک خاتون ڈاکٹر کو سائنس سے لیس ایک استاد کی طرح ہونا چاہیے۔ انھوں نے اپنی زندگی کی آخری دہائیوں کو ہیسٹنگز میں سمندر کے کنارے ایک کاٹیج میں میں اپنی گود لی ہوئی بیٹی ’کٹی‘ کے ساتھ گزارا۔
الزبتھ مشہور کیوں ہیں؟
وہ بظاہر کوئی بہت دلچسپ شخصیت نہیں تھیں اور نہ ہی زیادہ تر لوگ ان سے مل کر خوش ہوتے تھے
بلیک ویل کی کہانی کو ویرانے میں راہ دکھانے والی عورتوں کی کہانی کے طور پر دیکھنے کو جی چاہتا ہے، لیکن حقیقت اس سے بہت زیادہ پیچیدہ ہے۔
الزبتھ بلیک ویل خواتین کے حقوق کی ابھرتی ہوئی تحریک کو ناپسندیدگی سے دیکھتی تھیں۔ وہ سمجھتی تھیں کہ اس وقت تک خواتین کو ووٹ دینے کا حق بے وقوفی ہے جب تک وہ اپنی نظریاتی آزادی کو مردوں کے حوالے نہیں کر دیتیں۔ وہ فلورنس نائیٹنگیل کے اس خیال سے متفق نہیں تھیں کہ صحت میں خواتین کا حقیقی کردار نرسوں کا تھا اور وہ اپنی ڈاکٹر بہن ایملی سے بھی خاتون ڈاکٹروں کے مناسب کردار کے بارے میں متفق نہیں تھیں۔
الزبتھ اپنے مشن کو زیادہ عوامی صحت کے حوالے سے دیکھتی تھیں، جبکہ ایملی کسی بھی مرد کے برابر اپنے آپ کو ایک فزیشن، سرجن اور میڈیکل پروفیسر کی طرح دیکھنے کی کوشش کرتی تھیں۔
لیکن الزبتھ کی یہ خواہش نہیں تھی کہ وہ اس طرح نظر آئیں کہ لوگ ان کا احترام کریں یا ان سے مل کر خوش ہوں۔ وہ ایک پیچیدہ، چڑچڑی، نامکمل، بہت حقیقی قسم کی ہیروئن تھیں اور ان کی خامیاں ان کی دنیا کو بدلنے والی کامیابیوں سے جدا نہیں کی جا سکتیں۔
جینس پی نمورا کتاب ’دی داکٹرز بلیکویل: ہاؤ ٹو پائنرنگ سسٹرز براٹ میڈیسن ٹو وومن اینڈ وومن ٹو میڈیسن‘ کی مصنفہ ہیں
Comments are closed.