پہاڑی علاقوں میں فون کے سگنل بحال ہونا شروع ہونے کے بعد جمعرات کو پھنسے ہوئے لوگوں کی سرکاری تعداد 100 سے بڑھ کر 663 ہو گئی۔ان افراد میں تقریباً سبھی ایک دور دراز ہوٹل میں مقیم سیاح اور عملے کے افراد ہیں جو سڑکیں تباہ ہو جانے کی وجہ سے علاقے باہر نہیں نکل سکتے۔ حکام اب انھیں باہر نکالنے کا بہترین طریقہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔مقامی اطلاعات کے مطابق ان علاقوں میں پھنسے درجنوں افراد کو خوراک فراہم کر دی گئی ہے۔زندہ بچ جانے والے ایک شخص نے تائیوان کی سینٹرل نیوز ایجنسی کو بتایا کہ ’پہاڑ سے گولیوں کی طرح چٹانوں کی بارش شروع ہو گئی، ہمارے پاس فرار ہونے کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی، ہر کوئی اوٹ لینے کے لیے ریت سے بھرے تھیلوں کے پاس بھاگا۔ ‘ہلاک ہونے والے نو افراد میں سے تین ٹاروکو نیشنل پارک کی طرف جانے والے راستے پر پیدل سفر کر رہے تھے۔ہوالین شہر میں جہاں زلزلہ آیا تھا، امدادی کارروائیاں تیزی سے جاری ہیں اور مزدوروں نے کھدائی کرنے والی مشینوں اور دیگر بھاری آلات کا استعمال کرتے ہوئے کئی تباہ شدہ عمارتوں کو منہدم کیا۔جمعرات کی صبح بی بی سی نے دیکھا کہ امدادی کارکن ریلوے لائنوں کے قریب گرنے والے گاڑیوں کے سائز کے بڑے بڑے پتھروں کو ہٹا رہے تھے تاکہ معمول کی ٹرین سروسز کو دوبارہ چلایا جا سکے۔یورینس بلڈنگ نامی 10 منزلہ عمارت جو زلزلے کے بعد سے نیچے کی طرف جھک گئی، امدادی کارکن اس کے قریب بڑی مقدار میں بجری اور پتھر جمع کر رہے ہیں تاکہ آفٹر شاک کی صورت میں اسے گرنے سے روکا جا سکے۔مقامی خبروں کے مطابق ایک خاتون ٹیچر اس وقت ہلاک ہو گئیں جب وہ اپنی بلی کو بچانے کے لیے واپس عمارت کے اندر گئیں۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesجس وقت یورینس کی عمارت منہدم ہوئی اس وقت اس کے سامنے کام کرنے والے سو چیو یوہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’عمارت اتنی لرز رہی تھی کہ میں مشکل سے چل پا رہا تھا۔ میں واقعی ڈر گیا تھا، میں نے محسوس کیا کہ میری ٹانگیں اب قابو میں نہیں۔ میرے ساتھیوں کا شکریہ، انھوں نے مجھے گھسیٹا تاکہ ہم باہر نکل سکیں۔‘ہوالین کی ایک اور رہائشی نے بتایا کہ کس طرح زلزلے نے ان کے گھر کو بکھیر کر رکھ دیا۔اوشن سائی نے بی بی سی چائنیز سروس کو بتایا کہ ’میں بستر سے باہر نکل ہی رہی تھی کہ کپڑوں کی ریک اور نچلی کیبنٹ مجھ پر گر گئی۔‘’یہ شدید ہوتا جا رہا تھا اور مجھے گھر میں اپنے سامان کی فکر ہونے لگی۔ خوش قسمتی سے موٹر سائیکل کے الٹنے کے علاوہ نقصان بہت کم تھا۔‘یہ زلزلہ ہوالین سے 18 کلومیٹر جنوب میں آیا جس کے بعد 200 سے زائد زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے جن میں سے درجنوں کی شدت کم از کم 6.5 یا اس سے زیادہ تھی جس کی وجہ سے تلاش اور بچاؤ کی کوششوں میں مشکلات پیش آئیں۔تائیوان کے حکام کو توقع ہے کہ آئندہ چند دن میں زلزلے کے مزید جھٹکے محسوس کیے جائیں گے۔ ،تصویر کا ذریعہGetty Imagesمزید شمال میں دارالحکومت تائپے میں بھی زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے جس کی فوٹیج میں تباہ شدہ عمارتوں اور لوگوں کو باہر نکلتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔مقامی ٹی وی سٹیشنوں نے ٹوٹی پھوٹی گاڑیوں اور دکانوں کے کلپس نشر کیے۔تائی پے کے زلزلہ پیما مرکز کے ڈائریکٹر وو چیان فو نے بدھ کے روز کہا کہ ’زلزلہ سطح زمین کے قریب ہے اور یہ گہرا ہے۔ یہ پورے تائیوان اور آف شور جزیروں پر محسوس کیا گیا۔ یہ 25 سال میں سب سے شدید زلزلہ ہے۔‘پورے جزیرے میں بجلی اور انٹرنیٹ کی بندش کی اطلاعات ملی ہیں۔زلزلے کے نتیجے میں جاپان اور فلپائن کے قریبی جزیروں میں سونامی الرٹ بھی جاری کیا گیا تھا تاہم بعد میں ان الرٹس کو کم کر دیا گیا۔اگرچہ تائیوان میں زلزلوں کی ایک تاریخ ہے لیکن برسوں سے یہاں رہنے والے مقامی اور غیر ملکی افراد کا کہنا ہے کہ یہ دہائیوں میں آنے والا سب سے طاقتور زلزلہ ہے۔ اس سے قبل ستمبر 1999 میں 7.6 شدت کا زلزلہ آیا تھا جس میں 2400 افراد ہلاک اور 5000 عمارتیں تباہ ہوئی تھیں۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.