تائیوان میں صدارتی انتخابات سے قبل چینی جاسوسوں کا چرچہ کیوں ہو رہا ہے؟

تائیوان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, کیلی این جی
  • عہدہ, بی بی سی نیوز، سنگاپور

تائیوان میں اہم صدارتی انتخابات سے قبل، جس میں چین سے تعلقات کا معاملہ بھی ووٹ پر اثرنداز ہو گا، ملک میں مبینہ چینی کمیونسٹ جاسوسوں کا چرچہ ہو رہا ہے۔

تائیوان اور چین 1949 سے ہی ایک دوسرے کی جاسوسی کر رہے ہیں جب چینی قومیت پرستوں نے کمیونسٹ چین میں ماؤزے تنگ کے خلاف تائیوان میں علیحدہ حکومت قائم کی تھی۔

گزشتہ 10 ماہ میں تائیوان کے حکام نے الزامات اور سزاؤں کے بیچ کہا ہے کہ چین کی جاسوسی کی سرگرمیاں شدت اختیار کر چکی ہیں اور ان کا دائرہ عسکری حکام سے وسیع ہو چکا ہے۔

سابق ایئر فورس کرنل لیو شینگ شو کو حال ہی میں چین کے لیے جاسوسی کرنے پر 20 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

سال کے آغاز سے اب تک کم از کم 16 افراد پر چین کے لیے جاسوسی کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ 2013 سے 2019 کے درمیان تائیوان میں جاسوسی کے 44 مقدمات درج ہوئے تھے۔

یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب چین کی جانب سے تائیوان پر حاکمیت کے دعوے کو عسکری اور سیاسی دباؤ کے ساتھ بڑھایا جا رہا ہے۔ چین نے امریکی حمایت کے باوجود تائیوان کے خلاف طاقت کے استعمال کو بطور آپشن رد نہیں کیا۔

خبروں کے مطابق چین عالمی طور پر جاسوسی کی کوششوں کو پھیلا رہا ہے، خصوصاً امریکہ کے خلاف۔ دوسری جانب امریکہ نے بھی چین کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوششوں کو تیز کر دیا ہے۔

گرانٹ نیوشیم ریٹائرڈ امریکی کرنل ہیں جنھوں نے اس خطے میں دہائیاں بتائی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تائیوان چینی جاسوسوں کے لیے ایک آسان ہدف ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’چین سے قربت اور ایک جیسی زبان کی وجہ سے یہ اور بھی آسان ہو جاتا ہے اور تائیوان جاسوسوں کو زیادہ سخت سزائیں بھی نہیں دیتا۔‘

’اگر خطرات نہ ہوں تو چین کے لیے جاسوسی پر رضامند ہونا آسان ہو جاتا ہے۔‘

گراںٹ نیوشیم کا یہ بھی کہنا ہے کہ تائیوان میں خفیہ معلومات تک رسائی کو محدود کرنے کا مربوط نظام بھی حال ہی میں رائج کیا گیا ہے۔

’اگر آپ حساس اور خفیہ معلومات کی حفاظت نہیں کر رہے تو کوئی بھی غیر ملکی خفیہ ادارہ ان تک پہنچ سکتا ہے۔ ایسا بہت عرصے تک تائیوان میں ہوتا رہا ہے۔‘

چین

،تصویر کا ذریعہReuters

ماہرین اور مقامی حکام کے مطابق چین جاسوسی کو بھی ملک میں مداخلت کے لیے استعمال کرتا ہے۔

سائی منگ ین تائیوان کے نیشنل سکیورٹی بیورو کی ڈائریکٹر جنرل ہیں جنھوں نے گزشتہ ہفتے کہا کہ چین نے تائیوان کے خلاف طویل عرصے تک ’گولی چلائے بغیر جنگ لڑی ہے۔‘

چین کی جانب سے تائیوان کی فضائی حدود میں بھیجے جانے والے لڑاکا طیاروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ دوسری جانب چین نے تائیوان سے پھلوں اور مچھلی کی درآمد پر بھی پابندی لگا دی ہے۔

جنوری میں تائیوان کے صدارتی انتخابات سے قبل یہاں لوگ ایسے اور اقدامات کی توقع کر رہے ہیں۔ سائی منگ نے چینی حکومت پر یہ الزام بھی لگایا ہے کہ الیکشن میں مداخلت کے لیے سائبر حملے کیے جا رہے ہیں۔

تائیوان میں ہونے والا الیکشن اس لیے اہم ہے کیوں کہ برسراقتدار ڈیموکریٹک پیپلز پارٹی کا مقابلہ تین ایسے امیدواروں سے ہے جو چین سے مذاکرات کا آغاز کرنے کی بات کر رہے ہیں اور اس جماعت کی جیت چین کے منصوبوں کے لیے ایک بڑا چیلنج ثابت ہو گی۔

تائیوان میں چینی جاسوسی کو کم کرنے کی کوششوں میں فوج پر کڑی نظر رکھی جا رہی ہے۔ اب تک زیادہ تر مبینہ جاسوسوں کا تعلق فوج سے ہی تھا۔ چند پر یہ الزام تھا کہ انھوں نے مقامی فوجیوں کو چین کے لیے جاسوسی کی ترغیب دی۔

جولائی میں لو چی اور چار دیگر افراد پر جاسوسی کا الزام لگا۔ لو چی پر الزام تھا کہ انھوں نے ایک ایسا نیٹ ورک قائم کیا جو فوجی اڈوں کے قریب موجود دوکانوں کے ذریعے فوجیوں کو جاسوسی کے لیے ورغلاتے تھے۔ ایک اور ملزم، کو پو تنگ۔ تائیوان کی مشہور گلوکارہ کے چھوٹے بھائی ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ تائیوان کی کاروباری شخصیات کے خلاف تحقیقات سے مزید کیسز سامنے آئیں گے۔ جولائی میں ہی ایک کاروباری شخصیت اور ان کے بیٹے پر دو فوجیوں کے ذریعے خفیہ معلومات اکھٹا کرنے کا الزام لگا۔

چین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ایک خوف یہ بھی ہے کہ چینی جاسوس صرف راز ہی نہیں چرا رہے بلکہ چین کی حمایت میں مقامی رائے عامہ کو بھی بدل رہے ہیں۔

کیری گیرشینیک نیشنل چنگچی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چین تائیوان میں میڈیا کی جنگ کے ذریعے نفسیاتی کھیل، کھیل رہا ہے۔ انھوں نے گزشتہ انتخابات، جو 2020 میں ہوئے تھے، کے دوران چین کی جانب سے تائیوان کے میڈیا کو مثبت خبروں کے لیے ادائیگی کی جانب اشارہ کیا۔

لیو ناچمان بھی نیشنل چنگچی یونیورسٹی میں سیاسی ماہر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس بار تائیوان کی جانب سے اس جنگ میں جاسوسی کے الزامات کو عام کرنا حکمت عملی کا حصہ ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ان کا کہنا ہے کہ برسراقتدار جماعت کے لیے یہ اچھا ہے لیکن ان کے مطابق چین کی کوششوں سے الیکشن پر زیادہ اثر نہیں پڑے گا کیوں کہ گزشتہ انتخابات میں بھی موجودہ صدر چین کی تمام تر کوششوں کے باوجود اکثریت سے جیتے تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ یہ مقدمات کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ ’کسی عام تائیوان کے شہری کی زندگی کا یہ حصہ ہیں اور میرے خیال میں ووٹر بھی ان ہتھکنڈوں سے واقف ہیں۔‘

برسراقتدار جماعت ڈی پی پی نے 2020 کے الیکشن سے قبل جاسوسی کے خلاف اس وقت قانون سازی کی تھی جب مبینہ چینی جاسوس وانگ لیکوانگ نے آسٹریلیا کے میڈیا کو بتایا تھا کہ انھوں نے تائیوان اور ہانگ کانگ کو نشانہ بنایا۔ چینی حکام نے ان کے دعوؤں کو مسترد کر دیا تھا۔

پروفیسر لیو ناچمان کے مطابق یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ چین کے مبینہ اقدامات کام نہیں کر رہے۔

تاہم آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی کی وین ٹی سنگ کے مطابق عوامی طور پر ایسے اعلانات سے نقصان بھی ہو سکتا ہے۔ ’لوگ سوچ سکتے ہیں کہ تائیوان ان جاسوسوں کو نظام تک رسائی حاصل کرنے سے روک کیوں نہیں سکا۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ