جمعرات 8؍ شوال المکرم 1442ھ20؍مئی 2021ء

بی بی سی پرنس فلپ کی موت کو اتنی تفصیل سے کیوں رپورٹ کر رہی ہے؟

بی بی سی پرنس فلپ کی موت کو اتنی تفصیل سے کیوں رپورٹ کر رہی ہے؟

فلپ

آج خبریں مختلف نظر آ رہی ہیں۔ بی بی سی ویب سائٹ اور نیوز بلٹنز میں صرف ایک موضوع کو تفصیل کے ساتھ رپورٹ کر رہا ہے۔ کوئی ہلکی پھلکی خبر نظر نہیں آ رہی اور خبریں پڑھنے والوں کا لہجہ بھی سنجیدہ ہے۔

ان تبدیلیوں کی وجہ برطانوی شاہی خاندان کے ایک سینیئر فرد کی وفات ہے۔

اگر آپ یہ خبر دیکھ یا پڑھ رہے ہیں تو پھر آپ پہلے سے ہی یہ جان چکے ہوں گے کہ وہ ملکہ الزبتھ کے شوہر پرنس فلپ تھے، جو ان چار شاہی خاندان کے ان چار سینیئر افراد میں سے ایک ہیں جن کی موت کی خبر کو بی بی سی اس انداز سے رپورٹ کرے گا۔

یہ بھی پڑھیے

دوسری شخصیات میں ملکہ الزبتھ دوم، ان کے بیٹے اور ورثا، جن میں پرنس چارلس (پرنس آف ویلز) اور ان کا بیٹا اور ولی عہد پرنس ولیم (دی ڈیوک آف کیمبرج) شامل ہیں۔

ہو سکتا ہے کہ ایسا لگ رہا ہو کہ بی بی سی میڈیا کے دوسرے اداروں کی نسبت موت کی اس خبر کو بہت سنجیدگی سے لے رہا ہے۔ تو ایسا کیوں ہے؟

شاہی خاندان میں اموات بی بی سی کے لیے اتنا اہم معاملہ کیسے بن گیا؟

ملکہ الزبتھ دوم 69 برس سے برطانیہ کی ملکہ ہیں اور اس ملک کی سب سے زیادہ طویل عرصے تک تخت نشین رہنے والی فرمانروا ہیں۔ اس کے علاوہ وہ برطانیہ سمیت دیگر 15 ممالک کی سربراہ بھی ہیں۔

وہ کامن ویلتھ کی سربراہ بھی ہیں۔ کامن ویلتھ 54 ممالک کا ایسا رضاکارانہ اتحاد ہے جو ماضی میں تاج برطانیہ کا حصہ رہے ہیں۔ ان کی برطانیہ کے عوام اور ملک سے باہر بھی بہت اہمیت ہے۔

جب برطانوی شاہی خاندان کا کوئی فرد وفات پاتا ہے تو دنیا بھر کا میڈیا اس خبر کو خاص اہمیت دیتا ہے۔ ایسے میں بی بی سی ہر ممکنہ کوشش کرتا ہے کہ اس کی بھرپور مگر درست کوریج ہو اور ایسا کرنے کی ایک خاص بڑی وجہ بھی ہے۔

Queen Elizabeth and Prince Philip walk at Broadlands in Romsey, 2007

،تصویر کا ذریعہPA

بی بی سی کو برطانوی حکومت نہیں بلکہ لائسنس فیس کی صورت میں برطانیہ کی عوام پیسے دیتی ہے۔ فنڈنگ کا یہ ماڈل بی بی سی کی ایڈیٹوریل آزادی کو یقینی بناتا ہے۔

بی بی سی کو لائسنس کی مد میں ٹیکس دینے والوں کی ضرور قدر کرنی چائیے اور سالہا سال سے شاہی خاندان میں عوام کی غیر معمولی مقبولیت رہی ہے۔

سنہ 2002 میں جب ملکہ الزبتھ کی ماں جنھیں مادر ملکہ کہا جاتا تھا فوت ہوئیں تو تین دن تک ویسٹ منسٹر کے پیلس میں ایک لاکھ سے زائد لوگ ان کی میت کے دیدار کے لیے آئے۔

ایک اندازے کے مطابق ایک ملین سے زیادہ لوگوں نے گلیوں میں قطاریں بنائی ہوئی تھی اور دس ملین لوگوں نے ٹی وی پر ان کے آخری سفر کو دیکھا جب ان کے تابوت کو ونڈزر میں دفنانے کے لیے لے جایا گیا تھا۔ عالمی میڈیا نے بھی اس خبر کو بہت تفصیل سے کوریج دی تھی۔

برطانوی شاہی خاندان کے افراد سے متعلق خبریں دنیا بھر کے میڈیا کی زینت بنتی ہیں۔ عالمی سطح پر شاہی خاندان کی کئی تقریبات اندازاً ایک بلین سے زائد لوگوں کی دلچسپی کا ساماں بن جاتی ہیں۔

قصہ مختصر یہ ہے کہ یہ بڑی خبر ہوتی ہے اور بی بی سی بھی ان خبروں کو اتنی ہی اہمیت دیتا ہے۔

بی بی سی کے شاہی خاندان سے متعلق نمائندے جونی ڈائمنڈ کا کہنا ہے کہ بادشاہت ابھی بھی کسی سلیبرٹی سے زیادہ لوگوں کی توجہ کا مرکز ہوتی ہے۔

ایسا کیوں ہے؟ یہ جاننا تو شاید مشکل ہے، مگر اب بھی ایسے بہت لوگ ہیں جن میں شہزادوں اور شہزادیوں کی کہانیاں کی کشش موجود ہے، اگرچہ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ جدید دور میں یہ سب چیزیں عجیب سی لگتی ہیں۔

اس طرح کی خبروں کے لیے بی بی سی ورلڈ سروس ہی وہ جگہ ہو سکتی ہے جہاں ایسی خبروں کی تفصیلی کوریج کی امید لگائی جا سکتی ہے۔

شاہی خاندان کے ایک سینیئر رکن کی موت کی خبر میں دنیا بھر کے لوگ دلچسپی لے رہے ہیں۔

بی بی سی ورلڈ سروس لینگوئجز کے نیوز کنٹرولر طارق کفالہ کا کہنا ہے برطانوی نشریاتی ادارے کے طور پر دنیا بھر میں ہمارے کروڑوں ناظرین، سامعین اور قارئین اس امید کے ساتھ ہماری طرف آئیں گے کہ ہم نے ایسی خبر کی بہت تفصیل سے کوریج کی ہو گی۔

بی بی سی پرنس فلپ کی موت کو اتنی تفصیل سے کیوں رپورٹ کر رہا ہے؟

پہلی بات، جو بی بی سی کی خبروں میں دلچسپی رکھنے والے ہیں وہ کہیں اور پہلے خبروں کو دیکھتے ہیں۔ یہ اس وجہ سے بھی ہے کیونکہ بی بی سی ایسی خبر دینے میں پہل نہیں کرتا مگر یہ ضرور یقینی بناتا ہے کہ خبر درست ہو۔

بریکنگ نیوز سٹوری کے بجائے بی بی سی کی خبر ایک سرکاری اعلامیہ زیادہ لگتی ہو گی۔ دوسرے چینل پر نظر کو خیرہ کر دینے والے گرافکس استعمال کیے ہوں مگر بی بی سی کی کوریج کے نپے تلے انداز کی ہوتی ہے اور ساری توجہ اس بات پر ہوتی ہے کہ اس شخص کو یاد کیا جائے جو مر گیا ہے۔

موت کے اعلان کے بعد ہو سکتا ہے کہ بی بی سی فوری طور پر دوسری خبریں نہ شائع کرے اور کچھ دیگر خبروں کو ویب سائٹس، ٹی وی اور ریڈیو سے ہٹا بھی دے۔

شاہی خاندان کے کسی فرد کی موت کی خبر چند گھنٹوں کے بعد تمام ہی میڈیا پر پہلی خبر ہو گی۔

The Queen and Philip and their four children

،تصویر کا کیپشن

ڈیوک اور ملکہ اپنے چار بچوں کے ہمراہ۔ بائیں سے دائیں: ایڈورڈ، اینڈریو، این اور چارلس

پرنس فلپ کی موت کی خبر کو بھی اس طرح کیوں دیکھا جا رہا ہے؟

یہ بات سچ ہے کہ پرنس فلپ کبھی بھی تخت نشینی کی صف میں نہیں رہے۔ تخت ان کے بڑے بیٹے کے حصے میں آئے گا جبکہ انھیں کبھی بادشاہ کا ٹائٹل بھی نہیں ملا۔

مگر اس خبر کی اہمیت یہ ہے کہ برطانیہ میں جب کوئی خاتون بادشاہ سے شادی کرتی ہے تو اسے اعزازی طور پر ملکہ کا خطاب ملتا ہے۔ مگر جب کوئی مرد کسی ملکہ سے شادی کرے تو پھر اسے بادشاہ کا ٹائٹل نہیں ملتا۔

بادشاہ کا خطاب صرف وہ مرد استعمال کر سکتا ہے جو خود حکمران ہو۔

مگر پرنس فلپ شادی کے وقت یعنی 20 نومبر 1947 سے ہی ملکہ کے ساتھی رہے ہیں۔ یوں وہ برطانیہ کی تاریخ میں طویل ترین عرصے کے لیے کسی ملکہ کے شوہر رہے اور ان کا کلیدی فرض ملکہ کی مدد کرنا تھا۔

وہ ملکہ کی ٹیم کا ایسا حصہ تھے کہ ملکہ اپنے ہر خطاب سے پہلے کہتی تھیں کہ ’میرے شوہر اور میں‘۔

اپنی شادی کی گولڈن ویڈنگ کی تقریب میں ملکہ کا پرنس فلپ کے بارے میں کہنا تھا کہ سادہ سی بات یہ کہ وہ اس تمام عرصے میں طاقت بنے رہے اور وہ یہ تمام برس میرے ساتھ رہے۔ اور میں اور ’ان کا پورا خاندان‘ اور ’یہ ملک اور بہت سے دیگر ممالک ان کے اتنے مقروض ہیں کہ جس کا انھوں نے کبھی دعویٰ بھی نہیں کیا اور نہ ہی جس کے بارے میں ہم کبھی سوچ سکتے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.