بی بی سی میزبان پر عریاں تصاویر کے لیے پیسے دینے کا الزام: ’کچھ نامناسب نہیں ہوا‘، نوجوان کے وکیل کا بیان

بی بی سی کی عمارت

،تصویر کا ذریعہReuters

  • مصنف, جیمز گریگری
  • عہدہ, بی بی سی نیوز

بی بی سی کے ایک میزبان کے مبینہ طور پر ایک کم عمر نوجوان کوعریاں تصاویر کے بدلے پیسے دینے کے معاملے میں ایک نیا موڑ آیا ہے اور اس نوجوان کے وکیل نے اپنے مؤکل کے والدین کے دعوؤں کو ’بکواس‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’کوئی غیرمناسب اور غیر قانونی عمل نہیں ہوا۔‘

واضح رہے کہ برطانوی اخبار ’دا سن‘ نے جمعے کو یہ خبر دی تھی کہ بی بی سی کے ایک میزبان نے مبینہ طور پر ایک کم عمر نوجوان کوعریاں تصاویر بنا کر دینے کے لیے پیسے دیے۔

اس کے بعد بی بی سی نے اتوار کو کہا تھا کہ ان کے ایک سٹاف ممبر کو معطل کر دیا گیا ہے لیکن ان کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی۔

بی بی سی نے کہا کہ وہ ’حقائق کا تعین کر کے مناسب اقدامات سے متعلق معلومات‘ دینے کے لیے جتنا جلدی کام کر سکتے ہیں، کر رہے ہیں۔‘

نوجوان کے وکیل نے کہا ہے کہ ان کے مؤکل نے جمعے کو ’دا سن‘ کی خبر کی اشاعت سے پہلے اپنی والدہ کے لگائے ہوئے الزامات سے انکار کیا تھا۔

’دا سن‘ اخبار کے مطابق انھوں نے اس معاملے میں ثبوت دیکھے ہیں اور یہ نوجوان کی والدہ کے مؤقف کی تائید کرتے ہیں اور والدین کی شکایت پر ’بی بی سی نے کوئی اقدام نہیں کیا۔‘

اس نوجوان کے وکیل کی طرف سے پیر کو بی بی سی کو بھیجے گئے خط میں بتایا کہ نوجوان نے جمعے کی شب ’دا سن‘ اخبار کو ایک واٹس ایپ مییسج میں ان دعووں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ یہ ’بالکل غلط ہیں اور ان میں کوئی صداقت نہیں۔‘

وکیل کے مطابق اس کے باوجود ’دا سن‘ نے ’اپنا نامناسب آرٹیکل‘ شائع کر دیا۔

انھوں نے مزید لکھا کہ ’کسی بھی شک سے بچنے کے لیے، ہمارے مؤکل اور بی بی سی کے میزبان کے درمیان کچھ نامناسب اور غیر قانونی عمل نہیں ہوا اور دا سن اخبار میں لگائے گئے الزامات بکواس ہیں۔‘

نوجوان فرد کے وکیل نے یہ بھی کہا کہ میڈیا کی رپورٹنگ ان کی ذاتی زندگی میں مداخلت ہے۔ اس کے ساتھ انھوں نے دا سن اور بی بی سی دونوں پر تنقید کی کہ انھوں نے ان کے مؤکل سے مؤقف نہیں لیا۔

وکیل نے اپنے خط میں کہا کہ ’جمعہ چھ جولائی سے پہلے دا سن اخبار میں سے کسی نے بھی خبر کی اشاعت سے پہلے میرے مؤکل سے بات کرنے کی کسی قسم کی کوشش نہیں کی۔‘

وکیل نے یہ بھی بتایا کہ ان کے مؤکل اور ان کی والدہ کے تعلقات اچھے نہیں۔

اس خط کے جواب میں ’دا سن‘ نے اپنا مؤقف دیا کہ ’ہم نے دو فکرمند والدین پر خبر شائع کی جنھوں نے بی بی سی سے ان کی اولاد کی حالت اور ان کے میزبان کے رویے کے متعلق شکایت کی۔‘

بی بی سی کی عمارت

’دا سن‘ نے مزید کہا کہ ’ان کی شکایت پر کچھ نہیں کیا گیا، ہم نے ثبوت دیکھے ہیں اور وہ ان (والدین) کے تحفظات کی تائید کرتے ہیں۔ اب یہ بی بی سی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کی جامع تحقیقات کروائیں۔‘

دا سن نے پیر کی شام کو وکیل کا خط سامنے آنے کے بعد ایک نئی خبر شائع کی جس میں نوجوان کی والدہ اور سوتیلے والد نے اخبار کو انٹرویو دیا اور کہا وہ اپنی طرف سے لگائے گئے الزامات پر ’قائم‘ ہیں۔

سوتیلے والد نے اخبار کو کہا کہ انھوں نے ’ایک گھنٹے تک‘ بی بی سی کے سامنے اپنے الزامات پیش کیے۔ والدین کا یہ بیان اخبار میں پہلے چھپنے والی خبر کی نفی کرتا ہے جس میں لکھا گیا کہ ’خاندان کا کہنا ہے کہ کارپوریشن سے کسی نے ان کے ابتدائی بیان کے بعد ان سے انٹرویو نہیں لیا۔‘

’دا سن‘ کے آرٹیکل میں یہ بھی رپورٹ کیا گیا کہ نوجوان کا سوتیلا باپ پولیس کے پاس شکایت لے کر گیا لیکن انھیں یہ کہا گیا کہ ’وہ کچھ نہیں کر سکتے کیونکہ یہ غیر قانونی نہیں۔‘

بی بی سی نیوز کے پاس اس نوجوان کی شناخت نہیں اور ان سے براہ راست بات بھی نہیں کی گئی۔

یہ بھی پڑھیے

دوسری جانب پولیس نے بتایا کہ وہ بی بی سی کے میزبان کے خلاف لگائے گئے الزامات سے متعلق ’معلومات کا جائزہ‘ لے رہے ہیں لیکن انھوں نے ایک دن قبل کہا کہ ’اس وقت کوئی تحقیقات نہیں ہو رہیں۔‘

پولیس کے ترجمان نے بتایا کہ پیر کے دن انھوں نے بی بی سی کے نمائندوں کے ساتھ ایک ورچوئل میٹنگ کی۔

پولیس اب مزید پوچھ گچھ کر رہی ہے ’تاکہ یہ تعین کیا جا سکے کہ کیا کسی جرم کے سرزد ہونے کے شواہد موجود ہیں کہ نہیں۔‘

بی بی سی کی عمارت

،تصویر کا ذریعہGetty Images

جمعے کو چھپنے والی اپنی خبر میں ’دا سن‘ نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ بی بی سی کے میزبان نے 17 سالہ نوجوان کو تصویروں کے لیے ہزاروں پاؤنڈز دیے۔

بی بی سی نے کہا کہ انھیں اس معاملے کی پہلی شکایت مئی میں ملی اور ’نئے الزامات‘ انھیں جمعرات کو ’دا سن‘ میں چھپنے والی خبر سے ایک دن پہلے ملے۔

اتوار کو ’دا سن‘ نے رپورٹ کیا کہ والدین بی بی سی کی طرف سے دیے گئے نئے بیان سے افسردہ ہیں اور انھوں نے الزام لگایا کہ ’ابتدائی شکایت کے بعد بی بی سی سے کسی نے بھی ان سے انٹرویو نہیں لیا۔‘

اخبار نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ پہلی خبر چھپنے کے بعد بی بی سی کے میزبان نے نوجوان فرد کو دو ’گھبرائی ہوئی کالز‘ کیں۔ نوجوان فرد کی اب عمر 20 سال ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ