پشاور بی آر ٹی کی آڈٹ رپورٹ میں اربوں روپے کی بےضابطگیاں سامنے آئی ہیں، محکمہ قانون سے منظوری کے بغیر 47 ارب سے زیادہ روپے خرچ کیے گئے۔
آڈٹ رپورٹ کے مطابق کورونا اور لاک ڈاؤن کے باوجود کنسلٹنٹس کو 30 کروڑ روپے ادا کیے گئے۔
کنسلٹنٹ کو موبلائزیشن ایڈوانس کی مد میں 9 کروڑ 23 لاکھ روپے کی ادائیگی کی گئی۔
کنٹریکٹر سے 21 کروڑ 13 لاکھ روپے کے کنسلٹنسی چارجز ریکور نہیں کیے گئے۔
رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ بی آر ٹی پر کام روکنے کے باوجود پیٹرول کی مد میں 36 لاکھ روپے کی مشکوک ادائیگیاں کی گئیں۔
بی آرٹی کے لیے ڈبگری گارڈن کے قریب 122 قیمتی درخت کاٹے گئے تھے، 24 لاکھ روپے کے درخت 4 لاکھ 20 ہزار روپے میں فروخت کیے گئے۔
رپورٹ کے مطابق بی آر ٹی انتظامیہ نے کنٹریکٹر کو واجبات کی مد میں 31 کروڑ روپے ادا کیے جس کا کوئی ریکارڈ نہیں۔
پی ڈی اے کے ملازم کو خلاف قانون ری سیٹلمنٹ کنسلٹنٹ کے طور پر رکھا گیا، پی ڈی اے ملازم کو بی آر ٹی اور پی ڈی اے دونوں سے تنخواہ ملتی رہی۔
تعمیراتی کام مکمل کیے بغیر کنٹریکٹر کو 5 کروڑ روپے خلاف ضابطہ دیے گئے۔
ٹیکسز کی مد میں موصول 7 کروڑ 30 لاکھ روپے قومی خزانے میں جمع نہیں کرائے گئے۔
بی آر ٹی منصوبے سے متعلق متنازع بورڈ کو 60 لاکھ کی ادائیگی کی گئی، بی آر ٹی میں تاخیر سے 2 کروڑ سے زیادہ روپے کا نقصان ہوا۔
ڈائریکٹر جنرل پشاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی فیاض علی شاہ نے جیو نیوز سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ آڈٹ رپورٹ ابتدائی مشاہدات پر مبنی ہے، متعلقہ فورم میں بات کی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ آڈیٹر جنرل کو تمام آڈٹ پیرا کا تسلی بخش جواب دیا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ابتدائی اعتراضات ہیں، محکمہ کی اکاونٹس کمیٹی اور پی اے سی میں بات ہوتی ہے، دونوں متعلقہ فورمز پر بیشتر اعتراضات دور ہو جاتے ہیں۔
Comments are closed.