بیٹے سمیت موت کا ڈرامہ رچانے والی مصنفہ کا اعتراف جرم: ’کوئی مجھے سن نہیں رہا تھا‘
،تصویر کا ذریعہDAWN WALKER
- مصنف, نادین یوسف
- عہدہ, بی بی سی، ٹورونٹو
ایک مشہور کینیڈیئن مصنفہ نے اعتراف کیا ہے کہ انھوں نے بیٹے سمیت اپنی موت کا ڈرامہ رچایا تھا۔
2022 کے موسم گرما میں ڈان والکر اچانک لاپتہ ہو گئی تھیں جس کے بعد ان کی تلاش کا آغاز ہوا۔ تاہم دو ہفتے بعد ہی پتہ چلا کہ وہ امریکہ کی ریاست اوریگون میں بیٹے سمیت صحیح سلامت زندہ ہیں۔
49 سالہ مصنفہ نے کہا ہے کہ وہ گھریلو تشدد سے بچنا چاہتی تھیں اور اسی لیے انھوں نے یہ ڈرامہ رچایا۔ تاہم ڈان والکر کو یہ ڈرامہ کافی مہنگا پڑا کیوں کہ پولیس نے بعد میں ان پر نو مقدمات درج کیے جن میں بیٹے کا اغوا، شناخت کا فراڈ اور جعلی پاسپورٹ بنوانے کا جرم شامل ہے۔
ڈان والکر نے ان الزامات میں صحت جرم سے انکار کر دیا تھا۔ لیکن جمعرات کو ایک عدالت میں مقدمے کی سماعت کے دوران ڈان والکر نے اعتراف جرم کر لیا۔
ان کے وکلا اور پراسیکیوٹر نے جج سے درخواست کی ہے کہ انھیں 12 ماہ کی مشروط سزا دی جائے یعنی وہ یہ وقت کمیونٹی میں گزار سکیں گی جس کے بعد انھیں 18 ماہ کی پروبیشن گزارنا ہو گی۔
جج براڈ مچل نے اب مقدمے کا فیصلہ سنانا ہے۔
’کوئی میری بات نہیں سن رہا تھا‘
یہ معاملہ 24 جولائی 2022 کو شروع ہوا تھا جب ڈان والکر کی گمشدگی کی اطلاع ساسکاٹون پولیس کو ملی۔ پولیس کے مطابق انھیں دو دن قبل 22 جولائی کو آخری بار دیکھا گیا تھا۔
پولیس کے مطابق ان کی گاڑی اور کچھ سامان ایک مقامی پارک سے ملا تھا جس کے بعد یہ خدشہ پیدا ہوا کہ انھیں اور ان کے بیٹے کو کچھ ہو نہ گیا ہو۔
دو ہفتے تک انھیں تلاش کیا جاتا رہا جس کے دوران مقامی دریا میں بھی جانچ پڑتال کی گئی۔ تاہم پولیس نے پانچ اگست 2022 کو اعلان کیا کہ ڈان والکر ایک ہزار میل دور اپنے بیٹے کے ساتھ اوریگون سٹی میں محفوظ زندگی گزار رہی ہیں۔
پولیس کو ڈان والکر کی خوراک اور فیول سمیت نیٹ فلکس سروس کے لیے کی جانے والی ادائیگیوں سے ان کا پتہ چلا۔ ادھر امریکی حکام نے شناخت چرانے پر ڈان والکر کو گرفتار کرتے ہوئے انھیں کینیڈا کے حکام کے حوالے کر دیا۔
رواں سال کے آغاز پر بی بی سی نے عدالتی دستاویزات تک رسائی حاصل کی جن کے مطابق ڈان نے دعوی کیا کہ ان کا پارٹنر انھیں تشدد کا نشانہ بناتا تھا اور مقامی پولیس حکام انھیں تحفظ دینے میں ناکام رہے۔
اس وقت ڈان والکر نے ایک بیان بھی جاری کیا تھا جس میں انھوں نے کہا کہ ان کے پاس کوئی راستہ نہیں بچا تھا کیوں کہ ’کوئی میری بات نہیں سن رہا تھا۔‘ انھوں نے کہا کہ اگر ان کے فعل سے کسی کو نقصان پہنچا ہے تو وہ معافی مانگتی ہیں۔
یاد رہے کہ ڈان والکر کینیڈا کی مقامی آبادی کا حصہ ہیں یعنی وہ سفید فام نہیں ہیں۔ انھوں نے اپنے بیان میں کہا کہ میں ایسے نظام سے لڑ رہی تھی جو مسلسل ایک مقامی عورت کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہا اور غیر مقامی مردوں کو تحفظ دیتا رہا۔
،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
ڈان والکر نے کہا کہ ’نسلی امتیاز اور نوآبادیاتی نظام کے اثرات، خصوصا ساسکاٹچیون میں، پر قومی اور بین الاقوامی توجہ کی ضرورت ہے‘
ان کا کہنا تھا کہ وہ اس لیے فرار ہو گئی تھیں کیوں کہ ان کو لگتا تھا کہ وہ اور ان کا بچہ خطرے میں ہیں اور ان کی گمشدگی حکام سے تحفظ ملنے میں ناکامی کے بعد فرار کی آخری کوشش تھی۔
تاہم مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ ڈان والکر کے الزامات کی پوری تفتیش کی گئی ہے۔
ڈان والکر کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا تھا اور ان کا مقدمہ 20 نومبر کو شروع ہونا تھا اور جنوری 2024 تک چلنا تھا۔ تاہم ان کی جانب سے اعتراف جرم کے بعد اب مقدمہ کی سماعت نہیں ہو گی۔
ان کے مقدمے کو مقامی مصنفین کی جانب سے کافی توجہ ملی جن کا کہنا ہے کہ یہ کیس کینیڈا کے نظام انصاف میں مقامی خواتین کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کی کہانی ہے۔
اپنے دفاع کے لیے ڈان والکر نے کینیڈا کے ایک معروف وکیل میری ہینین کو رکھا تھا۔ کچھ مدت قبل ایک بیان میں میری ہینین نے کہا تھا کہ ان کی موکلہ نے حکام سے کئی بار مدد مانگی لیکن نظام نے انھیں ناکام کیا۔
ایک معروف مصنفہ
ڈان والکر کو ڈان ڈمونٹ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ وہ ایک معروف مصنفہ ہیں جو مقامی آبادی کے حقوق پر کام کرنے کی وجہ سے بھی جانی جاتی ہیں۔
ان کا تازہ ناول ’دی پرائری چکن ڈانس ٹوئر‘ کو حال ہی میں ’سٹیفن لیکوک میموریئل میڈل فار ہیومر‘ کے لیے منتخب کیا گیا جو کینیڈا میں ادب کا ایک کافی پرانا اعزاز ہے۔
ڈان والکر کوئینز یونیورسٹی اونٹاریو سے قانون کی ڈگری حاصل کر چکی ہیں اور لبرل پارٹی کی جانب سے پارلیمانی سیٹ کے لیے گزشتہ انتخابات میں حصہ بھی لے چکی ہیں۔
بی بی سی کی جانب سے رواں سال کے آغاز میں ان کو چند سوالات بھجوائے گئے تھے تاہم انھوں نے اپنے مقدمے پر بات کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ ان کی زندگی اور کام پر ایک مقامی عورت ہونے کی وجہ سے کافی اثر پڑا کیوں کہ ان کے خاندان نے نسلی امتیاز اور تشدد کا سامنا کیا۔
ڈان والکر نے کہا کہ ’نسلی امتیاز اور نوآبادیاتی نظام کے اثرات، خصوصا ساسکاٹچیون میں، پر قومی اور بین الاقوامی توجہ کی ضرورت ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جب انھیں جیل بھیجا گیا تو انھوں نے دیکھا کہ زیادہ تر قید خواتین بھی مقامی ہیں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں نے دیکھا کہ جیل میں ان سے برا سلوک کیا جاتا ہے اور بہت سی خواتین وکلا یا طبی اور ذہنی صحت کی سہولیات تک رسائی نہیں رکھتیں۔‘
سٹیٹسٹکس کینیڈا کے مطابق ملک میں مقامی خواتین کی قید کی شرح غیر مقامی خواتین سے 15 فیصد زیادہ ہے۔ گزشتہ سال مقامی خواتین، جو ملک کی مجموعی آبادی کا صرف پانچ فیصد حصہ ہیں، کینیڈا کی جیلوں میں قید خواتین کا نصف تھیں۔
ڈان والکر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ اعداد و شمار اگرچہ قومی شرمندگی ہیں لیکن یہ مکمل کہانی نہیں بتاتے۔‘
Comments are closed.