’بیٹا اگر تم میرے سامنے آ گئے تو میں تمھیں مار ڈالوں گا‘ میانمار کے مزاحمت کار باپ کی فوجی بیٹے کو تنبیہ
’بیٹا اگر تم میرے سامنے آ گئے تو میں تمھیں مار ڈالوں گا‘ میانمار کے مزاحمت کار باپ کی فوجی بیٹے کو تنبیہ
بوکیار ین کا گھر اب راکھ کا ڈھیر بن چکا ہے
’اگر مجھے پہلے فائرنگ کا موقع ملا تو مجھے یقین ہے کہ میں آپ کو مار ڈالوں گا۔۔۔‘ میانمار میں ایک والد اپنے بیٹے سے فون پر بات کر رہے ہیں، جو میانمار کی فوج کا حصہ ہے۔
والد، بوکیار ین نے فروری 2021 میں میانمار کی منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد مسلح مزاحمت میں شمولیت اختیار کی تھی۔ اس وحشیانہ جنگ نے ان کےخاندان کو تقسیم کر دیا ہے۔ اب وہ ایک فوجی جنتا کے خلاف لڑ رہے ہیں جس کا دفاع ان کا بیٹا کر رہا ہے۔
بوکیار ین جنگل میں ایک برگد کے درخت کے نیچے بیٹھے اپنے بیٹے نائی نائی سے فون پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’آپ مجھے اپنے والد کے طور پر ایک موقع دے سکتے ہیں لیکن میں آپ کو نہیں چھوڑوں گا۔‘
بیٹے کی جانب سے باپ کو جواب ملتا ہے کہ ’والد صاحب میں آپ کے بارے میں فکر مند ہوں، آپ نے مجھے فوجی بننے کی ترغیب دی تھی۔‘
بو کیار ین کے دو بیٹے مسلح افواج میں ہیں۔ یہ بزرگ اب بیٹوں کی کال کا جواب نہیں دیتے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’فوج گھروں کو تباہ کر رہی ہے، انھیں آگ لگا رہی ہے۔‘
بوکیار ین اپنے بیٹے سے فوج چھوڑنے کی التجا کرتے ہیں۔ ’یہ فوج لوگوں کو مارتی ہے، مظاہرین پر گولیاں چلاتی ہے، بغیر کسی وجہ کے بچوں کو مارتی ہے، عورتوں کی عصمت دری کرتی ہے. بیٹا شاید آپ کو یہ معلوم نہ ہو۔‘
نائی نائی احترام کے ساتھ والد کو جواب دیتا ہے کہ ’یہ آپ کا خیال ہے۔ ہم اسے اس طرح سے نہیں دیکھتے ہیں۔‘
واضح رہے کہ میانمار فوج کی طرف سے وسیع پیمانے پر مظالم کے دستاویزی ثبوت سامنے آ چکے ہیں۔
بیٹے کے ساتھ فون پر بات کرنے کے بعد بو کیار ین کہتے ہیں کہ وہ اپنے دونوں بیٹوں کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ مزاحمتی تحریک میں شامل ہو جائیں۔ ’وہ نہیں سن رہے ہیں لہذا اگر لڑائی میں ہمارا آمنا سامنا ہو گیا تو یہ قسمت پر منحصر ہے۔‘
بو کیار ین اور ان کی بیوی ین ین مائنٹ کے آٹھ بچے ہیں۔ جب ان کے دو بیٹوں نے فوج میں شمولیت اختیار کی تو انھیں فخرمحسوس ہوا۔ والد نے ان کی فوجی گریجویشن کی تقریب کی تصاویر یادگار کے طور پر رکھی تھیں۔
بوکیار ین اور ین ین مائنٹ کے آٹھ بچے تھے، جن میں سے دو بیٹے فوج میں بھرتی ہو گئے
وہ کہتے ہیں کہ بیٹوں کا فوجی ہونا ایک بڑے اعزاز کی بات تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب وسطی میانمار کے اس حصے میں لوگوں نے اپنے گاؤں میں فوج کا پھولوں سے استقبال کیا تھا۔
ین ین مائنٹ کا کہنا ہے کہ پورا خاندان پیسے کمانے کے لیے کھیتوں میں کام کرتا تھا تاکہ دونوں لڑکے تعلیم حاصل کر سکیں اور فوج میں شمولیت اختیار کر سکیں۔
خانہ جنگی سے پہلے، تتمادو (فوج) میں شمولیت سماجی اور اقتصادی حیثیت کی حامل ہوتی تھی لیکن گزشتہ سال کی بغاوت نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔
جب بو کیار ین نے فوج کو جمہوریت کے حامی نہتے مظاہرین کے خلاف بے رحمی سے کریک ڈاؤن کرتے ہوئے دیکھا تو وہ اب ان کی حمایت نہیں کر سکتے تھے۔ انھوں نے اپنے بیٹوں پر زور دیا کہ وہ فوج چھوڑ دیں۔
بوکیار ین جنگل میں برگد کے درخت کے نیچے بیٹھے پان چباتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’انھوں نے مظاہرین کو قتل کیوں کیا؟ انھوں نے ان پر تشدد کیوں کیا؟ وہ بغیر کسی وجہ کے لوگوں کو کیوں مار رہے ہیں؟‘
ان کا کہنا ہے کہ وہ اس سب سے دل برداشتہ ہیں۔
فوجی بغاوت سے پہلے بو کیار ین ایک کسان تھے اور کبھی بندوق کو ہاتھ نہیں لگایا تھا۔ اب، وہ ایک سویلین ملیشیا یونٹ کے سربراہ ہیں۔
وہ پیپلز ڈیفنس فورسز (پی ڈی ایف) نامی ایک ڈھیلے ڈھالے نیٹ ورک کا حصہ ہیں ، جو بہت بڑی اور بہتر مسلح فوج کے خلاف جمہوریت کی بحالی کے لیے لڑ رہے ہیں۔
بو کیار ین تقریباً 70 جمہوریت نواز جنگجوؤں کے ایک یونٹ کی قیادت کرتے ہیں جو خود کو ’وائلڈ ٹائیگرز‘ کہتے ہیں۔ ان کے پاس صرف تین خودکار رائفلیں ہیں۔
بوکیار ین کے چار بیٹے ان کے ساتھ مل کر لڑ رہے ہیں۔ فوج میں شامل دونوں بیٹے اپنے باپ اور بھائیوں کے ٹھکانے سے صرف 50 کلومیٹر کے فاصلے پر تعینات ہیں۔
ین ین مائنٹ افسردہ لہجے میں کہتی ہیں کہ ’ہم نے سوچا کہ ہم اپنے فوجی بیٹوں پر بھروسہ کر سکتے ہیں لیکن اب وہ ہمیں پریشان کر رہے ہیں۔‘
’فائرنگ سے ایسا لگ رہا تھا جیسے بارش ہو رہی ہو‘
فروری کے آخر میں ایک روز صبح کے تین بج رہے تھے جب بو کیار ین کے پی ڈی ایف یونٹ کو قریبی گاؤں سے ایک فون کال موصول ہوئی کہ فوج ان کے گاؤں میں گھس آئی ہے۔
انھیں پیغام ملا کہ ’فوجی ہمارے گاؤں میں داخل ہو چکے ہیں، ہمیں مدد کی ضرورت ہے، آؤ اور ہماری مدد کرو۔‘
بوکیار ین کا بیٹا من آنگ سب سے پہلے جانے کے لیے تیار ہوا۔ ان کی ماں، یہ جانتے ہوئے کہ وہ اسے روک نہیں سکتیں، اس کی بحفاظت واپسی کے لیے دعا کرتی ہیں۔
’وائلڈ ٹائیگرز‘ موٹر سائیکلوں کے قافلے میں روانہ ہوئے۔ بو کیار ین، من آنگ کے ساتھ سامنے کی طرف سوار ہوئے، اور معمول کے مطابق یونٹ کی قیادت کی۔
بو کیار ین اور ان کا بیٹا من آنگ اپنے دستے کی قیادت کر رہے تھے، جب ان پر گھات لگا کر حملہ کیا گیا
وہ ایک جانے پہچانے راستے پر سفر کر رہے تھے جو ماضی میں محفوظ تھا، جب ان پر گھات لگا کر حملہ کیا گیا تھا۔
بوکیار ین کے ایک اور بیٹے من نینگ کہتے ہیں کہ ’چھپنے کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی، کوئی بڑا درخت یا کوئی اور چیز نہیں تھی۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ہم قتل گاہ میں تھے۔ ہمارے ہتھیاروں کا ان کے ہتھیاروں سے کوئی مقابلہ ہی نہیں تھا۔‘
بو کیار ین نے اپنے ساتھیوں کو پیچھے ہٹنے کا حکم دیا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ فوجی یونٹ میں کوئی انھیں جانتا تھا۔
’جب میں نے بھاگنا شروع کیا تو میں نے ان پر گولی چلائی اور پھر صرف فائرنگ کرتا رہا اور بھاگ گیا۔‘
ین ین مائنٹ کیمپ میں بے چینی سے انتظار کر رہی تھیں اور سن سکتی تھیں کہ کیا ہو رہا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’فائرنگ اتنے تسلسل سے ہو رہی تھی کہ ایسا لگ رہا تھا جیسے بارش ہو رہی ہو۔‘
گھات لگا کر کیے گئے حملے کے چند گھنٹوں کے اندر ہی فوج نے ہلاک شدگان کی تصاویر فیس بک پر پوسٹ کیں اور دعویٰ کیا کہ انھوں نے 15 افراد کو ہلاک کیا ہے۔
اس کے بعد ہی ین ین مائنٹ کو احساس ہوا کہ انھوں نے من آنگ کو کھو دیا ہے، وہ اپنی ماں کے بہت قریب تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میرے بیٹے نے میرا بہت خیال رکھا، وہ میرے لیے باورچی خانے کی صفائی کرتا تھا۔ اس نے میرے کپڑے دھوئے۔ وہ واقعی میرے لیے اچھا تھا۔‘
جون میں، فوجیوں نے ان کے گاؤں میں 150 گھروں کے ساتھ ساتھ ان کے خاندان کے گھر اور ان کے تمام سامان کو جلا دیا۔
ایسا لگتا ہے کہ فوج کو معلوم ہے کہ بو کیار ین مسلح جہدوجہد کا حصہ ہیں لیکن یہ واضح نہیں کہ مسلح افواج کو معلوم ہے کہ بوکیار ین کے دو بیٹے بھی فوج کا حصہ ہیں۔
ین ین مائنٹ اپنے مرنے والے بیٹے کے لیے دعا مانگ رہی ہیں
ین ین مائنٹ کہتی ہیں کہ ’میرا گھر جل گیا اور میں نے اپنے بیٹے کو کھو دیا۔ میں واقعی یہ سب کچھ برداشت نہیں کر سکتی۔ میرا دماغ بالکل میرے جسم کے ساتھ نہیں، ایسا لگتا ہے جیسے میں پاگل ہو گئی ہوں۔‘
جب سے فوج نے اقتدار پر قبضہ کیا، میانمار بھر میں گیارہ لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہیں اور کم از کم 30 ہزار گھروں کو جلا دیا گیا ہے۔
ایسوسی ایشن فار پولیٹیکل پریزنرز کا کہنا ہے کہ بغاوت کے بعد سے اب تک سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں 2500 سے زائد افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے۔
تنازعات پر نظر رکھنے والے گروپ ایکلیڈ کے اعداد و شمار کے مطابق دونوں اطراف میں ہلاکتوں کے کل اعداد و شمار کا تخمینہ 10 گنا زیادہ ہے۔
فوج نے میدان جنگ میں ہونے والے نقصانات کا اعتراف کیا ہے لیکن اس کی کوئی تفصیلات فراہم نہیں کی ہیں۔
اہلخانہ نے من آنگ کی لاش اٹھانے کے لیے دو دن تک کوشش کی لیکن یہ ناممکن تھا کیونکہ فوجی علاقے میں پہرہ دے رہے تھے۔
’میں ان کی ہڈیاں بھی نہیں اٹھا سکتی تھی۔۔۔‘ ان کی ماں کہتی ہیں کہ ’مجھے بہت غصہ ہے۔ میں لڑنے جانا چاہتی ہوں ملیکن وہ مجھے نہیں لیں گے کیونکہ میں عورت ہوں اور میری عمر 50 سال سے زیادہ ہے۔‘
بوکیار ین جس گاؤں میں اپنے خاندان کے ساتھ ہنسی خوشی رہتے تھے، اسے جلا دیا گیا
’میں آپ کو یا کسی کو بھی نہیں بخشوں گا‘
بو کیار ین کا خیال ہے کہ عوامی بغاوت جیت جائے گی اور وہ خاندان کے گھر کی تعمیر نو کریں گے لیکن جیسے جیسے خانہ جنگی میں شدت آتی جا رہی ہے، ایسا لگتا ہے کہ ان کی جیت ابھی بہت دور ہے۔
بو کیار ین نے اپنے فوجی بیٹے کو بتایا کہ ’ہم فوج سے اس لیے نہیں لڑ رہے کیونکہ ہم لڑنا چاہتے ہیں۔‘
’لڑنے کی وجہ یہ ہے کہ آپ کے رہنما ناانصافی کر رہے ہیں لہذا ہمیں لڑنا ہو گا۔ تم لوگوں کی وجہ سے تمہارے بھائی کو مار دیا گیا۔‘
نائی نائی نے جواب دیا کہ وہ جانتا ہے کہ اس کا بھائی مر گیا ہے۔
بو کیار ین اپنے بیٹے کو غصے سے کہتے ہیں کہ ’آؤ اور اپنے گاؤں کو دیکھو۔ اب یہ سب راکھ کا ڈھیر بن چکا ہے۔ میرا دل بہت دکھی ہے۔‘
اس کے بعد بو کیار ین نے اپنے بیٹے کو متنبہ کیا۔
’اگر آپ میرے علاقے میں آتے ہیں اور جنگ شروع کرتے ہیں، تو میں آپ کو یا کسی کو بھی نہیں چھوڑوں گا۔ میں صرف لوگوں کے ساتھ کھڑا رہوں گا، میں آپ کے ساتھ کھڑا نہیں ہو سکتا۔۔۔‘ وہ یہ کہہ کر فون بند کر دیتے ہیں۔
اس رپورٹ میں تمام نام اور مقامات کی تفصیلات کو لوگوں کی شناخت کی حفاظت کے لیے ظاہر نہیں کیا گیا۔
Comments are closed.