بیٹا، بیٹی، اہلیہ اور پوتے کو اسرائیلی بمباری میں کھونے والے الجزیرہ کے صحافی: ’غزہ میں کوئی جگہ محفوظ نہیں‘

تصویر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, کیتھرین آرمسٹرانگ
  • عہدہ, بی بی سی نیوز

الجزیرہ کا کہنا ہے کہ غزہ میں اس کے ایک رپورٹر کے خاندان کے چار افراد اسرائیلی بمباری میں ہلاک ہوئے ہیں۔

ایک بیان میں الجزیرہ نیٹ ورک کا کہنا ہے کہ وائل الدحدوح کی بیوی، نوجوان بیٹا اور بیٹی مرکزی غزہ میں پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں ہلاک ہوئے۔

بعد ازاں یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ ان کے پوتے بھی پناہ گزین کیمپ پر بمباری میں ہلاک ہوئے ہیں۔ الجزیرہ نے ان اموات اور اسرائیل کے ’اندھا دھند حملوں‘ کی مذمت کی ہے۔

چینل کے مطابق وائل الدحدوح کی فیملی مرکزی غزہ کے نصیرت کیمپ کے ایک گھر میں رہائش پذیر تھی۔ انھوں نے اسرائیل کی جانب سے شمالی غزہ میں فوجی کارروائی کی تنبیہ کے بعد نقل مکانی کر لی تھی اور اس پناہ گزین کیمپ میں رہائش پذیر ہوئے تھے۔

وائل الدحدوح کے 15 سالہ بیٹے محمود ہائی سکول کے آخری سال میں تھے جبکہ ان کی بیٹی کی عمر سات سال اور پوتے کی عمر فقط 18 ماہ تھی۔ وائل الدحودح نے اپنے بیوی، بچوں اور پوتے کی نمازِ جنازہ خود پڑھائی۔

وائل الدحدوح

،تصویر کا ذریعہREUTERS

اُن کے خاندان کے دیگر ارکان ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔

اسرائیلی دفاعی فورسز (آئی ڈی ایف) نے تصدیق کی ہے کہ اس نے غزہ میں حماس کے اہداف کے خلاف فضائی کارروائی کی جس میں وائل الدحدوح کے خاندان کے افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

غزہ میں صحافیوں کے خاندانوں سمیت عام شہریوں پر بمباری اور انسانی جانوں کے ضیاع سے متعلق بی بی سی کے سوال پر اسرائیلی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل پیٹر لرنر نے کہا کہ ’کسی بھی انسانی جان کو کھونا صدمے کا باعث ہے۔‘

’غزہ میں کوئی بھی جگہ محفوظ نہیں‘

وائل الدحدوح

،تصویر کا ذریعہANADOLU AGENCY

آن لائن جاری کردی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اپنے اہلخانہ کی ہلاکت کی اطلاع وائل الدحدوح کو اس وقت ملتی ہے جب وہ ایک میڈیا کی گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھے ہوتے ہیں۔ اس موقع پر وہ آبدیدہ ہو جاتے ہیں اور ان کے ساتھی انھیں دلاسہ اور تسلی دیتے ہیں۔

اس کے بعد کی ویڈیو میں وائل الدحدوح ہسپتال میں اپنے پیاروں کی میتوں کو دیکھنے جاتے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں بظاہر ان کی سات سال کی بیٹی کی لاش تھی۔ ایک موقع پر وہ اپنے نوجوان بیٹے کی لاش کے سامنے جھکے ہوئے عربی میں چند الفاظ ادا کرتے ہیں۔

الدحدوح نے ہسپتال سے نکلنے کے بعد الجزیرہ کو دیے انٹرویو میں کہا کہ ’جو ہوا وہ واضح ہے۔ یہ بچوں، خواتین اور عام شہریوں پر ٹارگٹڈ حملے ہیں۔ میں یرموک میں ایسے ہی ایک حملے کی رپوٹنگ کر رہا تھا۔ اسرائیلی کارروائیوں میں نصیرت سمیت ایسے کئی علاقوں کو ہدف بنایا ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’ہمیں شک تھا کہ اسرائیلی فورسز ان لوگوں کو سزا دیے بغیر جانے نہیں دے گا۔ افسوس کہ یہی ہوا۔ یہ وہ ’محفوظ‘ علاقہ ہے جس کی قابض آرمی بات کر رہی تھی۔‘

الدحدوح نے کہا کہ ’غزہ میں کوئی بھی جگہ محفوظ نہیں۔‘

الدحدوح غزہ میں الجزیرہ عربی کے بیورو چیف ہیں اور وہ گذشتہ کئی برسوں سے اس ادارے سے منسلک ہیں۔

الجزیرہ نے کہا ہے کہ اسے غزہ میں اپنے ساتھیوں کے تحفظ کے حوالے سے شدید تحفظات ہیں۔ اس نے ان کے تحفظ کے لیے ’اسرائیلی حکام کو ذمہ دار‘ ٹھہرایا ہے۔

الجزیرہ نے کہا ہے کہ ’ہم عالمی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ معاملے میں مداخلت کرے تاکہ شہریوں پر حملے روکے جا سکیں اور معصوم جانیں بچائی جا سکیں۔‘

کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ کے مطابق اسرائیل اور غزہ میں حالیہ صورتحال کے دوران کم از کم 24 صحافی ہلاک ہوئے ہیں۔

سات اکتوبر کو حماس کے حملے کے بعد غزہ شدید بمباری کی زد میں رہا ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ