’بینک میں پیسے ہیں لیکن روٹی نہیں خرید سکتا‘: جنگ زدہ غزہ کے باسی کیش کے بغیر کیسے گزارہ کر رہے ہیں؟،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا کیپشنجنگ کے دوران غزہ کے متعدد اے ٹی ایم خراب ہو چکے ہیں

  • مصنف, امیرہ مدھبی
  • عہدہ, بی بی سی عربی
  • ایک گھنٹہ قبل

’ایسے دن بھی آتے ہیں جب میں اپنے بچوں کے لیے ایک روٹی نہیں خرید سکتا، حالانکہ روٹی دستیاب ہوتی ہے اور میرے بینک اکاؤنٹ میں پیسے بھی ہوتے ہیں۔‘غزہ کے علاقے دیر البلاہ سے تعلق رکھنے والے ایک فلسطینی نوجوان محمد الکلوب کا کہنا ہے کہ ان کے بینک اکاؤنٹ میں موجود رقم اب ان کے لیے کسی کام کی نہیں کیونکہ وہ نقد رقم نہیں نکال سکتے جبکہ بہت سے دکاندار الیکٹرانک لین دین قبول نہیں کرتے۔حالیہ ماہ میں غزہ میں نقد رقم کی بہت کمی ہو گئی ہے خاص طور پر جب سے اسرائیل نے غزہ کے لیے مختص فنڈز کو منجمد کیا ہے۔

کیش کی مشکلات

غزہ جنگ کے آغاز کے ساتھ جیسے ہی بے گھر ہونے والے لوگوں کی تعداد بڑھی، نقد رقم کے حصول کی خاطر اے ٹی ایم مشینوں اور بینکوں کے سامنے لوگوں کی لمبی قطاریں لگنے لگیں۔ بہت سے لوگ پیسے نکالنے کی باری آنے سے پہلے کئی دن انتظار کرتے تھے۔

جوں جوں وقت گزرتا گیا جنگ میں بینک بھی تباہ ہوتے گئے۔ ایسے میں کچھ شہریوں نے موقع سے فائدہ اٹھانے کی ٹھانی اور ’منی ایکسچینج مافیا ‘ کے طور پر سامنے آئے۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے افراتفری اور خوف و ہراس کے درمیان پیسہ کمانے کا موقع ذھونڈ نکالا تھا۔ جنگ شروع ہونے کے چھ ماہ بعد 24 مارچ کو فلسطینی مانیٹری اتھارٹی نے اعلان کیا کہ ’مسلسل بمباری، بجلی کی بندش اور مشکل زمینی صورتحال کی وجہ سے غزہ کی پٹی کے بینکوں کی تمام برانچیں کھولنا ممکن نہیں ہے۔‘اس کے نتیجے میں نقدی کا غیر معمولی بحران پیدا ہوا۔ دوسری جانب زیادہ تر اے ٹی ایم بھی کام نہیں کر رہے۔ 11 مئی کو فلسطین مانیٹری اتھارٹی نے آن لائن بینکنگ سروسز، الیکٹرانک والٹ اور بینک کارڈز کا استعمال کرتے ہوئے ایک فوری الیکٹرانک ادائیگی کی سروس شروع کی۔ تاہم انٹرنیٹ کی بندش اس کے درمیان ایک رکاوٹ تھا اور یہ سروس فروغ نہ پا سکی۔ محمد نے بتایا کہ ’جنگ کے دوران آٹھ ماہ میں مجھے صرف ایک دکان مل سکی جس میں الیکٹرانک طریقے سے ادائیگی کر سکتا تھا۔ خاص طور پر اب ضروریات کی چیزیں دکانوں کے بجائے کیمپوں میں لگے سٹالز پر فروخت کی جا رہی ہیں۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنغزہ کے باشندے جنگ کے ابتدائی دنوں میں اپنی نقد رقم حاصل کرنے کے لیے گھنٹوں اے ٹی ایم کے سامنے قطار میں کھڑے رہتے

غزہ کی معیشت

غزہ میں نقدی کے موجودہ بحران کی وجہ کو جاننے کے لیے یہاں کے مالیاتی نظام کو قریب سے دیکھنا ہو گا۔ 2007 میں حماس کے مکمل کنٹرول کے بعد سے غزہ پرعائد کی گئی رکاوٹوں سے اس کی معیشت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔اسرائیل کا کہنا ہے کہ عسکریت پسند گروپ کے حملوں کو روکنے کے لیے یہ رکاوٹیں ضروری ہیں۔غزہ کی پٹی میں بینک یا تو فلسطین مانیٹری اتھارٹی اور رام اللہ میں فلسطین کی حکومت سے منسلک ہیں یا پھر نجی ملکیت میں ہیں اور حماس کی حکومت سے وابستہ ہیں۔فلسطین مانیٹری اتھارٹی کا قیام پیرس معاہدے کے تحت کیا گیا تھا، جس پر 1994 میں دستخط کیے گئے تھے، اور یہ اوسلو معاہدے سے منسلک ایک اقتصادی ضابطہ ہے۔اس معاہدے نے فلسطینی معیشت اور اس کے مالیاتی لین دین کو اسرائیلی بینکاری نظام کی براہ راست نگرانی اور کنٹرول میں رکھا۔معاہدے کے تحت اسرائیل فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے ٹیکس وصول کرتا ہے اور انھیں ماہانہ بنیادوں پر، اسرائیلی وزارت خزانہ کی منظوری، دستخط اور ایک فیصد کٹوتی کے بعد مانیٹری اتھارٹی کو منتقل کرتا ہے۔ان فنڈز کو ٹیکس ریونیو کہا جاتا ہے اور یہ فلسطینی اتھارٹی کی مالی آمدنی کے سب سے بڑے حصے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان فنڈز کا ایک حصہ غزہ کی پٹی کو مختص کیا جاتا ہے۔2007 میں جب حماس نے غزہ کی پٹی کا کنٹرول سنبھالا تو غزہ کے ہزاروں سرکاری ملازمین فلسطینی اتھارٹی سے اپنی تنخواہیں وصول کرتے رہے۔ یہ غزہ میں مانیٹری اتھارٹی سے منسلک بینکوں کے ذریعے منتقل کیے گئے تھے۔غزہ میں اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی برائے مہاجرین (UNRWA) اور قطری امداد کی مد میں بھی نقد رقم غزہ میں آئی، جسے غزہ میں ڈالرز کی آمد کا بنیادی ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔غزہ سے تعلق رکھنے والے معاشی محقق احمد ابو قمر آمدنی کے اس سلسلے کو ’نقدی کے سرکاری راستے‘ کے طور پر بیان کرتے ہیں۔احمد ابو قمر نے بی بی سی کو بتایا کہ یہاں غیر سرکاری راستے بھی ہیں، جنھیں ’شیڈو اکانومی‘ کہا جاتا ہے اور اس میں مختلف اشیا کو نقدی سے تبدیل کیا جاتا ہے۔لیکن غیر سرکاری راستوں سے پیدا ہونے والی نقد رقم مانیٹری سائیکل یا ’منی سپلائی‘ میں ظاہر نہیں ہوتی۔انھوں نے کہا کہ غزہ کے تمام مالی وسائل مل کر بھی ایک صحت مند معاشی نظام قائم کرنے کے لیے ناکافی رہے جس سے غزہ کی پٹی میں مقیم 20 لاکھ سے زائد شہری معمول کے مطابق زندگی گزار سکتے۔

مالی لین دین میں استعمال ہونے والی تین کرنسیاں

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشناسرائیلی شیکل غزہ میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی کرنسی ہے
اسرائیلی شیکل یہ سب سے زیادہ استعمال ہونے والی کرنسی، اور روزمرہ کے لین دین کی بنیاد ہے۔ امریکی ڈالر درآمدات، بین الاقوامی تجارتی لین دین، اور لگژری مصنوعات جیسے کاروں کی خریداری میں استعمال ہوتا ہے۔ اردنی دینار روایتی طور پر شادی کا جہیز ادا کرنے، جائیداد یا زمین خریدنے، اور یونیورسٹی کی فیس ادا کرنے جیسے کاموں میں اسے استعمال کیا جاتا ہے۔

جنگ کے اثرات

جب سے جنگ کا آغاز ہوا تب سے ہی اسرائیلی حکام غزہ کی پٹی کے لیے مختص ٹیکس محصولات فلسطینی مانیٹری اتھارٹی کو منتقل نہیں کر رہے۔ اسرائیل سمجھتا ہے کہ اس رقم سے حماس کی مالی امداد کی جاتی ہے۔نومبر 2023 میں، فلسطینی وزارت خزانہ نے اعلان کیا کہ ’اسرائیل نے اس آڑ میں 600 ملین شیکل ماہانہ ٹیکس کی آمدنی کی کٹوتی کی ہے۔ اس رقم کے بڑے حصے میں تنخواہیں، ملازمین کی تقسیم اور غزہ کی پٹی کے دیگر سرکاری اخراجات شامل ہیں۔‘سال کے آغاز میں اسرائیلی وزیر خزانہ نے دھمکی دی تھی کہ اگر ایک بھی شیکل غزہ میں دیا گیا تو وہ فلسطینی اتھارٹی کو تمام ٹیکس محصولات سے محروم کر دیں گے۔ انھوں نے جنوری میں سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں لکھا تھا کہ ’ایک شیکل بھی غزہ میں داخل ہونے نہیں دیا جائے گا۔‘غزہ چھوڑ کر رفح کراسنگ کے ذریعے جانے والے افراد کی جانب سے ایگزٹ فیس (باہر نکلنے کے انتظامات میں ادا کی جانے والی رقم) کی ادائیگی میں بھی کمی آئی ہے۔ یہ رقم اکثر کئی ہزار ڈالر فی شخص بنتے ہیں اور اس صورت حال نے غزہ کی پٹی میں ڈالرز کی سپلائی کو نمایاں طور پر ختم کر دیا ہے۔خراب یا مسخ نوٹوں نے بھی نقدی کی قلت کو بڑھا دیا ہے۔ جنگ سے قبل فلسطین اور اسرائیل کے درمیان ایک معاہدے کے تحت خراب نوٹوں کو نئے نوٹوں میں تبدیل کیا جاتا تھا۔تاہم جنگ ہونے کے بعد سے یہ عمل رک گیا ہے۔ ان بینک نوٹوں کو ناکارہ قرار دے دیا گیا ہے اور تاجر انھیں قبول کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔

بلیک مارکیٹ

محمد الکلوب نقدی کے حصول کے لیے بلیک مارکیٹ کا سہارا لینے پر مجبور ہوئے۔اس طریقے میں وہ 10 سے 20 فیصد کمیشن کے عوض ایک سٹور سے نقد رقم نکالتے ہیں تاہم ملازم محمود بکر اللوح کا کہنا ہے کہ نقد رقم کے حصول کا یہ راستہ بھی پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے۔بہت سی دکانیں جو پہلے کمیشن کے بدلے میں نقد رقم نکالنے کی خدمات دیا کرتی تھیں، اب ان کی دکان کے سامنے جلی حروف میں لکھا ہوا ہے کہ ’نقد رقم ختم ۔‘ محمود کہتے ہیں کہ ’جن لوگوں کے پاس نقد رقم موجود ہے وہ اپنے دوستوں کی مدد کر رہے ہیں۔‘ کمیشن لے کر نقد رقم فراہم کرنے والے احمد (فرضی نام ) سے بی بی سی نے بات کی۔انھوں نے اپنے اکاؤنٹ سے 40,000 شیکل نکال کر دینے کے لیے اپنے ’نقصان‘ کی تلافی کے طور پر سروس مہیا کی۔انھوں نے کہا کہ اس کے لیے 10 فیصد کمیشن ادا کرنا ہوگا۔ تاہم ان دنوں احمد اب صارفین کو نقد رقم فراہم کرنے کے بدلے میں 13 فیصد کمیشن کاٹتا ہے۔احمد کی کمائی بمشکل ان کی روزمرہ کی ضروریات کا ایک چھوٹا حصہ پورا کرتی ہے۔ لیکن بلیک مارکیٹ کا سہارا لینے والے غزہ کے لوگ شکایت کرتے ہیں کہ ’بھتہ خوری‘ ان کی روزمرہ کی مشکلات کو مزید بڑھا رہی ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}