شہید ذوالفقار علی بھٹو کی 44ویں برسی پر اُن کی صاحبزادی بینظیر بھٹو کی کتاب ’’دختر مشرق‘‘ کا ایک اقتباس آپ کو بتاتے ہیں کہ جس میں وہ لکھتی ہیں ’میں 2 اپریل کی صبح فوج کی طرف سے فراہم کردہ چارپائی پر لیٹی ہوئی تھی جب میری والدہ اچانک کمرے میں داخل ہوئیں اور کہا کہ پنکی باہر فوجی افسران کا کہنا ہے کہ ہم دونوں بھٹو صاحب سے ملاقات کرلیں حالانکہ آج کا دن ملاقات کا نہیں ہے۔ دونوں کو اکٹھے ملاقات کیلئے بلانے کا مطلب کیا یہ آخری ملاقات ہے؟‘
جنرل ضیاء الحق نے میرے والد کے قتل کا فیصلہ کرلیا تھا۔ میں نے سوچا کہ ہمیں عالمی رائے عامہ اور عوام تک یہ خبر فوراً پہنچانا چاہئے، میں نے والدہ سے کہا کہ انہیں بتادیں کہ میری طبیعت ناساز ہے لیکن اگر یہ آخری ملاقات ہے تو ہم جانے کیلئے تیار ہیں۔جب میری والدہ ان سے بات کرنے گئیں تو میں نے پہلے سے تحریر شدہ خفیہ پیغام اپنے ایک دوست کو بھجوایا اور بتایا کہ وہ ہمیں آخری ملاقات کیلئے لے جارہے ہیں، تم فوراً غیر ملکی سفیروں تک یہ پیغام پہنچاؤ اور عوام کو متحرک کرکے سڑکوں پر لاؤ۔
میری طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے ملاقات اگلے روز کیلئے ملتوی ہوگئی اور اس طرح ہمیں اپنے والد کی جان بچانے کیلئے مزید 24 گھنٹے مل گئے لیکن بی بی سی اردو سروس نے اپنی خبروں میں بتایا کہ 3اپریل کو بھٹو صاحب کیساتھ ہماری آخری ملاقات ہوگی لیکن عوامی احتجاجی کال نہیں دی گئی جس سے ہماری آخری امید ختم ہوگئی۔
اگلے روز ہم جیل پہنچے۔ میرے والد نے کال کوٹھڑی سے پوچھا کہ تم دونوں آج اکٹھی کیوں آئی ہو؟ میری والدہ نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ جیل سپرنٹنڈنٹ سے پوچھتے ہیں کیا یہ آخری ملاقات ہے؟ ہاں۔ ’’کیا تاریخ کا تعین ہوگیا ہے؟‘‘
’’کل صبح‘‘ جیل سپرنٹنڈنٹ نے جواب دیا۔
’’کتنے بجے؟‘‘
’’جیل قواعد کے مطابق صبح 5 بجے۔‘‘
’’یہ اطلاع تمہیں کب ملی؟‘‘
’’کل رات‘‘ اس نے رکتے رکتے جواب دیا۔
’’اپنے اہل و عیال سے ملاقات کا کتنا وقت دیا گیا ہے؟‘‘
’’نصف گھنٹہ‘‘’’جیل قواعد کے مطابق ہمیں ایک گھنٹہ ملاقات کا حق ہے۔‘‘ وہ کہتے ہیں۔
’’صرف نصف گھنٹہ‘‘ سپرنٹنڈنٹ دہراتا ہے۔’’ یہ میرے احکامات ہیں۔
بینظیر لکھتی ہیں کہ’’صرف نصف گھنٹہ‘‘ اس شخص سے ملاقات کیلئے۔ صرف نصف گھنٹہ جو مجھے زندگی کی ہر شے سے زیادہ عزیز ہے۔ سینے میں گھٹن محسوس ہورہی تھی۔ مجھے رونا نہیں چاہئے کیونکہ اس سے میرے والد کی اذیت بڑھ جائے گی۔وہ چند سگار جو ان کے وکلاء چھوڑ گئے تھے میرے حوالے کرتے ہیں۔ ’’میں آج شب کیلئے صرف ایک رکھ لیتا ہوں۔‘‘
شالیمار پرفیوم کی شیشی بھی رکھ لیتے ہیں۔ وہ اپنی انگوٹھی مجھے دینا چاہتے ہیں لیکن میری والدہ انہیں کہتی ہیں ’’اسے پہنے رکھیں۔‘‘
وہ کہتے ہیں ’’اچھا ابھی میں رکھ لیتا ہوں لیکن بعد میں انگوٹھی بینظیر کو دے دینا۔ ’’تم دونوں نے بہت تکالیف اٹھائی ہیں۔ وہ آج مجھے قتل کرنے جارہے ہیں، میں تمہیں تمہاری مرضی پر چھوڑتا ہوں، ‘‘سپرنٹنڈنٹ پکارتا ہے۔ ’’وقت ختم ہوچکا۔‘‘ میں سلاخوں کو پکڑتے ہوئے اسے کہتی ہوں۔’’برائے مہربانی کوٹھڑی کا دروازہ کھول دو۔میں اپنے پاپا کو چھوکر الوداع کہنا چاہتی ہوں۔‘‘سپرنٹنڈنٹ انکار کردیتا ہے۔
پھر میں سلاخوں کے درمیان سے اپنے والد کے جسم کو چھونے کی کوشش کرتی ہوں۔ وہ کافی نحیف و ناتواں ہوچکے ہیں لیکن سیدھا اٹھ بیٹھتے ہیں اور میرے ہاتھ کو پکڑ کر کہتے ہیں کہ آج شب میں دنیا سے آزاد ہوجائوں گا‘‘ میں والد کی طرف دیکھ کر پکار اٹھتی ہوں،’’ الوداع پاپا۔‘‘ اس دوران میری امی بھی انہیں سلاخوں سے پکڑلیتی ہیں اور اس طرح یہ ہماری آخری ملاقات ختم ہوجاتی ہے ۔
’’ہم پھر ملیں گے، اس وقت تک کیلئے خدا حافظ‘‘ مجھے ان کی آواز سنائی دیتی ہے۔ میں جاتے وقت مڑکر دیکھنا نہیں چاہتی کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ میں ضبط نہیں کرسکوں گی ۔ 4اپریل 1979ء کو راولپنڈی سینٹرل جیل میں انہوں نے میرے والد کو قتل کردیا۔
خوفزدہ جیلر نے ہمیں بتایا کہ وہ انہیں دفنانے کیلئے لے جاچکے ہیں لیکن ان کا کچھ بچا کھچا سامان لے آیا ہوں۔ میں نے جیلر سے پوچھا کہ ان کی انگوٹھی کہاں ہے؟ تو اس نے انگوٹھی میرے حوالے کی۔
Comments are closed.