بیروت دھماکے کی تحقیقات پر پرتشدد مظاہرے: فائرنگ سے کم از کم چھ افراد ہلاک، مظاہروں کی وجہ بننے والے جج کون ہیں؟
لبنان کے دارالحکومت بیروت کے جسٹس پیلس کے قریب پرتشدد مظاہرے اور جھڑپوں میں فائرنگ سے کم از کم چھ افراد ہلاک اور 32 زخمی ہو گئے ہیں۔
ان جھڑپوں کا آغاز گذشتہ برس بیروت کی بندرگاہ پر ہونے والے ہولناک دھماکے کی تحقیقات کرنے والے جج طارق بطار کے خلاف شیعہ مسلم گروہوں حزب اللہ اور امل کے احتجاج سے ہوا۔ ان کا کہنا ہے کہ لبنانی فوج میں مسیحی سنائپرز کے ایک دھڑے نے ان پر فائرنگ کی اور ہجوم کو مشکل میں ڈال دیا۔ تاہم لبنانی فورسز نے اس دعوے کو مسترد کیا ہے۔
گذشتہ برس ہونے والے بیروت دھماکے کی تحقیقات کو لے کر ملک میں شدید کشیدگی پائی جاتی ہے۔
حزب اللہ اور اس کے اتحادیوں نے جج پر جانب دار ہونے کا الزام عائد کیا ہے جبکہ متاثرہ افراد کے خاندانوں کا جج کے کام پر اعتماد ہے۔ گذشتہ برس اگست سے اب تک بیروت دھماکے کے لیے کسی کو اب تک ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا ہے۔
جمعرات کو ہونے والے پرتشدد مظاہروں اور فائرنگ میں ہلاکتوں پر لبنانی وزیراعظم نجیب مکاتی نے جمعے کو ایک دن کے سوگ کا اعلان کیا ہے۔
بیروت میں پرتشدد مظاہروں کی وجہ بننے والے جج طارق بطار کون ہیں؟
گذشتہ برس بیروت بندرگاہ پر ہونے والے ہولناک دھماکے جس میں دو سو سے زائد افراد ہلاک اور چھ ہزار سے زائد زخمی ہوئے تھے کی تحقیقات لبنانی جج طارق بطار کر رہے ہیں۔
اس واقعے کی مہینوں سے جاری تحقیقات کے دوران جج طارق بطار لبنان کی مختلف سیاسی قوتوں کے لیے اختلاف کی ایک وجہ بن گئے ہیں۔
طارق بطار ایک پراسرار شخصیت
طارق بطار کو فروری 2021 میں بیروت بندرگاہ دھماکے کی تحقیقات کے لیے جج کے طور پر مقرر کیا گیا تھا۔
بطار جو سنہ 2005 میں سابق وزیر اعظم رفیق حریری کے قتل کے بعد سے ملک کے سب سے بڑے کیس کی تحقیقات کر رہے ہیں لبنانیوں کے لیے کسی حد تک ایک پراسرار شخصیت ہیں۔
کیونکہ وہ میڈیا سے زیادہ بات نہیں کرتے اور عوامی تقریبات میں بھی دکھائی نہیں دیتے۔ لبنانی میڈیا کے مطابق وہ سنہ 1974 میں اکر گورنری کے قصبے ایڈمون میں پیدا ہوئے اور 1999 میں جوڈیشل سٹڈیز انسٹی ٹیوٹ میں شامل ہوئے۔
مقدمے اور فیصلے
طارق بطار نے سنہ 2004 سے 2010 کے درمیان لبنانی شہر طرابلس نیں بطور واحد فوجداری جج خدمات انجام دی ہیں۔ اس کے بعد انھیں اپیلیٹ کورٹ کا جج مقرر کر دیا گیا جہاں وہ سنہ 2017 تک فنانشل جرائم کے کیسز کے مقدمات دیکھتے رہے۔اس دوران انھوں نے ملک کے چند بااثر سیاسی اور میڈیا کی شخصیت کے مقدمات کا فیصلہ سنایا۔
بیروت دھماکے کے فرانزک تفتیش کار کے علاوہ وہ سنہ 2017 سے بیروت کریمنل کورٹ کے صدر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
بطور صدر بیروت کریمنل کورٹ انھوں نے عوامی مفاد عامہ کے مقدمات کے ساتھ ساتھ قتل، منشیات کی سمگلنگ اور انسانی سمگلنگ جیسے سنگین جرائم کے مقدمات پر بھی فیصلہ دیا۔ ان کے بیشتر مقدمات پر فیصلوں کو سخت قرار دیا جاتا ہے۔
جج طارق بطار
رواں برس مئی میں بھی جج طارق بطار کے نام کا لبنان میں کافی چرچا ہوا تھا جب انھوں نے ایک ایسی بچی جس کی ہاتھ کی انگلیاں ایک طبی غلطی کے باعث ضائع ہو گئی تھیں کے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے متاثرہ لڑکی کو چھ لاکھ پچاس ہزار امریکی ڈالرز ہرجانہ ادا کرنے اور تمام عمر اس کے لیے ایک وظیفہ مقرر کرنے کا فیصلہ سنایا تھا۔
سیاسی جانب داری کے الزامات
طارق بطار نے بیروت دھماکے کی تحقیقات کے لیے تعیناتی پر پہلے پانچ ماہ کے دوران انھوں نے دھماکے کی وجوہات کی تحقیقات کیں اور گواہوں کے بیانات قلمبند کیے۔
اس دوران انھوں نے متعدد ایسے افراد کو بھی رہا کرنے کا حکم دیا جنھیں بیروت دھماکے میں ملوث ہونے کے شبہ میں گرفتار کیا گیا تھا۔
تاہم جولائی سے وہ سیاسی طور پر ایک محاذ آرائی کا سامنا کر رہے ہیں جب انھوں نے ایک سابق وزیر نوحد ال مچنوک اور رکن اسمبلی غازی زویتر کو حاصل پارلیمانی استثنیٰ ختم کرنے کی درخواست دی تھی۔
انھوں نے بیروت دھماکے کی تحقیقات میں موجودہ اور سابقہ سیکورٹی سربراہوں سمیت متعدد حکام کو تفتیش کے لیے طلب کیا تھا۔ پھر اگست میں انھوں نے اس وقت کے نگران وزیراعظم حسن دیاب کو عدالت میں طلب کر لیا تھا۔ ان کی طلبی ان کی تفتیش کے لیے مقرر 20 ستمبر کی تاریخ سے پہلی کی گئی تھی۔
مگر انھیں بھی ان کے پیشرو کی طرح وزرا اور سیاستدانوں کو کچھ الزامات کے تحت تحقیقات کے لیے حاصل استثنیٰ کے باعث قانونی اور آئینی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔
البتہ جب طارق بطار عدالت طلب کیے گئے لوگوں سے تفتیش کرنے میں ناکام رہے تو ان کے خلاف مختلف قسم کی مہم شروع کر دی گئی جن میں ان پر سیاسی جانب داری اور کیس کو سیاسی بنانے کے الزامات عائد کیے گئے اور ان کی برطرفی کا مطالبہ کیا گیا۔
متاثرہ خاندانوں کی حمایت
طارق بطار پر آنے والے سیاسی دباؤ کے پیش نظر بیروت دھماکے میں متاثرہ افراد کے خاندانوں نے ان کے حق میں مہم بازی اور مظاہرے شروع کر دیے جن میں ان سے تحقیقات جاری رکھنے کا مطالبہ کیا گیا۔
ان مظاہروں میں مظاہرین نے نوحد ال مچنوک اور غازی زیتر کے گھر کے باہر شمعیں جلائی، دھرنا دیا اور ان کے خلاف نعرے بازی کی۔
ان مظاہروں میں شریک افراد کو خدشہ ہے کہ ملک کے دیگر اہم کیسز کی طرح بیروت دھماکے کی تحقیقات بھی مکمل نہیں ہو پائیں گی اور اس مقدمے کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔
گذشتہ برس ستمبر کے آخر میں طارق بطار جب تفتیش کے آغاز کرنے والے تھے تو اس ضمن میں انھوں نے حزب اللہ اور ان کی اتحادی سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے وزرا، ارکان اسمبلی سمیت متعدد حکام کو طلب کیا تھا۔
جس کے بعد اس کیس کی تحقیقات کو معطل کر دیا گیا تھا۔ رواں برس جب پہلی مرتبہ جج طارق بطار کے پاس اس مقدمے کی تفصیلی فائل پہنچی تو وزیر نوحد المچنوک نے استثنیٰ کی درخواست دے دی۔
اپیل کورٹ نے اس درخواست کو چار اکتوبر کو مسترد کر دیا اور اس کیس کی تحقیقات جاری رکھنے کا فیصلہ دیا۔
یہ بھی پڑھیے
تحقیقات کی معطلی
گذشتہ چند دنوں کے دوران جج طارق بطار پر اس کیس کے حوالے سے ایک دباؤ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس سے ملک میں سیاسی تفریق پیدا کی جا رہی ہے۔ حزب اللہ نے ان پر سیاسی طور پر جانب دار ہونے کا الزام عائد کیا ہے۔
اس مقدمے کی تحقیقات کو ایک مرتبہ پھر سابق وزرا علی حسن اور غازی ذویتر کی جانب سے دائر درخواست کے باعث 12 اکتوبر کو معطل کر دیا گیا۔ اس درخواست میں طارق بطار کو عہدے سے ہٹائے جانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
جبکہ ایسی اطلاعات بھی آ رہی ہیں کہ حزب اللہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر طارق بطار کو اس مقدمے کی تحقیقات سے نہ ہٹایا گیا تو وہ حکومت سے علیحدہ ہو جائیں گے۔
Comments are closed.