بیت المقدس میں بکرے کی قربانی کے منصوبے کی وجہ سے کشیدگی میں اضافہ کیوں ہوا؟
- مصنف, مارک شیا
- عہدہ, بی بی سی ورلڈ سروس
بیت المقدس کی مسجد اقصیٰ میں ہونے والی جھڑپوں میں اسرائیلی پولیس نے اب تک تقریباً 350 فلسطینیوں کو گرفتار کر لیا ہے۔ یہ فلسطینی مسجد کی حفاظت کے لیے احاطے میں موجود تھے کیونکہ ایسی اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ یہودی انتہا پسند اس کمپاؤنڈ میں بکرا ذبح کرنے کی کوشش کریں گے جسے یہودی خود ’ٹیمپل ماؤنٹ‘ کہتے ہیں۔
عسکریت پسند گروہ حماس نے بھی اس سے قبل فلسطینیوں سے مسجد کی حفاظت کرنے کی اپیل کی تھی۔
یہودی انتہا پسند مسجد الاقصیٰ میں بکرے کی قربانی کیوں کرنا چاہتے تھے، اسی مقام اور اسی موقع پر کیوں کرنا چاہتے تھے؟
قربانی بکرے کی ہی کیوں؟
قربانی کے اس تہوار کا ذکر یہودیوں کی مقدس کتاب تورات میں موجود ہے۔
تورات کے مطابق یہودیوں کو مصر میں غلام بنا کر رکھا جا رہا تھا اور ان کو اس قید سے رہائی دینے کے لیے خدا کی ذات سرزمین مصر سے گزری اور ہر مصری خاندان میں پیدا ہونے والے پہلے بیٹے کو مار دینے کا حکم دے دیا۔
اس موقع پر بنی اسرائیل (یعنی اہلِ یہود) کو ہدایت کی گئی کہ وہ ایک بکرا ذبح کر کے اس کے خون سے اپنے دروازے پر ایک علامت بنا دیں تاکہ جب موت کا فرشتہ وہاں سے گزرے تو ان کے بیٹوں کی جان نہ لے۔
یہ ’مصر کے سات طاعونوں‘ میں سے آخری طاعون کا دور تھا اور اس مصری فرعون کے آخری دن جس نے یہودیوں کو مصر سے نکل جانے کی اجازت دے دی تھی۔ یہودی اسے بنی اسرائیل کی سب سے بڑی ہجرت سے تعبیر کرتے ہیں۔
یہودیوں کے اس تاریخی دن کی یاد میں ہر سال بکرے کی قربانی کی جاتی ہے، جس دن بنی اسرائیل کے لوگ اپنی ’ارض موعود‘ (موجودہ اسرائیل) کی جانب روانہ ہونے میں کامیاب ہوئے تھے۔
تاہم، اب ایسے یہودی گروہ بہت کم ہی رہ گئے ہیں جو ہر سال قربانی کی رسم ادا کرتے ہیں۔
یہ قربانی اس جگہ ہی کیوں کرنا چاہتے تھے؟
یہودیوں کے لیے ’ٹیمپل ماؤنٹ‘ مقدس ترین مقام ہے۔ تورات کے مطابق یہ وہ مقام ہے جہاں دو مقدس ترین مقبرے ہیں اور کچھ یہودی گروہ چاہتے ہیں کہ اُس جگہ ایک تیسرا مقبرہ بھی بنایا جائے جہاں اس وقت مسجد اقصیٰ کا سنہری گنبد موجود ہے۔
کچھ یہودیوں کا اصرار ہے کہ ’پاس اوور‘ کے تہوار پر ہونے والی قربانی صرف اس جگہ ہی کی جا سکتی ہے۔
تاہم مسجد اقصیٰ کے کمپاؤنڈ کو اسلام میں تیسرا مقدس ترین مقام سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہاں سے پیغمبرِ اسلام کا معراج کا سفر شروع ہوا تھا۔ یہاں یہودیوں کو داخل ہونے کی اجازت تو ہے لیکن غیر مسلم افراد اس جگہ پر عبادت نہیں کر سکتے۔
یروشلم کے اس حصے پر اسرائیل نے سنہ 1967 میں چھ روزہ جنگ کے بعد قبضہ کر لیا تھا جس کے بعد اسرائیل اور اردن نے، جنھیں اس مسجد کا نگران سمجھا جاتا ہے، اتفاق کیا تھا کہ یہودیوں کو اس مسجد میں جانے کی اجازت تو دی جائے گی لیکن انھیں وہاں عبادت کی اجازت نہیں ہو گی۔
اکثر فلسطینی یہاں آنے والے افراد اور سکیورٹی فورسز کی موجودگی پر ناراضگی کا اظہار کرتے رہے ہیں اور متعدد گروہوں کی جانب سے مسجد کی حفاظت کا عہد کیا گیا ہے۔
یہ سب اس وقت کیوں ہو رہا ہے؟
ہر سال یہودی انتہا پسند گروہ اس حوالے سے لابی کرتے ہیں کہ انھیں ٹیمپل ماؤنٹ میں پاس اوورکے تہوار سے پہلے بکرا ذبح کرنے کی اجازت دی جائے۔
اسرائیلی حکام کی جانب سے ماضی میں ایسے لوگوں کو پہلے سے گرفتار کیا جاتا رہا ہے تاکہ ایسی کسی بھی کوشش کو روکا جا سکے۔
یہ بھی پڑھیے
اس سال پاس اوور کا آغاز پانچ اپریل کی شام کو ہوا اور تہوار کا اختتام جمعرات 13 اپریل کو ہو گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سال پاس اوور کا تہوار اور ماہِ رمضان ایک ساتھ چل رہے ہیں جس کی وجہ سے کشیدگی میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
ان جھڑپوں کے پیچھے کون ہے؟
ایک یہودی انتہا پسند گروہ کو خاص طور پر مسجد میں بکرا ذبح کرنے کی کوشش سے منسلک کیا گیا ہے، اس گروہ کا نام ’ریٹرن ٹو دی ماؤنٹ‘ ہے۔
اس کے ایک رہنما رفائل مورس کا بی بی سی کی جانب سے گذشتہ برس انٹرویو کیا گیا تھا اور ان سے معلوم کیا گیا تھا کہ وہ مسلمانوں کے لباس میں مسجد میں عبادت کرنے کی کوشش کیوں کرتے رہے ہیں۔
وہ خود کو مذہبی اور صیہونی یہودی کہلاتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ ٹیمپل ماؤنٹ یہودیوں کا ہے کیونکہ ہم سے خدا نے انجیل میں یہی وعدہ کیا ہے۔ ہمارا مشن ہے کہ ہم ٹیمپل ماؤنٹ کو دوبارہ فتح کریں۔‘
مورس کو اسرائیلی پولیس نے پیر کو اس ہنگامے کی منصوبہ بندی کرنے پر گرفتار کر لیا تھا۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق ریٹرن ٹو دی ماؤنٹ نے ایسے افراد کے لیے انعام کا اعلان بھی کیا تھا جو مسجد میں بکرا ذبح کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے یا وہ جو ایسا کرنے کی کوشش کریں۔
Comments are closed.