کرنل رفیع الدین اپنی مشہور زمانہ کتاب ’بھٹو کے آخری 323 دن‘ میں بتاتے ہیں کہ 3 اپریل کی صبح جب بھٹو بیدار ہوئے تو یکسر لاعلم تھے کہ یہ ان کی زندگی کا آخری دن ہے۔ جیل حکام کو ان کی موت کا پروانہ وصول ہوچکا تھا۔ سورج غروب ہوتے ہی جیل کی ٹیلی فون لائنیں کاٹنے کے احکامات تھے۔ صرف ایک وائرلیس سیٹ کام کر رہا تھا، جس پر پھانسی کے بعد سیکیورٹی سپرنٹنڈنٹ کو بلیک ہارس کا کوڈ ورڈ کہنا تھا۔
3 اپریل کی شام کے 6 بج چکے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو اپنی 12 فٹ لمبی، ساڑھے 7 فٹ چوڑی کوٹھری میں زمین پر پڑے گدے پر دراز ہیں۔ سپرنٹنڈنٹ جیل یار محمد، سیکیورٹی بٹالین کمانڈر لیفٹننٹ کرنل رفیع الدین، مجسٹریٹ درجہ اوّل مسٹر بشیر احمد اور جیل ڈاکٹر صغیر حسین نے سیل میں آکر انہیں بلیک وارنٹ پڑھ کر سنایا۔ بھٹو نے لیٹے لیٹے یہ حکم سنا، ان کے چہرے پر کوئی اندیشہ نہیں تھا۔
انہوں نے جیل سپرنٹنڈنٹ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا کہ ’نہ تو طریقہ کار کے مطابق ان کے دیگر رشتہ داروں کو ان سے ملوایا گیا، نہ ہی پھانسی کا تحریری حکم نامہ دکھایا گیا، اور نہ ہی انہیں قانون کے مطابق 24 گھنٹے پہلے مجاز اور مستند حاکم کے ذریعے اطلاع دی گئی‘۔
انہوں نے دانتوں کی تکلیف کے باعث اپنے معالج ڈاکٹر ظفر نیازی سے ملنے کی بھی خواہش ظاہر کی۔ شاید بھٹو صاحب اب بھی اس کارروائی کو ڈھونگ سمجھ رہے تھے، مگر کرنل رفیع سے اکیلے میں ہونے والی گفتگو کے بعد انہیں ادراک ہوا کہ صورتحال بدل چکی ہے۔
انہوں نے کرنل رفیع کو مخاطب کیا ’رفیع یہ ڈراما کھیلا جارہا ہے؟‘
جواب میں افسر نے کہا کہ ’آخری حکم مل چکا ہے، آپ کو پھانسی دی جارہی ہے‘۔
انہوں نے پوچھا ’کس وقت، کب؟‘
کرنل رفیع نے 7 انگلیاں اٹھائیں ’جناب، 7 گھنٹے بعد‘۔
وقت قطرہ قطرہ کرکے گزر رہا تھا۔ بھٹو نے اپنے مشقتی عبدالرحمٰن سے کہا کہ ان کی داڑھی بڑھ چکی ہے، شیو کا بندوبست کیا جائے۔ بھٹو نے 7 بج کر 5 منٹ پر شیو کی۔ اس دوران وہ اپنے ساتھ برتی جانے والی ناانصافیوں اور ناروا سلوک کا شکوہ کرتے رہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہیں پھانسی پر چڑھانے کے بعد ان کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے والوں کو چھوڑ دیا جائے اور یہ کہ ان کی گھڑی وارڈ کے باہر کھڑے سنتری کو دے دی جائے۔ 8 بج کر 15 منٹ پر انہوں نے وصیت لکھنی شروع کی، مگر ان کا ذہن منتشر تھا۔ گھڑی کی سوئیاں آگے بڑھ رہی تھیں، موت کا لمحہ قریب آتا جارہا تھا۔ 11 بج کر 25 منٹ پر وہ سونے کے لیے لیٹ گئے۔
جیل حکام آخری لمحات میں بھٹو پر طاری ہونے والی پُراسرار بے ہوشی کا تذکرہ کرتے ہیں۔ اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ جب 11 بج کر 50 منٹ پر انہیں جگانے پہنچا تو بھٹو صاحب نے اس کی آوازوں کا کوئی جواب نہیں دیا۔ جیل ڈاکٹر نے 3 بار ان کا معائنہ کیا۔ وہ بظاہر ٹھیک تھے مگر بالکل خاموش اور ساکت لیٹے تھے۔ ایک بج کر 10 منٹ پر آخر بھٹو خود گدے سے اٹھے۔ وقت ہوچکا تھا، گرم پانی موجود تھا، مگر انہوں نے نہانے سے انکار کردیا۔
وہ رات تاریک تھی، جیل میں بارش ہوئی تھی اور آسمان پر گہرے بادل تھے۔ انتظامیہ نے اسٹریچر اور پیٹرومیکس کا بندوست کیا ہوا تھا۔ جیل حکام بھٹو کے سیل تک گئے۔ مجسٹریٹ نے ان کی وصیت کے بارے میں پوچھا مگر خیالات منتشر ہونے کے باعث وہ کچھ لکھ نہیں سکے تھے۔ مجسٹریٹ اور ان کے درمیان گفتگو جاری تھی کہ جیل سپرنٹنڈنٹ کے حکم پر 4 آدمی اندر داخل ہوئے۔
وہ ایک دل سوز منظر تھا۔ بھٹو پر نقاہت طاری تھی۔ جو شخص کل تک عالمِ اسلام کا اہم ترین رہنما تصور کیا جاتا تھا اسے اسٹریچر پر پھانسی گھاٹ کی سمت لے جایا جارہا تھا۔ مشقتی عبدالرحمٰن آنکھوں میں آنسو اور ہاتھ میں چائے کا کپ لیے سامنے کھڑا تھا۔ پھانسی گھاٹ 250 گز دُور تھا۔ اس دوران مکمل خاموشی رہی۔ بس قدموں کی دھمک تھی۔ ایک موقع پر بھٹو نے نصرت بھٹو کے تنہا رہ جانے پر غم کا اظہار کیا۔ پھر خاموشی چھا گئی۔ آخر وہ لمحہ آگیا۔ ذوالفقار علی بھٹو بے تاثر چہرہ لیے دار پر کھڑے تھے۔
وہ اس موت سے چند لمحے دُور تھے جو بھٹو کو دائمی زندگی بخشنے والی تھی۔ جان تو جانے والی تھی مگر شان سلامت رہنی تھی۔ ہتھکڑی کھول کر بھٹو کے ہاتھ پیچھے باندھ دئیے گئے۔ تارا مسیح نے چہرے پر سیاہ ماسک چڑھا دیا۔ بھٹو نے کہا ’Finish it‘۔ 2 بج کر 4 منٹ پر جلاد نے لیور دبایا۔ بھٹو ایک جھٹکے سے پھانسی کے کنویں میں گرے۔
ان کا جسم کچھ دیر دھیرے دھیرے ہلتا رہا اور پھر ساکت ہوگیا۔ پھانسی گھاٹ میں بہت دیر تک خاموشی رہی، گہری اور اداس خاموشی۔ بھٹو کی لاش اتارے جانے کے بعد کرنل رفیع نے ایس ایم ایل اے سے وائر لیس سیٹ پر رابطہ کیا اور ’بلیک ہارس‘ کہا۔ چند تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس وقت جنرل ضیا الحق بھی یہ پیغام سن رہے تھے۔
Comments are closed.