بھوک، قتل اور ریپ: سوڈان میں جاری ’پوشیدہ جنگ‘ میں بی بی سی کے صحافیوں نے کیا دیکھا،تصویر کا ذریعہDany Abi Khalil / BBC

  • مصنف, فراس کیلانی اور مرسی جما
  • عہدہ, بی بی سی نیوز
  • 57 منٹ قبل

سوڈان کی خانہ جنگی میں پھنسے لوگوں نے بی بی سی کو ریپ، نسلی تشدد اور کھلے عام قتل کیے جانے کے واقعات بتائے ہیں۔ ہمارے صحافی دارالحکومت خرطوم کے قریب محاذِ جنگ تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔اقوام متحدہ کے ایک اعلیٰ اہلکار نے اس تنازعے کو ’چُھپی ہوئی جنگ‘ قرار دیا ہے جس کے نتیجے میں ملک کو حالیہ تاریخ کے بدترین ڈراؤنے خواب‘ جیسے حالات سے گزر رہا ہے جبکہ دیگر حکام نے خبردار کیا ہے کہ یہ دنیا میں بھوک کے سب سے بڑے بحران کو جنم دے سکتا ہے۔یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ملک کے مغرب میں واقع دارفور کے علاقے میں، 20 سال پہلے کے ان حالات کا اعادہ ہو سکتا ہے جسے امریکہ نے نسل کشی قرار دیا تھا۔انتباہ: یہ مضمون جسمانی اور جنسی تشدد کی تفصیلات پر مشتمل ہے۔———————————————————————————————-اچانک اومدرمان میں ایک زبردست دھماکے سے سڑک ہل جاتی ہے۔ لوگ چیختے ہیں اور ادھر اُدھر یہ چیختے ہوئے بھاگتے ہیں: ’واپس جاؤ، واپس جاؤ، ایک اور دھماکہ ہو سکتا ہے‘۔ گاڑھا دھواں ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔کچھ لمحے پہلے اس ٹوٹی پھوٹی سڑک پر راہ گیر ان دکانوں سے چاول، روٹی اور سبزیاں خرید رہے تھے، جو حال ہی میں دوبارہ کھلنا شروع ہوئی تھی۔ فروری کے وسط میں، سوڈانی فوج نے اس شہر پر دوبارہ قبضہ کیا جو دریائے نیل کے کنارے ان تین میں سے ایک علاقہ ہے جو مل کر سوڈان کا وسیع دارالحکومت خرطوم بناتے ہیں۔ عام شہریوں نے اب واپس آنا شروع کر دیا ہے، لیکن جیسا مارٹر گولہ اس مرکزی سڑک کے بیچوں بیچ گرا، ویسے اب بھی روزانہ گرتے ہیں۔عالمی میڈیا کے لیے، گذشتہ اپریل میں شروع ہونے والی خانہ جنگی کی کوریج کرنے کی اجازت حاصل کرنا مشکل تھا لیکن بی بی سی محاذِ جنگ کی صفِ اوّل تک پہنچنے میں کامیاب ہوا ہے۔ ایک زمانے میں چہل پہل کے لیے مشہور اومدرمان ایک تنگ بےآباد بنجر زمین لگ رہا تھا۔ ،تصویر کا ذریعہDany Abi Khalil / BBC

،تصویر کا کیپشنمختار البدری محی الدین کے بہت سے دوست اس لڑائی کا نشانہ بن چکے ہیں
ملک کی فوج اور اس کے سابق اتحادی، نیم فوجی دستے ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) کے مابین طاقت کی کشمکش میں ملک بھر میں کم از کم 14 ہزار افراد مارے جا چکے ہیں اور ممکنہ طور پر یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔تقریباً ایک سال سے فوج اور آر ایس ایف خرطوم اور قریبی شہروں میں برسرِپیکار ہیں۔آر ایس ایف نے دارالحکومت کے جنوب میں واقع علاقوں کے ساتھ ساتھ دارفور کے بڑے حصے کا کنٹرول حاصل کر لیا ہے، جو کہ مختلف افریقی اور عرب کمیونٹیز کے درمیان تشدد کے باعث برسوں سے بدامنی کا شکار ہے۔دارفور سے بھاگ کر پڑوسی ملک چاڈ جانے والی خواتین نے بی بی سی کو اس ملیشیا کے ارکان کے ہاتھوں ریپ کے واقعات کے بارے میں بتایا ہے۔ کیمپوں میں موجود مردوں نے ہمیں بتایا کہ وہ کیسے اغوا یا سڑک پر کھلے عام قتل کیے جانے کے واقعات سے بچے۔اومدرمان میں محاذِ جنگ پر فوج کے ساتھ سفر کرنے والی بی بی سی کی ٹیم کی نقل و حرکت کو احتیاط سے کنٹرول کیا گیا – ہمارے ساتھ ایک فرد تعینات تھا اور ہمیں فوجی سرگرمیوں کی عکس بندی کی اجازت نہیں تھی۔ فوج کو خدشہ تھا کہ اس کی نقل و حرکت کے بارے میں معلومات افشا ہو جائیں گی۔جب ہمارا کیمرہ مین مارٹر دھماکے کے بعد عکس بندی شروع کرتا ہے، تو سادہ لباس پہنے مسلح افراد نے اسے گھیر لیا جن میں سے ایک نے اس کے سر پر بندوق تان لی۔معلوم ہوا کہ ان کا تعلق ملٹری انٹیلیجنس سے ہے لیکن یہ اس بات کی علامت ہے کہ تناؤ کتنا زیادہ ہے۔اومدرمان میں فوج کی حالیہ کامیابی کے باوجود، ہم اب بھی علاقے میں وقتاً فوقتاً فائرنگ کی آوازیں سن سکتے ہیں۔ اس محاذِ جنگ کا کچھ حصہ اب دریائے نیل کے ساتھ چلتا ہے، جو مشرقی جانب خرطوم کو اومدرمان سے الگ کرتا ہے۔فوج ہمیں بتاتی ہے کہ آر ایس ایف کے نشانہ باز بُری طرح تباہ شدہ پارلیمنٹ کی عمارت میں سوڈانی فوج کی پوزیشنوں کے سامنے دریا کے پار واقع اپارٹمنٹ بلاکس میں موجود ہیں۔اومدرمان کا پرانا بازار، جہاں کبھی مقامی لوگوں اور باہر سے آنے والوں کا ہجوم ہوتا تھا، کھنڈر بن گیا ہے۔ یہاں کی دکانیں لُوٹی جا چکی ہیں اور سڑکوں پر زیادہ تر گاڑیاں فوج کی ہیں۔گذشتہ 11 ماہ میں 30 لاکھ سے زیادہ لوگ خرطوم کی ریاست سے فرار ہو چکے ہیں لیکن اومدرمان کے کچھ باشندوں نے وہاں سے جانے سے انکار کر دیا ہے جن میں سے زیادہ تر عمر رسیدہ ہیں۔،تصویر کا ذریعہDany Abi Khalil / BBC
،تصویر کا کیپشناومدرمان میں ایک مسجد کے قریب زمین کے ایک ٹکڑے پر قبروں کے نشانات پر نمبروں کے ساتھ پتھر اور بورڈ
محاذِ جنگ سے ایک کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر، مختار البدری محی الدین ایک تباہ شدہ مینار والی مسجد کے قریب لاٹھی کے سہارے چلتے ہوئے ملے۔اس مسجد کے سامنے کی کھلی جگہ عارضی قبروں سے بھر چکی ہے – کھردری مٹی کے ٹیلے جن پر ٹوٹی ہوئی اینٹوں، تختوں اور کنکریٹ کی سلوں سے نشانیاں لگی ہیں۔’یہاں 150 لوگ ہیں۔ میں ان میں سے بہت سے لوگوں کو جانتا تھا، محمد، عبداللہ۔۔۔ جلال۔‘ وہ کہتے ہیں۔ پھر وہ ایک لمحے کے لیے ایک نام لینے سے قبل رکے۔ یہ نام ڈاکٹر یوسف الحبر کا تھا جو عربی ادب کے معروف پروفیسر ہیں۔’یہاں صرف میں باقی بچا ہوں‘۔ مختار نے کہاسوڈانی فوج کو شدید فضائی بمباری پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے خاص طور پر ایسے شہری علاقوں میں جہاں آر ایس ایف کے جنگجو چھپے ہوئے ہیں- حالانکہ اس کا کہنا ہے کہ وہ شہریوں کی حفاظت کے لیے ’ضروری احتیاط‘ کا مظاہرہ کرتی ہے۔یہاں کے لوگ دارالحکومت اور اس کے اطراف میں ہونے والی تباہی کے لیے دونوں فریقوں کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں لیکن بہت سے لوگ آر ایس ایف پر اس وقت لوٹ مار اور حملوں کا الزام لگاتے ہیں جب وہ علاقے کو کنٹرول کرتی تھی۔مقامی شہری محمد عبدالمطلب کا کہنا ہے ’انھوں نے گھروں کو لوٹ لیا۔ کاریں اور ٹی وی چرائے اور بوڑھے لوگوں یہاں تک کہ خواتین کو بھی مارا پیٹا۔’لوگ بھوک سے مر گئے، میں نے ان میں سے کچھ کو ان کے گھروں سے باہر نکالا تاکہ لاشیں اندر نہ سڑیں۔‘ان کا کہنا ہے کہ یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ خواتین کو ان کے گھروں میں ریپ کیا گیا اور سکیورٹی چیکنگ کے بہانے دست درازی کی گئی۔،تصویر کا ذریعہDany Abi Khalil / BBC
،تصویر کا کیپشنعفاف محمد سالم کا کہنا ہے کہ آر ایس ایف کے جنگجوؤں نے ان کے گھر میں لوٹ مار کی اور اس کے بھائی کی ٹانگ میں گولی ماری
50 سال سے زیادہ عمر کی عفاف محمد سالم جنگ کے آغاز کے وقت خرطوم میں اپنے بھائیوں کے ساتھ رہ رہی تھیں۔ انھوں نے بتایا کہ وہ آر ایس ایف کے جنگجوؤں کے اس حملے کے بعد دریا پار اومدرمان چلی گئیں، جس میں ان کا گھر لوٹا گیا اور ان کے بھائی کو ٹانگ میں گولی ماری گئی۔’وہ عورتوں اور بوڑھوں کو مار رہے تھے اور معصوم لڑکیوں کو دھمکا رہے تھے‘۔ڈھکے چھپے الفاظ میں جنسی تشدد کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’عزت اور غیرت کی توہین، پیسے چھین لینے سے کہیں زیادہ نقصان پہنچاتی ہے۔‘

’انتقام کا ہتھیار‘

،تصویر کا ذریعہMarek Polaszewski / BBC

،تصویر کا کیپشنامینہ کو امید ہے کہ ان کے خاندان کو کبھی معلوم نہیں ہوگا کہ انھوں نے اسقاط حمل کی کوشش کی ہے۔
ریپ کے متاثرین کو ان کے اپنے خاندانوں اور برادریوں کے ہاتھوں بھی زندگی بھر کی بدنامی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اومدرمان میں بہت سے لوگ اس مسئلے پر بات نہیں کرنا چاہتے تھے۔لیکن مغرب کی جانب ایک ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر، چاڈ میں سرحد پر پھیلے ہوئے پناہ گزین کیمپوں میں، ریپ کے واقعات کی سامنے آنے والی شہادتوں کا حجم اس معاملے کو کھول کر بیان کر رہا تھا۔امینہ، جن کا نام ہم نے شناخت کے تحفظ کے لیے تبدیل کر دیا ہے، اسقاط حمل کے لیے خیراتی ادارے ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے تحت چلائے جانے والے ایک عارضی کلینک میں آئی ہیں۔ وہ ہمیں دیکھے بغیر سلام کرتی ہیں۔دارفور سے فرار ہونے والی 19 سالہ امینہ کو گذشتہ روز ہی علم ہوا کہ وہ حاملہ ہیں اور وہ پرامید ہیں کہ ان کے خاندان کو کبھی اس بارے میں پتا نہیں چلے گا۔’میں شادی شدہ نہیں ہوں اور میں کنواری تھی‘۔ آمنہ نے لرزتے ہوئے لہجے میں کہا۔انھوں نے بتایا کہ نومبر میں، ملیشیا کے ارکان نے امینہ کو ان کی خالہ اور دیگر رشتہ داروں کے ساتھ اس وقت پکڑ لیا جب وہ اپنے آبائی شہر اردماتا سے قریبی شہر جنینا فرار ہو رہے تھے۔امینہ کے مطابق ’باقی لوگ بھاگ گئے لیکن انھوں نے مجھے پورا دن قید رکھا۔ وہ دو لوگ تھے اور میرے فرار ہونے پہلے ان میں سے ایک نے مجھے کئی بار ریپ کیا۔دارفور میں آر ایس ایف کا بڑھتا ہوئے تسلط، جسے اتحادی عرب ملیشیاؤں کی حمایت حاصل ہے، اپنے ساتھ سیاہ فام افریقی آبادی، خاص طور پر مسالیت نسلی گروہ پر نسلی پرستانہ حملوں میں اضافہ لایا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

امینہ کی کہانی عام شہریوں کے خلاف حملوں کی بہت سی شہادتوں میں سے ایک ہے جو چار نومبر کے آس پاس ہوئے جب آر ایس ایف اور اس کے اتحادیوں نے اردماتا میں سوڈانی فوجی چھاؤنی پر قبضہ کیا تھا۔اس کے بعد 2024 کے شروع میں تشدد کا آغاز ہوا۔ بی بی سی نے اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ دیکھی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ خیال کیا جاتا ہے کہ اپریل 2023 سے اب تک اس علاقے میں دس ہزار سے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں۔اقوام متحدہ نے ملک بھر میں اس تنازعے سے متعلقہ جنسی تشدد کے تقریباً 120 متاثرین کے بارے میں معلومات کو دستاویزی شکل دی ہے، جو اس کے بقول ’حقیقت کی بہت کم نمائندگی‘ ہے۔اس کا کہنا ہے کہ آر ایس ایف کی وردی میں ملبوس مرد اور اس گروپ سے وابستہ مسلح افراد 80 فیصد سے زیادہ حملوں کے ذمہ دار ہیں۔ اس کے علاوہ، سوڈانی فوج کی طرف سے جنسی حملوں کی کچھ خبریں بھی سامنے آئی ہیں۔،تصویر کا ذریعہMarek Polaszewski / BBC

،تصویر کا کیپشنہزاروں افراد سوڈان سے بھاگ کر چاڈ میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں
سرحدی شہر ایڈری میں واقع اسی کیمپ کے بالکل باہر تقریباً 30 خواتین اور لڑکیاں دوپہر کے وقت ایک جھونپڑی میں ملیں۔گلابی اور نیلے رنگ کے غبارے ہاتھ سے لکھے ہوئے نوٹوں کے ساتھ اس جھونپڑ میں ایک تار سے لٹکے ہوئے تھے جن میں سے ایک پر لکھا تھا۔ ’ریپ مقدر نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جسے روکا جا سکتا ہے‘۔یہ آبدیدہ خواتین جسمانی اور جنسی تشدد کے اپنے تجربات کے بارے میں بتاتی ہیں۔مریم ( فرضی نام) کہتی ہیں کہ نومبر میں جینینا میں انھیں ان کے گھر میں ایسے افراد نے ریپ کیا جو اس علاقے میں عرب جنگجوؤں کے لیے مخصوص پگڑی پہنے ہوئے تھے۔ اس کے بعد انھیں چلنے پھرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ روتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’لوگ بھاگ رہے تھے، لیکن ہم ایسا نہیں کر سکے کیونکہ میری دادی بھاگ نہیں سکتی تھیں۔ میرا بھی خون بہہ رہا تھا۔‘،تصویر کا ذریعہMarek Polaszewski / BBC
،تصویر کا کیپشنجسمانی اور جنسی تشدد کے تجربات کے بارے میں بتاتے ہوئے خواتین آبدیدہ ہو گئیں
زہرہ خامس ایسی سماجی کارکن ہیں جو خود بھی ایک پناہ گزین ہیں، اس گروپ کو چلاتی ہیں۔آمنہ اور مریم دونوں سیاہ فام افریقی برادری سے ہیں اور خامس کہتی ہیں کہ دارفور میں انھیں خاص طور پر مسالیت نسلی گروہ کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔20 سال قبل دارفور میں جنگ کے دوران، جنجاوید نامی ایک عرب ملیشیا – جس میں آر ایس ایف کی جڑیں ہیں- کو سابق صدر عمر البشیر نے غیر عرب نسلی گروہوں کی بغاوت کو کچلنے کے لیے متحرک کیا تھا۔اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اس وقت تین لاکھ افراد ہلاک ہوئے اور ریپ کو سیاہ فام افریقی برادریوں کو دہشت زدہ کرنے اور انھیں بھاگنے پر مجبور کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر استعمال کیا گیا۔ جنجاوید کے کچھ رہنماؤں اور عمر البشیر پر آئی سی سی نے نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات میں فرد جرم عائد کی ہے۔ انھوں نے الزامات سے انکار کیا ہے اور تاحال کسی پر جرم ثابت نہیں ہوا ہے۔زہرہ خامس کا خیال ہے کہ اس تنازعے میں بھی ریپ کو ’انتقام کے ہتھیار کے طور پر‘ استعمال کیا جا رہا ہے۔،تصویر کا ذریعہMarek Polaszewski / BBC
،تصویر کا کیپشنغبارے اور ہاتھ سے لکھی ہوئی نشانیاں اس جھونپڑی میں لٹکی ہوئی ہیں جہاں خواتین نے اپنے تجربات بیان کیے
’وہ خواتین کے ساتھ ایسا کر رہے ہیں کیونکہ ریپ کا اثر معاشرے اور خاندان پر پڑتا ہے‘۔ وہ مزید کہتی ہیں۔آر ایس ایف کے ایک رکن نے جو خود کو ’فیلڈ کمانڈر‘ کے طور پر متعارف کرواتا ہے، نومبر میں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو پوسٹ کی۔ اس ویڈیو میں اس کا کہنا تھا ’اگر ہم آپ کی بیٹی یا آپ کی لڑکی کو ریپ کرتے ہیں، تو یہ آنکھ کے بدلے آنکھ والی بات ہے۔ یہ ہمارا ملک ہے اور یہ ہمارا حق ہے اور ہم نے اسے لے لیا‘۔ بعد میں اس کلپ کو ہٹا دیا گیا۔ریپ اور دیگر حملوں کے بارے میں بی بی سی کے سوالات کے جواب میں، آر ایس ایف نے کہا کہ سوڈانی ملٹری انٹیلی جنس ’لوگوں کو آر ایس ایف کی وردی پہن کر شہریوں کے خلاف جرائم کرنے کے لیے بھرتی کر رہی ہے تاکہ یہ کہا جا سکے کہ آر ایس ایف جرائم، جنسی حملوں اور نسل کشی کا ارتکاب کر رہی ہے‘۔آر ایس ایف کے سربراہ کے مشاورتی دفتر سے تعلق رکھنے والے عمران عبداللہ حسن نے بی بی سی کو بتایا کہ ’شاید ایک یا دو واقعات آر ایس ایف کے جنگجوؤں کی طرف سے پیش آئے ہوں اور انھیں اس کے لیے جوابدہ ٹھہرایا گیا۔‘گذشتہ سال آر ایس ایف نے کہا تھا کہ وہ اپنی فورسز کی جانب سے انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کی تحقیقات کے لیے ایک لائحہ عمل مرتب کرے گی لیکن اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اس کی کوئی تفصیلات نہیں دی گئی ہیں۔

‘اگر آپ مسالیت ہیں تو وہ آپ کو مار دیں گے’

،تصویر کا ذریعہ.

،تصویر کا کیپشنسوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مردوں کا گروپ ایک سڑک پر قطار میں کھڑا ہے
اسی کیمپ میں ایک اور پناہ گاہ میں، احمد کے ہاتھ کانپتے ہیں جب وہ فون پکڑتا ہے، ایک ویڈیو دیکھتا ہے، جس کی تصدیق بی بی سی نے کی ہے، جس میں نومبر میں اردماتا کی ایک سڑک پر پانچ غیر مسلح افراد کو قطار میں کھڑے دکھایا گیا ہے۔’میں بس انھیں ختم کرنے والا ہوں‘۔ سوڈانی عربی میں ایک آواز آتی ہے اور پھر ان افراد کو انتہائی قریب سے گولیاں مار دی جاتی ہیں۔’یہ امیر ہے، اور یہ عباس.‘۔ احمت نے کہا جبکہ ایک آنسو اس کے گال پر لڑھکتا ہے۔یہ پہلا موقع ہے کہ اس 30 سالہ نوجوان نے، جس کا نام ہم نے تبدیل کر دیا ہے، اس لمحے کی فوٹیج دیکھی ہے جب اسے گولی ماری گئی تھی۔ اسے بظاہر مسلح افراد میں سے ایک نے پانچ نومبر کو فلمایا تھا۔ یہ وہ دن تھا جب آر ایس ایف نے چھاؤنی پر قبضہ کیا تھا اور اس ویڈیو کو آن لائن شائع کیا گیا تھا۔احمد کا کہنا ہے کہ اس کے کزن عامر اور اس کے دوست عباس کی فوری موت ہوگئی، لیکن وہ اور دو دیگر افراد بچ گئے۔ان کی پیٹھ پر ایک بڑا نشان گولی کے باہر نکلنے کے زخم کی نشانی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ جنگ سے پہلے استاد تھے اور یہ پانچوں عام شہری تھے۔وہ کہتے ہیں، ’ہم ایسے لیٹ گئے جیسے ہم مر گئے ہوں۔ مجھے یاد ہے کہ میں دعائیں پڑھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ بس یہ اختتام ہے‘۔احمد کا کہنا ہے کہ اسے آر ایس ایف اور ان کے اتحادیوں نے ان کے گھر کے قریب سے اغوا کیا تھا۔ ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ مرد ان فورسز کے مخصوص انداز کے لباس پہنے ہوئے ہیں۔دو دیگر افراد نے بی بی سی کو ایسے مسلح افراد کے ہاتھوں اغوا اور زخمی ہونے کی تفصیل دی جن کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ وہ ارداماتا میں آر ایس ایف سے تعلق رکھتے تھے۔ان میں سے ایک 55 سالہ یوسف عبداللہ نے ہمیں بتایا کہ وہ مسلح افراد کے ہاتھوں پکڑے جانے کے بعد فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے ان افراد کو ایک ماں اور اس کے نوزائیدہ بچے کو قتل کرتے دیکھا۔،تصویر کا ذریعہMarek Polaszewski / BBC
،تصویر کا کیپشناحمت اپنے کندھے پر لگنے والی گولی کا نشان دکھا رہے ہیں
’انھوں نے پوچھا کہ کیا ہم مسالیت برادری سے ہیں اور اگر آپ ہیں تو وہ خود بخود آپ کو مار دیتے ہیں‘۔ انھوں نے مزید کہا۔سوڈان 2019 میں عدم استحکام کے ایک نئے دور میں داخل ہوا، جب سڑکوں پر ہونے والے مظاہروں اور فوجی بغاوت نے عمر البشیر کی تقریباً تین دہائیوں کی حکمرانی کا خاتمہ کیا۔ایک مشترکہ فوجی سویلین حکومت قائم کی گئی تھی، لیکن اکتوبر 2021 میں فوج اور آر ایس ایف کی طرف سے ایک اور بغاوت میں اس کا تختہ الٹ دیا گیا۔ پھر یہ دونوں اتحادی شہری حکمرانی کی طرف مجوزہ نقشۂ راہ اور آر ایس ایف کو باقاعدہ مسلح افواج میں ضم کیے جانے کے معاملے پر آپس میں لڑ پڑے۔ گذشتہ اپریل میں، آر ایس ایف نے اپنے کارکنوں کو ملک بھر میں دوبارہ بھیجا۔ سوڈانی فوج نے اس اقدام کو ایک خطرے کے طور پر دیکھا، اور تشدد شروع ہو گیا کیونکہ کوئی بھی فریق طاقت کے نفع کو چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔

قحط کے دہانے پر

تقریباً ایک سال بعد، اب امدادی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ صورتحال قابو سے باہر ہوتی جا رہی ہے اور اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے یونیسیف نے کہا ہے کہ کچھ گروہ قحط کا شکار ہونے کے دہانے پر ہیں۔ تین سالہ مناسیک ان لاکھوں بچوں میں سے ایک ہیں جو پہلے ہی شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔ وہ چلنے کی طاقت نہیں رکھتیں اور وہ بمشکل اپنا سر اٹھا سکتی ہیں۔ان کی والدہ اکرام نے انھیں بحیرہ احمر کے کنارے واقع شہر پورٹ سوڈان کے ایک یونیسیف ہسپتال میں پالا ہے جہاں خرطوم میں لڑائی سے فرار ہونے والے ہزاروں افراد نے پناہ حاصل کی ہے اور جہاں زیادہ تر سرکاری ادارے اور انسانی تنظیمیں بھی منتقل ہو چکی ہیں۔وہ نہیں جانتی کہ آیا مناسیک کو کوئی بیماری ہے یا نہیں اور وہ یہ معلوم کرنے کی خاطر طبی جائزے کے لیے رقم بھی ادا کرنے کے قابل نہیں۔’ہم نے اپنی زندگی کھو دی۔ ہم نے اپنی ملازمتیں کھو دیں‘۔ وہ بتاتی ہیں کہ ان کے شوہر کھیتی باڑی کا کام تلاش کرنے کے لیے شمالی سوڈان گئے ہیں اور خوراک کی قیمتیں کس طرح پہنچ سے باہر ہو گئی ہیں۔ وہ سر جھکا کر آنسو بہا رہی ہیں اور مزید کچھ کہنے سے قاصر ہیں۔ہم نے پورٹ سوڈان میں ایک سکول کا دورہ کیا۔ وہ کلاس روم جہاں کبھی شاگرد سیکھتے تھے اب مایوس خاندانوں سے بھرے پڑے ہیں۔صحن کے کنارے سے گندے پانی کا نالا بہتا ہے، جہاں بچے ننگے پاؤں کوڑے کے ڈھیروں پر کھیلتے ہیں۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ یہاں پانچ افراد ہیضے سے مر چکے ہیں۔زبیدہ عمار محمد، جو آٹھ بچوں کی ماں ہیں، کھانستے ہوئے ہمیں بتاتی ہیں کہ انھیں لیوکیمیا ہے اور اپریل سے شدید درد کا شکار ہیں کیونکہ ان کے پاس دوا نہیں۔ جب جنگ شروع ہوئی اور ان کا خاندان خرطوم کے علاقے سے فرار ہوا تو وہ مزید دوا حاصل کرنے سے قاصر رہیں۔،تصویر کا ذریعہDany Abi Khalil / BBC

،تصویر کا کیپشنتین سالہ مناسیک ان لاکھوں بچوں میں سے ایک ہیں جو پہلے ہی شدید غذائی قلت کا شکار ہیں
ان کے شوہر نے رضاکارانہ طور پر سوڈانی فوج کے ساتھ لڑنا شروع کیا اور دو ماہ سے ان کی کوئی خبر نہیں۔ ان کی ماں، دادی اور ان کے ساتھ رہنے والے تین بچے بہت کم کام کر سکتے ہیں لیکن اس کی صحت کو خراب ہوتے دیکھ سکتے ہیں۔پورٹ سوڈان میں ہم قبطی عیسائیوں کے ایک گروپ سے بھی ملے جو آر ایس ایف کی دھمکیوں اور حملوں اور فوج کے فضائی حملوں سے بچنے کے لیے دارالحکومت سے بھاگے۔’خرطوم میں فضائیہ نے ہمیں تباہ کر دیا‘۔ ان میں سے ایک سارہ الیاس کہتی ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ ایک فضائی حملے میں ان کا شوہر مارا گیا اور ایک اور پڑوسی کا گھر بھی نشانہ بنا جس سے نو افراد ہلاک ہوئے، کیونکہ فوج نے رہائشی علاقوں اور گرجا گھروں میں چھپے ہوئے آر ایس ایف کے جنگجوؤں کو نشانہ بنایا تھا۔،تصویر کا ذریعہDany Abi Khalil / BBC
،تصویر کا کیپشنزبیدہ (درمیان میں) کو لیوکیمیا ہے اور وہ ایک سوکل میں اپنی دادی (بائیں) اور تین بچوں کے ہمراہ پناہ گزین ہیں۔
امریکہ کا کہنا ہے کہ دونوں فریقوں نے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے، اور یہ کہ آر ایس ایف اور اس کی اتحادی ملیشیا انسانیت کے خلاف جرائم اور نسلی بنیادوں پر قتال کی مرتکب ہوئی ہے۔ تاہم دونوں فریق ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔جنگ کے گیارہ ماہ بعد، لڑائی کے خاتمے کے لیے دونوں طرف سے کسی قسم کی صلح جوئی کے آثار نظر نہیں آتے۔وہ لوگ جو ملک چھوڑ سکتے تھے ان میں سے زیادہ تر چلے گئے ہیں اور جب کہ تنازعات، بھوک اور بیماری کا راج جاری ہے، یہاں کے بہت سے لوگ حیران ہیں کہ کسی کے لیے فتح کا اعلان کرنے کو کیا باقی رہ جائے گا۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}