- مصنف, سربجیت سنگھ دھالیوال
- عہدہ, کینیڈا سے بی بی سی نامہ نگار
- 12 منٹ قبل
’میرا دل چاہتا ہے کہ انڈیا جاؤں اور اپنے والد کو گلے لگا کر روؤں۔ مجھے ان کی بہت یاد آتی ہے۔‘یہ کہتے ہی ارپان کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ وہ بات کرتے کرتے خاموش ہو جاتیں ہیں۔چند لمحوں کی خاموشی کو توڑتے ہوئے وہ پھر سے بولیں، ’یہاں کوئی کسی کا نہیں ہے، سب بھاگ رہے ہیں، میں نے کینیڈا کے بارے میں جو سوچا تھا، وہ یہاں آکر الٹا ہو گیا۔‘ارپان اپنے خوابوں کو سچ کرنے کے مقصد سے دو سال قبل ایک بین الاقوامی طالب علم کے طور پر کینیڈا آئیں تھیں۔
ارپان کا تعلق پنجاب کے ضلع مکتسر سے ہے۔ ان کے والدین پیشے کے اعتبار سے استاد ہیں۔دو سال کی پڑھائی مکمل کرنے کے بعد ارپان فی الحال کینیڈا میں ورک پرمٹ پر ہیں اور سیکورٹی گارڈ کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ارپان ان ہزاروں بین الاقوامی طلبا میں سے ایک ہیں جو بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے نام پر سٹڈی ویزا پر کینیڈا میں رہنے کے لیے آتے ہیں لیکن یہاں کے حالات ان کے خوابوں کے برعکس ثابت ہو رہے ہیں۔اپنا دکھ بانٹتے ہوئے ارپان نے کہا کہ ’میں اپنے والدین کو بہت یاد کرتی ہوں۔ ماں کھانا پکاتی تھی، میں گیم کھیلتی تھی، کوئی ذمہ داری نہیں تھی۔ ’یہاں کوئی نہیں ہے جو کہے بیٹا تم نے کھایا ہے یا نہیں؟ یہاں آپ نے سب کچھ خود کرنا ہے۔‘ارپان کے مطابق ان کا کینیڈا آنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ دراصل وہ کینیڈا کی دلفریب اور چکا چوند والی ویڈیوز دیکھ کر کافی متاثر ہوئی تھیں۔انھوں نے پنجاب میں ہر کسی کو کینیڈا جانے کی بات کرتے ہوئے دیکھا تھا کہ یہ ملک بہت صاف ہے، طلبہ کے پاس بڑی بڑی گاڑیاں اور گھر ہیں اور ملک لڑکیوں کے لیے بھی محفوظ ہے۔ارپان کے مطابق ’ نوجوان ہونے کی وجہ سے میں اس سب سے بہت متاثر ہوئی اور سوچا کہ مجھے کینیڈا کے لیے بھی کوشش کرنی چاہیے۔ میرے والدین چاہتے تھے کہ میں اپنی گریجویشن مکمل کروں لیکن کچھ لوگوں نے مجھے کہا کہ تم جتنی جلدی کینیڈا جاؤ گی، اتنی ہی جلدی آباد ہو جاؤ گی۔‘24 سالہ ارپن تقریباً تین سال قبل کینیڈا پہنچی تھیں۔وہ بتاتی ہیں کہ اسی لیے میں 12ویں پاس کرنے کے بعد بہت چھوٹی عمر میں ہی یہاں آ گئی تھی۔ کینیڈا میں رہنے والے میرے کچھ دوستوں نے مجھے یہاں کے مسائل بتائے، لیکن کینیڈا کا بھوت میرے سر پر سوار تھا۔ اس لیے میں نے ان کی باتوں کی پرواہ نہیں کی۔
کینیڈا کا خواب اور زمینی حقیقت
ارپان کا کہنا ہے کہ جب وہ 2021 میں پہلی بار کینیڈا پہنچی تو انھیں احساس ہوا کہ وہ کسی اور دنیا میں آگئی ہیں، جس کا انھوں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ارپان نے کہا کہ ’ایجنٹ کے ایک جاننے والے نے مجھے ہوائی اڈے سے اٹھایا اور مجھے ایک گھر کے تہہ خانے میں کرائے پر ایک بستر دیا، جہاں میں سات ماہ تک رہی۔‘’یہ تہہ خانہ ایک ہال تھا، جس میں کوئی کمرہ نہیں تھا، فرش پر صرف گدے تھے۔ جہاں کچھ اور لڑکیاں بھی رہتی تھیں۔ تہہ خانے میں کھڑکیاں نہیں تھیں اور میرا کینیڈا میں پہلے سات ماہ کا تجربہ بہت خراب تھا۔‘ارپان کا کہنا ہے کہ حقیقت ان خوابوں سے بالکل مختلف ہے جو انڈینز کو کینیڈا کے بارے میں دکھائے جاتے ہیں۔ایجنٹ اس بات کا ذکر نہیں کرتے کہ انھیں تہہ خانے میں رہنا ہے۔ پڑھائی کے ساتھ ساتھ کام کیسے کریں؟ طلبا کو کتنا استحصال کا سامنا کرنا پڑے گا؟ اس بارے میں کوئی نہیں بتاتا۔ کینیڈا کے بارے میں سب کچھ اچھا کہا جاتا ہے۔ارپان کے مطابق طالب علمی کی زندگی بہت جدوجہد سے گزرتی ہے۔ ذہنی تناؤ، خاندان سے دور رہنے کا تجربہ، کام نہ ملنے کا دباؤ، یہ سب طالب علمی کی زندگی کی جدوجہد کا حصہ ہیں۔ارپان نے بتایا کہ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ کام کا ہے۔ سردیوں کے موسم میں لگنے والے جاب میلوں میں نوکریوں کے لیے طلبا کی لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں۔ان طلبہ میں سے صرف چند کو ہی نوکری ملتی ہے، انڈیا میں کینیڈا کے بارے میں یہ سچ کوئی نہیں بتاتا۔ زندگی گزارنے کے اخراجات، کالج کی فیس اور نوکری کی یقین دہانی نہ ہونے کی وجہ سے ذہن میں ہر وقت پریشانی رہتی ہے۔ارپان نے بتایا کہ وہ اپنے والدین کو کینیڈا میں مسائل کے بارے میں بہت کم معلومات دیتی ہیں، جیسے کہ میں نے اپنی پڑھائی مکمل کر لی ہے، نوکری مل گئی ہے اور میری تنخواہ بینک میں ہے۔جب ان سے پوچھا گیا کہ انھوں نے دیگر مسائل کے بارے میں کیوں نہیں بتایا تو ان کا جواب تھا کہ وہ پریشان ہوں گے اور اکثر بچے ایسا ہی کرتے ہیں۔’اگر میں نے نہیں کھایا تو بھی میں اپنے والدین سے جھوٹ بولتی ہوں کہ میں نے کھایا ہے۔‘ میں یہ نہیں بتا سکتی کہ میں آج کھانا نہیں بنا سکی کیونکہ میں کام سے دیر سے آئی ہوں۔ارپان کا کہنا ہے کہ میرے اندر سے بچپن مر گیا، چھوٹی عمر میں کینیڈا میں بڑی ذمہ داریاں نبھائی ہیں۔ ارپان کا مقصد کینیڈا کی شہریت حاصل کرنا ہے۔ اس کے بعد ہی وہ اپنے والدین سے ملنے انڈیا جائیں گی۔ارپان کے مطابق کینیڈا ایک اچھا ملک ہے۔ یہاں کسی کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں ہے اور آگے بڑھنے کے یکساں مواقع ہیں۔ لیکن طالب علمی کی زندگی بہت مشکل ہے اور انڈیا میں رہتے ہوئے اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ڈپارٹمنٹ آف امیگریشن، ریفیوجیز اینڈ سٹیزن شپ کینیڈا (IRCC) کے 2023 کے اعداد و شمار کے مطابق، اس سال بین الاقوامی طلباء کی تعداد میں 29 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ سب سے زیادہ سٹڈی پرمٹ انڈین طلبہ کو جاری کیے گئے۔ اس کے بعد دوسرے نمبر پر چین اور تیسرے نمبر پر فلپائن کے طلباء ہیں۔انڈین طلبہ میں کینیڈا جانے والے طلبہ کی سب سے زیادہ تعداد پنجاب اور گجرات سے ہے۔ اس کے علاوہ راجستھان، اتر پردیش، تلنگانہ، آندھرا پردیش، ہریانہ کے طلبہ اس وقت کینیڈا میں زیر تعلیم ہیں۔ انڈینز طلباء کی سب سے زیادہ تعداد پنجاب سے ہے۔پچھلے کچھ سالوں میں لاکھوں طلبا بہتر مستقبل کی امید میں کینیڈا آئے ہیں۔ گریٹر ٹورنٹو ایریا (جی ٹی اے) کو بین الاقوامی طلباء بالخصوص انڈین شہریوں کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ خاص طور پر برامپٹن کو منی پنجاب کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اکرم کی کہانی: ’کینیڈا ایک خوبصورت جیل ہے‘
انڈین پنجاب کے ضلع برنالہ کے گاؤں دھول کوٹ کے اکرم کی کہانی بھی ارپان سے ملتی جلتی ہے۔28 سالہ اکرم سٹڈی پرمٹ پر 2023 میں کینیڈا پہنچے اور اس وقت برامپٹن کے ایک نجی کالج میں پراجیکٹ مینجمنٹ کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اکرم نے بتایا کہ ان کی کلاس میں 32 طالب علم ہیں۔ ان میں سے 25 انڈین ہیں۔ان کی کلاس میں کینیڈین نژاد کوئی طالب علم نہیں ہے۔کینیڈا میں اپنے تجربے کے بارے میں بات کرتے ہوئے اکرم کہتے ہیں، ’کینیڈا ایک خوبصورت جیل ہے۔ جہاں آپ کو سب کچھ مل جاتا ہے لیکن آپ زندگی بھر اس سے باہر نہیں نکل سکتے۔‘اکرم کے مطابق اس وقت ہم یہاں مشینوں کی طرح ہیں۔ ہم صبح سے شام تک کام کرتے ہیں، یہ مکڑی کا جالا ہے جس سے ہم باہر نہیں نکل سکتے۔‘اکرم کا کالج ہفتے میں تین دن شام کو دو گھنٹے ہوتا ہے۔ اکرم ایک مزدور خاندان سے ہیں اور 22 لاکھ روپے کا قرض لے کر کینیڈا آئے تھے۔اس قرض کی ادائیگی اور اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے انھیں دو شفٹوں میں محنت کرنی پڑتی ہے۔ ان کے مطابق کینیڈا آنے کے بعد انھیں معلوم ہوا کہ انڈیا سے جو کچھ دکھایا گیا وہ پوری حقیقت نہیں تھی۔اکرم ایک جینئس ہیں اور ادبی دلچسپی رکھتے ہیں۔ پنجاب میں ہی ادبی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کیا۔ کینیڈا آنے کے بعد ان کی شاعری کے کردار بدل گئے ہیں۔ اکرم کی نظمیں پنجاب کی سرزمین اور کینیڈا کے مشکل حالات کے لیے ان کی تڑپ کی عکاسی کرتی ہیں۔اخراجات کو پورا کرنے کے لیے ہمہ وقت کام کرنا اور مستقبل کی فکر عموماً ان کے چہروں اور باتوں سے جھلکتی ہے۔ قرض کی ادائیگی، کالج کی فیس اور رہنے کے اخراجات پورے کرنے کے لیے اکرم دو جگہوں پر پارٹ ٹائم کام کرتے ہیں۔دن کے وقت وہ کمپیوٹر سنٹر میں کام کرتے ہیں اور رات کو گارڈ کا کام کرتے ہیں۔ وہ صرف پانچ گھنٹے نیند لیتے ہیں۔ اکرم کہتے ہیں کہ ’یہاں پریشانی کبھی کم نہیں ہوتی، گھر والوں سے بات کرنے سے مجھے ذہنی تناؤ سے کچھ سکون ملتا ہے۔ارپان کی طرح اکرم بھی کینیڈا میں اپنے والدین کے ساتھ مسائل کے بارے میں کچھ نہیں بتاتے۔ اکرم اس وقت اپنے پانچ دوستوں کے ساتھ کرائے کے تہہ خانے میں رہتے ہیں۔ ہال نما تہہ خانے میں دو بستر ہیں اور باقی زمین پر گدے ہیں۔ایک بستر خالی ہے، جس کے بارے میں اکرم کہتے ہیں کہ وہ ایک اور بین الاقوامی طالب علم کا انتظار کر رہے ہیں جو مئی میں انڈیا سے آرہا ہے۔اس تہہ خانے میں بھی کوئی روشندان نہیں ہے۔
ذہنی دباؤ کا شکار طلباء
نرلیپ سنگھ گل برامپٹن میں پنجابی کمیونٹی ہیلتھ سروسز کے ساتھ کام کرتے ہیں۔گل ہندوستانی بالخصوص پنجابی طلباء کی مشکلات سے نمٹتے ہیں۔نیرلپ گل بتاتے ہیں کہ ’بہت سے بچے ذہنی امراض میں مبتلا ہیں کیونکہ کینیڈا میں طلبہ کو مختلف مسائل کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔ خاص طور پر وہ بچے جو بہت چھوٹی عمر میں (12ویں کلاس پاس کرنے کے بعد) کینیڈا آتے ہیں۔‘نرلیپ سنگھ گل کا کہنا ہے کہ یہ طالب علم ذہنی طور پر مضبوط نہیں ہیں کیونکہ وہ کم عمر ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ تناؤ سے کیسے نمٹا جائے۔ اگر بچہ والدین کو کچھ بتاتا ہے تو بھی وہ سمجھ نہیں پاتے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔گل کا مزید کہنا ہے کہ ’یہ مسئلہ تمام بین الاقوامی طلبہ کے ساتھ نہیں ہے، کچھ نے یہاں ترقی کی ہے لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے۔‘بین الاقوامی طلبا میں تناؤ کی وجہ پوچھے جانے پر ان کا کہنا ہے کہ اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔
غیر متوقع ذمہ داری
سب سے پہلے انڈیا میں بچے ایک آرام دہ ماحول میں ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے والدین ہر چیز کا خیال رکھتے ہیں اور ان پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے، لیکن جب وہ کینیڈا آتے ہیں، تو ان پر فوری طور پر ذمہ داریاں ہوتی ہیں. وہ اس کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں ہیں۔’کینیڈا میں منشیات بہت زیادہ ہیں۔ انڈیا میں صرف چند قسم کی منشیات ہیں لیکن کینیڈا میں 55 سے 70 قسم کی منشیات دستیاب ہیں۔ ’منشیات کے عادی ہونے سے طلباء ذہنی اور جسمانی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔‘اس کے علاوہ منشیات کی زیادتی سے طلبہ کی اموات کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔نرلیپ سنگھ گل نے کہا کہ انڈیا کی ایک بڑی آبادی کینیڈا میں رہتی ہے، صرف بین الاقوامی طلباء کی اموات کی تعداد کیوں بڑھ رہی ہے ایک سوال ہے۔گل نے کہا کہ زیادہ تر اموات کا تعلق دل کے دورے سے ہے۔ اس کے ساتھ مختلف وجوہات کی بنا پر ذہنی تناؤ کے باعث طلبہ میں خودکشی کا رجحان بھی بڑھ گیا ہے۔
پرماننٹ ریزیڈینس حاصل کرنے کا دباؤ
کینیڈا میں ہر قدم پر تناؤ اور اضطراب پایا جاتا ہے۔ اس لیے اگر کوئی طالب علم نہیں جانتا کہ اس سے کیسے نمٹا جائے تو وہ مایوس ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ نوجوان کینیڈا کی شہریت اور پی آر کے حصول کے لیے بھی ذہنی دباؤ میں رہتے ہیں۔
کینیڈا میں طلباء کی اموات
بین الاقوامی طلباء برادری میں ایک اور چیز ہے، جس نے سب کو حیران کر دیا۔ یعنی یہاں طلبہ کی اموات۔ یہ جاننے کے لیے بی بی سی نے برامپٹن میں ایک پرائیویٹ شمشان گھاٹ کے مینیجر ہرمیندر ہانسی سے بات کی۔ وہ اسے 15 سال سے چلا رہے ہیں۔ہرمیندر ہانسی نے کہا کہ حالیہ دنوں میں بین الاقوامی طلباء کی شرح اموات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ موت کی وجہ کے سوال پر ان کا کہنا ہے کہ زیادہ تر اموات میں صرف ایک یا دو کیسز ایسے ہوں گے جن کی موت قدرتی وجوہات سے ہوئی ہو لیکن زیادہ تر اموات کی وجہ خودکشی رہی ہے۔اس کے علاوہ منشیات کی زیادتی سے اموات بھی ہو رہی ہیں۔ نشے میں ڈرائیونگ کی وجہ سے ہونے والے حادثات بھی بین الاقوامی طلباء کی موت کا سبب بن رہے ہیں۔ہانسی نے بتایا کہ وہ ہر ماہ چار سے پانچ میتیں انڈیا بھیجتے ہیں، اس کے علاوہ کچھ لوگ ان کی تدفین کینیڈا میں بھی کرتے ہیں، جس کا ڈیٹا دستیاب نہیں ہے۔ ہانسی کے مطابق یہ صرف ایک شمشان گھاٹ کے اعداد و شمار ہیں اگر پورے کینیڈا کے اعداد و شمار کو شامل کیا جائے تو یہ تعداد زیادہ ہو سکتی ہے۔دسمبر 2023 میں، وزیر مملکت برائے امور خارجہ وی مرلی دھرن نے راجیہ سبھا میں پوچھے گئے ایک سوال کے تحریری جواب میں کہا تھا کہ 2018 سے دسمبر 2023 تک بیرون ملک 403 انڈین طلباء کی موت ہوئی ہے، جن میں سے سب سے زیادہ 94 اموات کینیڈا میں ہوئی ہیں۔ جواب میں مزید کہا گیا کہ ان میں سے کچھ اموات قدرتی تھیں اور کچھ حادثات کی وجہ سے ہوئیں۔ دسمبر 2023 میں ہندوستانی وزارت خارجہ کے اس وقت کے ترجمان ارندم باغچی نے کہا تھا کہ انڈیا سے کینیڈا جانے والے طلبہ کی تعداد دیگر ممالک کے مقابلے بہت زیادہ ہے۔
کینیڈین سٹڈی پرمٹ کی اصل حقیقت کیا ہے؟
ہر سال لاکھوں انڈین طلبا سٹڈی پرمٹ پر کینیڈا جا رہے ہیں۔ حکومت کینیڈا کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2022 کے مقابلے میں 2023 میں ایکٹیو سٹوڈنٹ ویزوں کی تعداد تقریباً 29 فیصد بڑھ کر 10 لاکھ 40 ہزار ہو گئی ہے۔ان میں سے تقریباً چار لاکھ 87 ہزار انڈین طلبا تھے۔ یہ 2022 کے مقابلے میں 33.8 فیصد زیادہ ہے۔بین الاقوامی طلبا کو اوسط کینیڈا کے طالب علم سے تین گنا زیادہ فیس ادا کرنی پڑتی ہے۔ کینیڈا کی حکومت کی 2022 کی رپورٹ کے مطابق، بین الاقوامی طلبا نے یہاں کی معیشت میں 22 بلین کینیڈین ڈالر کا حصہ ڈالا ہے۔ اس کے علاوہ تقریباً 2.2 لاکھ نئی ملازمتیں پیدا ہوئیں۔اس کی وجہ سے، بین الاقوامی طلباء کینیڈا کی معیشت کے لیے ایک ضرورت معلوم ہوتے ہیں۔ ہندوستان سمیت دنیا کے کئی ممالک سے طلبا ہر سال تعلیم کے لیے کینیڈا آتے ہیں۔ ان طلبا میں سے زیادہ تر کا تعلق انڈیا سے ہے۔اس کی وجہ سے، کینیڈا میں یونیورسٹیاں اور کالج بین الاقوامی طلباء کو داخلہ دینے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ بہت سے کالج صرف نام کے کالج ہیں۔ ان کا نہ کوئی کیمپس ہے اور نہ ہی کوئی گراؤنڈ۔ کالج صرف دو کمروں میں چل رہے ہیں۔ کینیڈا کی حکومت نے اب ایسے کالجوں کے خلاف کچھ سخت اقدامات کیے ہیں۔اونٹاریو کے ڈیپارٹمنٹ آف کالجز اینڈ یونیورسٹیز کی ایک رپورٹ کے مطابق 2012 سے 2021 تک صوبے کے نجی کالجوں میں مقامی طلباء کی تعداد میں 15 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔جبکہ اس عرصے کے دوران بین الاقوامی طلباء کی تعداد میں 342 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ان میں سے 62 فیصد طلبا انڈیا کے تھے۔
آخر کینیڈا میں تعلیم کا معیار کیا ہے؟
اس بارے میں جسویر شمیل جو کہ ٹورنٹو میں طویل عرصے سے صحافت کر رہے ہیں، کہتے ہیں کہ پچھلے دس سالوں میں کینیڈا میں بین الاقوامی طلبا بالخصوص انڈین طلباء کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔شمیل نے کہا کہ ’سٹڈی پرمٹ کینیڈا آنے کا ایک طریقہ ہے۔ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد، یہاں کے زیادہ تر طلبا ٹرک ڈرائیور، ٹیکسی ڈرائیور، ڈیلیوری ورکرز، ہوٹل ورکرز کے طور پر کام کرنا شروع کر دیتے ہیں۔شمیل کا کہنا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر طلباء ان سرگرمیوں میں پھنسے رہتے ہیں۔ جس مضمون میں انھوں نے تعلیم حاصل کی ہے اس میں ملازمت حاصل کرنے والے طلبا کی تعداد بہت کم ہے۔ انھوں نے کہا کہ کینیڈا میں موجودہ حالات بہت خراب ہیں۔ طالب علموں کو بھول جائیں، یہاں کے شہریوں کو بھی نوکریاں نہیں مل رہیں۔شمیل کے مطابق کینیڈا میں پرائیویٹ کالج انڈین طلبہ سے بھرے ہوئے ہیں۔ بہت سے کالجوں میں 95 فیصد ہندوستانی طلبا ہیں۔انھوں نے بتایا کہ جنوری 2024 میں کینیڈا کی حکومت نے بین الاقوامی طلبا کی تعداد پر کچھ پابندیاں عائد کی تھیں۔ بین الاقوامی طلباء کی تعداد میں کمی آئی ہے۔کینیڈا کی حکومت نے دو سال کے لیے غیر ملکی طلباء کی تعداد میں 35 فیصد کمی کر دی ہے۔اس کے علاوہ کینیڈا نے اب صرف ان بین الاقوامی طلباء کی شریک حیات کو ویزا دینے کا اعلان کیا ہے جو یہاں ماسٹرز یا ڈاکٹریٹ کی سطح کی تعلیم حاصل کرنے آئیں گے۔نچلے درجے کے کورسز میں زیر تعلیم طلبا اپنے شریک حیات کو سپاؤز ویزا پر کینیڈا مدعو نہیں کر سکیں گے۔ کینیڈا نے یہ قدم وہاں رہائش کے مسئلے کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال کے پیش نظر اٹھایا ہے، کیونکہ ملک میں رہائش کا مسئلہ پیدا ہوا تھا۔کینیڈین حکومت کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اس وقت پورے کینیڈا میں تین لاکھ 45 ہزار مکانات کی کمی ہے۔ جس کے باعث طلبا تہہ خانوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔
مذہبی مقامات اور فوڈ بینکوں کا تعاون
کینیڈا میں ملازمتوں کی کمی کی وجہ سے بہت سے بین الاقوامی طلباء کو روزگار نہیں مل رہا ہے۔روزگار کی کمی اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے کئی طلبہ کو دو وقت کا کھانا کمانے میں دشواری کا سامنا ہے۔ اس کی وجہ سے بہت سے طلباء کو گرو دوراروں اور فوڈ بینکوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔وشال کھنہ برامپٹن میں فوڈ بینک چلا رہے ہیں۔کھنہ کہتے ہیں کہ ’کالج کی فیس، مکان کے کرایے اور روزگار کی کمی کی وجہ سے بہت سے طلبہ سخت مشکلات کا شکار ہیں۔‘کھنہ کے مطابق ’وہ خشک راشن فراہم کر کے ہر ماہ 600 سے 700 طلباء کی مدد کر رہے ہیں۔ گرودواروں میں بین الاقوامی طلبا کی بھیڑ بھی عام طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔کچھ طلبا نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ہمیں بتایا کہ وہ اور ان کے بہت سے دوست بعض اوقات صرف لنگر کھانے کے لیے گرودوارہ جاتے ہیں۔ گرودواروں کے منتظمین بھی ایسے طلبا کی مدد کے لیے آگے آتے ہیں۔
کینیڈا سے واپسی کیوں نہیں ہوتی؟
اکرم سے جب پوچھا گیا کہ اگر یہاں زندگی اتنی مشکل تھی تو وہ انڈیا واپس کیوں نہیں جاتے، تو انھوں نے جواب دیا کہ ’گاؤں والے کیا کہیں گے؟ رشتہ دار کیا کہیں گے؟‘انھوں نے کہا کہ ہم چاہ کر بھی وطن واپس نہیں آ سکتے۔ رشتہ داروں اور معاشرے کے دباؤ کی وجہ سے ہم ایسا نہیں کر سکتے۔ یہ طلبا سوچتے ہیں کہ اگر وہ واپس چلے گئے تو انڈیا میں کینیڈا کے لیے ان کے خوابوں کا کیا ہوگا۔اکرم کہتے ہیں کہ ’جب ہم وطن واپس آئیں گے تو لوگ ہمیں منفی نظر سے دیکھیں گے۔ کینیڈا میں آباد ہونے کا راستہ اس وقت بہت مشکل اور طویل لگتا ہے لیکن پھر بھی وہ اپنی منزل تک ضرور پہنچیں گے۔‘اس منزل کا ’پنجاب لوٹنا‘ کا ذکر اکرم کی شاعری میں بار بار ملتا ہے۔ارپان بھی کینیڈا کی زندگی سے تنگ آچکی ہیں۔ وہ پنجاب واپس آکر اپنے والدین سے ملنا چاہتی ہیں لیکن کینیڈین شہریت نہ ملنا اب بھی اس میں بڑی رکاوٹ ہے۔ارپان کینیڈا کی شہریت حاصل کرنے کے بعد ہی انڈیا واپس آنا چاہتی ہیں۔ارپان اور اکرم جیسے ہزاروں نوجوان اپنے گھر، خاندان اور دوستوں سے دور ہو کر وقت سے پہلے بڑے ہو چکے ہیں، لیکن کیا کوئی پردیس ان سنہرے خوابوں کو پورا کرے گا جو کھلی آنکھوں سے دیکھے گئے تھے؟
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.