بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

’بھلا دیا گیا‘ معرکہ جس نے ایشیا میں دوسری جنگ عظیم کا رخ موڑا تھا

کوہیما: وہ معرکہ جس نے ایشیا میں دوسری جنگ عظیم کا رخ موڑ دیا تھا

پنجاب رجمنٹ

کیپٹن رابن رولینڈ اس تصویر میں درمیان میں بیٹھے ہیں، یہ تصویر سنہ 1945 میں بنکاک میں لی گئی تھی اور ان کے ساتھ ان کی رجمنٹ کے ساتھی ہیں

اتحادی فوج تک رسد پہنچانے کے تمام راستوں کو جاپانی فوجیوں نے تباہ کر دیا تھا اور انھیں رسد پہنچانے کے لیے ہوائی راستے کا سہارا لینا پڑ رہا تھا۔ بہت سے لوگوں نے یہ محسوس کرنا شروع کر دیا کہ اس جگہ پر زیادہ دنوں تک لڑائی جاری رکھنا آسان نہیں ہو گا۔

انڈیا پر حملے کے لیے جاپانی فوج برما (آج کا میانمار) کے راستے کوہیما کی طرف پیش قدمی کر رہی تھی۔

گریسن ہل علاقے کی ایک تصویر

گریسن ہل علاقے کی ایک تصویر

جاپانی فوج برما میں برطانوی افواج کو شکست دے کر آگے بڑھنے میں کامیاب رہی تھی لیکن کسی کو توقع نہیں تھی کہ جانوروں اور مچھروں سے بھرے جنگلات کو عبور کرتے ہوئے وہ منی پور کے دارالحکومت امپھال اور ناگالینڈ کے دارالحکومت کوہیما پہنچ جائیں گے۔

لیکن جب جاپانی فوج واقعتاً کوہیما اور امپھال پہنچی تو برٹش انڈین فوج کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ 15 ہزار فوجیوں پر مبنی جاپانی فوج سے ان دونوں شہروں کو بچائے۔

عسکری حکمت عملی کے لحاظ سے اہم دیماپور شہر پر جاپان کا قبضہ ہو، اسے یقینی بنانے کے لیے یہ جدوجہد کئی ہفتوں تک جاری رہی۔ جاپانی فوج دیماپور کے راستے آسانی سے آسام میں داخل ہو سکتی تھی اور بہت سے لوگوں کو لگا کہ ان شہروں کو بچانا مشکل ہو جائے گا۔

کیپٹن رولینڈ نے یاد کرتے ہوئے کہا ’جاپانی فوجی رات کو سمندر کی لہروں کی طرح آگے بڑھ رہی تھی۔‘

وہاں شدید جنگ جاری تھی اور برطانوی انڈین فوج کوہیما کے قریب گیریسن ہل تک محدود تھی۔ ایک وقت ایسا بھی آيا جب جنگ ہاتھا پائی میں تبدیل ہونے کے قریب تھی اور دونوں اطراف کے سپاہیوں کے مابین صرف ایک ٹینس کورٹ کا فاصلہ رہ گيا تھا۔

لیکن پیچھے سے مدد موصول ہونے تک برٹش انڈین فوج نے کسی نہ کسی طرح محاذ کو سنبھالے رکھا۔ تین ماہ بعد جون سنہ 1944 تک جاپانی فوج کے 7000 فوجی زخمی ہو چکے تھے اور ان کی رسد مکمل طور پر ختم ہو گئی تھی۔ ایسی صورتحال میں سینیئر افسران کے محاذ کو نہ چھوڑنے کے احکامات کے باوجود جاپانی فوج نے برما کی طرف واپسی شروع کردی۔

نقشہ

کیپٹن رولینڈ کا کہنا ہے کہ ’برطانیہ کے 1500 انڈین فوجیوں کے لیے یہ ایک زبردست معرکہ تھا۔ اگر جاپانی گیریسن ہل پر قبضہ کر لیتے تو وہ آسانی سے دیما پور پہنچ سکتے تھے۔‘

برطانوی انڈین فوجیوں کو پیچھے ہٹتے ہوئے جاپانی فوجیوں کا پیچھا کرنے کا حکم دیا گیا اور کیپٹن رابن رولینڈ اس دستے کا حصہ تھے۔

اس جنگ میں جاپان کے بہت سے فوجی ہیضے، ٹائیفائڈ اور ملیریا کی وجہ سے ہلاک ہو گئے جبکہ رسد کے بند ہونے کی وجہ سے فوجیوں کی ایک بڑی تعداد بھوک کی وجہ سے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

فوجی امور کے ماہر اور مورخ رابرٹ لیمان کہتے ہیں کہ ’کوہیما اور امپھال کی جنگ نے ایشیا میں دوسری جنگ عظیم کا رخ موڑ دیا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’پہلی بار جنگ میں جاپانیوں کو شکست ہوئی اور وہ اس شکست سے کبھی نہیں نکل پائے۔‘

یہ معرکہ دوسری جنگ عظیم کا ایک اہم موڑ ثابت ہوا لیکن جس طرح لوگ ’ڈی ڈے‘ یا ’واٹر لُو‘ کی لڑائی اور یورپ اور شمالی افریقہ کی جنگوں کو یاد کرتے ہیں اس طرح وہ اس جنگ کو یاد نہیں کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ بہت سے لوگ اسے ’بھلا دی گئی جنگ‘ بھی کہتے ہیں۔

یارک سٹی کے کوہیما میوزیم کے سربراہ باب کوک کا خیال ہے کہ کوہیما سے دور برطانیہ میں لوگ اس جنگ کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’برطانیہ کے ساحل سے جرمنی 22 میل کے فاصلے پر ہے اور یہاں کے لوگ خوفزدہ رہتے تھے کہ کہیں ان پر حملہ نہ ہو جائے۔‘

رابن رولینڈ

کیپٹن رولینڈ اب 99 سال کے ہیں لیکن انھیں ابھی بھی وہ وقت یاد ہے جب وہ کوہیما شہر میں میدان جنگ کے محاذ کی طرف بڑھ رہے تھے

لیکن اب یہاں کوہیما اور امپھال کی لڑائی کے متعلق معلومات فراہم کرنے کا کام شروع کر دیا گیا ہے۔

سنہ 2013 میں لندن کے امپیریل وار میوزیم میں اس پر گفتگو ہوئی تھی کہ برطانیہ کی سب سے بڑی لڑائی کون سی جنگ تھی۔ اس میں واٹر لو یا ڈی ڈے کے بجائے کوہیما امپھال جنگ کو برطانیہ کی سب سے بڑی لڑائی کے طور پر منتخب کیا گیا تھا۔

کوہیما کی جنگ کے بارے میں اس وقت رابرٹ لیمن نے کہا تھا کہ ’برطانیہ کو اب تک کے سب سے سخت دشمن کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا اور کافی کچھ داؤ پر لگا تھا۔‘

لیکن ایشیا میں ہونے والی اس معرکے کی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے شاید ہی کوئی کوشش کی گئی ہو۔ اس جنگ میں انڈیا سمیت دولت مشترکہ کے ممالک کے ہزاروں فوجیوں نے اپنی جانیں گنوائی تھیں۔

ناگالینڈ کے کوہیما میں رہنے والے تاریخ دان چارلس چیسی کہتے ہیں کہ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس جنگ کے فوراً بعد ہی ملک کی تقسیم کی بات ہوئی اور انڈیا جلد ہی دو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا گیا۔

کوہیما وار میموریل

کوہیما وار میموریل جہاں ٹینس کورٹ جتنے فاصلے پر دونوں فوجیں آمنے سامنے تھیں

وہ کہتے ہیں ’میرے خیال سے اس وقت انڈیا کے قائدین ان کاوشوں میں مصروف تھے کہ تقسیم کی وجہ سے پیدا ہونے والی مشکلات سے اچھی طرح نمٹا جائے اور اچھے طریقے سے اقتدار کی منتقلی ہو۔ معاملات پیچیدہ ہو جانے یا ہاتھ سے نکل جانے سے پہلے انگریزوں نے جلدی میں ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔‘

کوہیما کی جنگ کو اکثر نوآبادیاتی جنگ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ جبکہ جنگ کے بعد انڈیا کی آزادی کی جدوجہد سنجیدہ بحث و مباحثے کا موضوع رہی۔

اس جنگ میں برٹش انڈین آرمی کے علاوہ ناگا برادری کے افراد نے بھی برطانیہ کی جانب سے اس جنگ میں حصہ لیا تھا۔ وہ فوج کو ضروری معلومات فراہم کر رہے تھے۔ اس پہاڑی علاقے کے بارے میں ان کی معلومات سے برٹش انڈین فوج نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔

کوہیما کی جنگ میں حصہ لینے والے ناگا کے کچھ لوگ ابھی بھی زندہ ہیں۔ 98 سالہ سوسانگ تیمبا آؤ ان میں سے ایک ہیں۔

وہ یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’جاپانی بمبار ہوائی جہاز ہر روز آسمان سے ہم پر بم پھینکتے تھے۔ ان جہازوں کی آواز بہت تیز تھی اور ہر حملے کے بعد آسمان میں دھویں کا غبار دیکھا جاتا تھا۔ یہ تکلیف دہ منظر تھا۔‘

قبریں

ایک روپیہ یومیہ اجرت پر انھوں نے دو ماہ تک برطانوی انڈین فوج کے ساتھ کام کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ آج بھی وہ جاپانی فوج کے لڑائی کے طریقوں کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔

وہ کہتے ہیں ’جاپانی فوج کا حوصلہ بہت بلند تھا۔ ان کے سپاہی موت سے نہیں ڈرتے تھے۔ ان کے نزدیک شہنشاہ کے لیے لڑنا خدا کے لیے لڑنے کے مترادف تھا۔ جب ان سے ہتھیار ڈالنے کو کہا جاتا تو وہ دشمن پر خودکش حملے کرتے تھے۔‘

حال ہی میں اس جنگ سے متعلق ’میموریز آف فارگوٹن وار‘ کے عنوان سے ایک دستاویزی فلم آن لائن جاری کی گئی ہے۔ جب یہ دستاویزی فلم جاری کی گئی تو یہ جاپانی فوج کے ہتھیار ڈالنے کی 75ویں سالگرہ کے قریب کا وقت تھا۔

دستاویزی فلم کے پروڈیوسر سوبیمل بھٹاچاریہ اور ان ٹیم نے بہت سال قبل جاپان کا دورہ کیا تھا اور جنگ کی یاد میں منعقدہ ایک تقریب میں شرکت کی تھی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’جاپان اور برطانیہ کے سابق فوجی، جنھوں نے جنگ میں حصہ لیا تھا ایک دوسرے سے گلے ملتے ہی رو پڑے۔ ایک دوسرے پر فائرنگ کرنے والے فوجی بھی وہاں موجود تھے لیکن ان کے مابین ایک خاص تعلق تھا۔ ہمیں اس کی توقع نہیں کی تھی۔‘

وار میموریل

یہ شکست جاپانی فوج کے لیے توہین آمیز تھی اس لیے سابق جاپانی فوجی کوہیما جنگ کے بارے میں اپنے تجربے کے بارے میں شاذونادر ہی بات کرتے ہیں۔

اس دستاویزی فلم میں واجیما کوچیرو کا ایک انٹرویو شامل ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’جاپانی فوجیوں کے پاس کھانے کے لیے کچھ نہیں بچا تھا۔ ہم ایک ایسی جنگ لڑ رہے تھے جس میں شکست یقینی تھی اور اسی وجہ سے ہم پیچھے ہٹنے لگے۔‘

جنگ میں ناگا قبائلیوں کی ایک بڑی تعداد بھی ہلاک ہوئی تھی۔ انھیں بھی اس دوران بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ انھیں یہ امید تھی کہ اقتدار کی منتقلی کے دوران برطانیہ انڈیا سے علیحدہ انھیں ایک ناگا ملک کی حیثیت سے نئی شناخت دے گا۔

مورخ چارلس چیسی کہتے ہیں کہ ان کی ’امیدیں پوری نہیں ہوئیں‘ اور بعد میں بہت سے لوگوں نے انھیں انڈین حکومت اور فوج کے ساتھ ہونے والے تصادم میں ہلاک ہونے والے ہزاروں ناگا لوگوں کا ذمہ دار ٹھہرایا۔

سوسانگ تیمبا

کوہیما کی جنگ میں حصہ لینے والے ناگا کے سوسانگ تیمبا آؤ کی عمر اس وقت 98 برس ہے

سنہ 2002 میں کیپٹن رولینڈ انڈین فوج کے پنجاب رجمنٹ کی دعوت پر اپنے بیٹے کے ہمراہ کوہیما گئے تھے۔ وہ گیریسن ہل کے قریب وہیں کھڑے ہوئے جہاں 58 سال قبل وہ جاپانی فوج کے خلاف اپنے ساتھی فوجیوں کے ساتھ کھڑے تھے۔

کیپٹن رولینڈ اپنے بیٹے کے ساتھ گیریسن ہل کے قریب وار میموریل پہنچے اور اپنے ساتھی فوجیوں کو یاد کیا۔

پرانی چیزوں کو یاد کرتے ہوئے کیپٹن رولینڈ نے کہا: ’میری یادیں اس جگہ سے وابستہ ہیں۔ یہ واقعتاً ایک بہت بڑا فوجی کارنامہ تھا۔‘

وہ یہ تسلیم کرتے ہیں اس دور کے دوسرے بڑے معرکوں کی فہرست میں اس معرکے کو شامل نہیں کیا گیا لیکن جو لوگ وہاں تھے وہ اسے کبھی نہیں بھول پائیں گے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.