بھارتی ریاست مدھیا پردیش میں ہندو نام استعمال کرنے کا الزام لگا کر مشتعل افراد نے ایک مسلمان منہیار (چوڑی فروش) کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنا ڈالا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق تسلیم نامی چوڑی بیچنے والے مسلمان پر دو آدھار کارڈ رکھنے کا بھی الزام لگاڈالا۔
دوسری جانب نام نہاد سیکولر اسٹیٹ کا دعویٰ کرنے والے بھارت کی اس ریاست کے وزیر داخلہ نے ہندو مشتعل افراد کا دفاع بھی کیا۔
وزیر داخلہ مروتم مشرا نے اپنے بیان میں یہ منطق پیش کی کہ جب کوئی نام، ذات اور مذہب تبدیل کرنے کا جھوٹا دعویٰ کرے گا تو پھر اس طرح کی کڑواہٹ پیدا ہوگی۔
دوسری جانب وہ یہ کہتے ہوئے بھی نظر آئے کہ اس واقعے کو مذہبی رنگ نہیں دیا جانا چاہیے۔
رپورٹس کے مطابق نا صرف مشتعل انتہا پسندوں نے اس مسلمان چوڑی فروش کو تشدد کا نشانہ بنایا بلکہ اس سے 10 ہزار روپے کی بھاری رقم بھی چھین لی۔
اس حوالے سے سوشل میڈیا پر زیر گردش ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مشتعل افراد تسلیم کو مار پیٹ رہے ہیں جبکہ انہیں سڑک پر گھسیٹ بھی رہے ہیں۔
مشتعل افراد مذہبی نعرے لگاتے بھی دکھائی دے رہے ہیں جبکہ تمام تر تماشا دیکھنے والے ہجوم میں سے کسی کی بھی اس شخص کو بچانے کی ہمت نہیں ہوئی۔
بعدازاں متاثرہ مسلمان شخص نے مشتعل ہجوم کے خلاف تھانے میں درخواست جمع کروائی اور کہا کہ ملزمان نے پہلے اس سے اس کا نام پوچھا اور جیسے ہی نام بتایا تو فوراً مارنا پیٹنا شروع کردیا۔
تسلیم نے اپنی درخواست میں بتایا کہ مشتعل ہجوم ان سے ان کے نا صرف 10 ہزار روپے چھین کر لے گیا بلکہ ان کے پاس بیچنے کے لیے موجود چوڑیوں کو بھی توڑ کر انہیں ناکارہ بنادیا۔
Comments are closed.