’بکنی کِلر‘: شناخت بدلنے کے ماہر اور سیاحوں کے قتل میں سزا یافتہ چارلس سوبھراج رہائی کے بعد نیپال بدر
’بکنی کِلر‘: شناخت بدلنے کے ماہر اور سیاحوں کے قتل میں سزا یافتہ چارلس سوبھراج رہائی کے بعد نیپال بدر
بی بی سی کی سیریز ’دا سرپینٹ‘ میں اداکار طاہر رحیم چارلس سوبھراج اور جینا کولمین ان کی گرل فرینڈ کا کردار ادا کیا
اپنی پہچان بدلنے میں وہ ماہر تھا، اس لیے اسے پکڑنا آسان نہیں تھا۔ اس شخص نے 70 اور 80 کی دہائیوں میں دنیا کے کئی ممالک کی پولیس کی ناک میں دم کر رکھا تھا۔
یہ وہ دور تھا جب ایشیائی خطے میں مغربی ممالک سے آنے والے ’ہِپی‘ سیاحوں کی خاصی دلچسپی ہوا کرتی تھی۔ مہینوں گھر سے دور رہنے والے ایسے ہی بعض ’ہِپی‘ سیاح بدنام زمانہ قاتل چارلس سوبھراج نامی شخص کا شکار ہوئے۔
فرانسیسی سیریل کلر چارلس سوبھراج کو نیپال کی سپریم کورٹ سے رہائی کے بعد جمعے کو ملک بدر کرتے ہوئے فرانس بھیج دیا گیا ہے۔ اور ان پر دس سال تک نیپال نہ آنے کی پابندی لگائی گئی ہے۔
چارلس سوبھراج کی عمر اس وقت تقریباً 78 برس ہے اور انھوں نے سنہ 1975 میں دو شمالی امریکی سیاحوں کو قتل کرنے کے جرم میں 19 برس نیپال میں جیل کاٹی ہے۔
نیپال کی سپریم کورٹ نے ان کی رہائی کا فیصلہ ان کی عمر اور دوران قید اچھے اخلاق کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔ سوبھراج کی عمر 78 سال ہے اور وہ دل کے عارضے میں مبتلا ہے۔
نیپال کے قانون کے مطابق اگر کوئی قیدی اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرے اور اپنی سزا کا 75 فیصد کاٹ چکا ہو تو اسے رہائی دی جا سکتی ہے۔
سوبھراج دو امریکی سیاحوں کے قتل کے الزام میں 2003 سے نیپال کی جیل میں قید تھے۔
عدالت نے حکم دیا ہے کہ مجرم کی رہائی کے 15 دن کے اندر اسے ملک بدر کر دیا جائے۔
جمعے کو نیپال سے ملک بدری سے قبل اے ایف پی کے ساتھ ایک انٹرویو میں سوبھراج نے کہا کہ انھیں آزادی ملنے پر ’بہت اچھا‘ لگا، لیکن وہ نیپالی حکومت کے خلاف قانونی کارروائی کریں گے۔
70 اور 80 کی دہائیوں میں دنیا کے کئی ممالک کی پولیس کی ناک میں دم کر دینے والے اس مجرم کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچانا آسان نہیں تھا۔
چارلس سوبھراج کون ہے؟
چارلس سوبھراج کی نیپال سے روانگی کے وقت لی گئی تصویر
اپنی شناخت بدلنے کی غیر معمولی صلاحیت اور نوجوان خواتین کو ہدف بنانے کی فطرت کے سبب دنیا سوبھراج کو ’دا سرپینٹ‘ اور ’بکنی کِلر‘ جیسے ناموں سے بھی پہچاننے لگی تھی۔
خیال ہے کہ سوبھراج کو ’بکنی کِلر‘ اس لیے کہا جاتا ہے کیوں کہ اس کا شکار ہونے والی خواتین کی لاشیں اکثر بکنیز میں ملا کرتی تھیں۔
گذشتہ برس بی بی سی کی ایک سیریز ’دا سرپینٹ‘ خاصی دلچسپی سے دیکھی گئی۔ یہ 70 اور 80 کی دہائیوں میں دھوکہ بازی، لوٹ مار اور قتل کی وارداتوں کے لیے دنیا کے کئی ممالک میں مطلوب شخص چارلس سوبھراج کی زندگی پر مبنی ہے۔
جب موت کی سزا سے بچنے کے لیے سوبھراج جیل گئے
نیپال کی جیل میں قید سوبھراج پر انڈیا، تھائی لینڈ، نیپال، ترکی اور ایران میں قتل کے 20 سے زیادہ الزامات عائد ہوئے لیکن 2004 سے قبل کوئی بھی سوبھراج کو قتل کا مجرم ثابت نہیں کر سکا۔
سوبھراج جانتا تھا کہ اسے کن ممالک کی پولیس کے ہاتھ نہیں آنا ہے، کیوں کہ ان ممالک میں قتل ثابت ہونے پر اسے موت کی سزا دی جا سکتی تھی، مثال کے طور پر تھائی لینڈ میں۔
انڈیا میں فرانسیسی سیاحوں کو زہر دینے کے معاملے میں گرفتار ہونے کے بعد وہ 20 برس انڈین جیل میں قید رہا۔
اصل میں سزا اتنی طویل نہیں تھی اور انڈیا میں سزا ختم ہونے پر سوبھراج کو تھائی لینڈ پولیس کی تحویل میں دیا جانا تھا۔ سوبھراج کو معلوم تھا کہ تھائی لینڈ میں اگر قتل ثابت ہو گیا تو اسے موت کی سزا مل سکتی تھی۔
اس لیے انڈیا میں سزا مکمل ہونے سے کچھ عرصہ قبل ہی سوبھراج جیل سے فرار ہو گیا اور کچھ روز بعد دوبارہ جب پکڑا گیا تو اس کی سزا دس برس بڑھا دی گئی۔
اس طرح انڈیا کی جیل میں 20 برس مکمل ہونے کے بعد 1997 میں جب سوبھراج رہا ہوا تب تک تھائی لینڈ میں اس کے خلاف وارنٹ کی معیاد ختم ہو چکی تھی۔
سوبھراج اپنی شناخت کیسے بدلتا تھا
سوبھراج کو پکڑنا اس لیے بھی مشکل تھا کہ وہ اپنی شناخت تبدیل کر کے مختلف ممالک کا سفر کیا کرتا تھا۔ وہ بڑی ہوشیاری سے ان لوگوں کے پاسپورٹ خود اپنی شناخت بدلنے کے لیے استعمال کرتا جنہیں وہ قتل کرتا تھا۔ پاسپورٹ پر تصویر بدلنا اور فرضی پاسپورٹ تیار کرنا اس کے لیے مشکل نہیں تھا۔
ماہرین کے مطابق اس کے جرائم کا طریقہ ہمیشہ ایک جیسا رہا۔ وہ سیاحوں کے درمیان خود کو جواہرات اور منشیات کے ڈیلر کے طور پر پیش کرتا تھا۔
منشیات کا استعمال کرنے والے فرانسیسی اور انگریزی بولنے والے سیاحوں سے دوستی کرتا اور پھر انھیں قتل کر دیتا۔
سوبھراج پر مقدمات اور ڈچ سفارتکار کا کردار
سوبھراج پر مختلف اوقات میں قتل کے 20 سے زیادہ الزامات عائد ہوئے۔ ان تمام معاملوں میں متاثرین کو پہلے نشے کی دوا دی گئی اور پھر انھیں مارا گیا۔ چند معاملوں میں انھیں قتل کر کے ان کی لاشوں کو جلا دیا گیا۔
ایسے ہی دو متاثرین نیدرلینڈز کے شہری تھے۔ اس جوڑے کو تھائی لینڈ میں قتل کر کے جلا دیا گیا تھا۔ ان دونوں کی ہلاکت کی اپنے طور پر تفتیش کرنے والے ڈچ سفارتکار ہرمن کنیپنبرگ اور ان کی اہلیہ اینگلا کین نے سوبھراج کے خلاف ثبوت اکٹھا کرنے اور جرائم کی تفتیش میں مختلف ممالک کے تعاون کے بین الاقوامی ادارے انٹرپول کی نظر میں یہ معاملہ لانے میں اہم کردار ادا کیا۔
کنیپنبرگ نے اپنی تحقیقات کے دوران سوبھراج کے خلاف جو تصاویر اور پاسپورٹز حاصل کیے تھے انھیں آخر کار نیپال میں سوبھراج کے خلاف مقدمے میں استعمال کیا گیا۔
جیل سے بار بار فرار
جتنا مشکل سوبھراج کو پکڑنا تھا، اتنا ہی مشکل اسے فرار ہونے سے روکنا بھی سمجھا جاتا تھا۔
سوبھراج یا تو پولیس کو چکما دے کر جیل سے فرار ہو جاتا یا جیل میں اہلکاروں کو رشوت دے کر تمام سہولیات وہیں فراہم کروا لیتا۔ انڈین جیل میں اس کے پاس ٹی وی، عمدہ کھانا اور سگریٹ جیسی تمام اشیا کی فراہمی وہ اہلکار یقینی بناتے تھے جنہیں مبینہ طور پر سوبھراج نے رشوت دے کر دوست بنایا ہوا تھا۔
سوبھراج انڈیا کے علاوہ افغانستان، ایران اور یونان کی جیلوں سے بھی فرار ہونے میں کامیاب رہا۔
چارلس سوبھراج کی پہلی گرفتاری
سوبھراج نے جرائم کا آغاز 1963 میں ایشیا کے دورے کے دوران کیا تھا۔
اسی دوران دلی کے اشوکا ہوٹل میں لوٹ مار کے معاملے میں سوبھراج کو دلی میں پہلی بار گرفتار کیا گیا تھا۔ اس وقت بھی سوبھراج جیل سے فرار ہونے میں کامیاب رہا تھا۔
ہوا کچھ یوں کہ اپینڈکس کے درد کا بہانا کر کے وہ جیل سے ہسپتال پہنچا اور وہاں سے بھاگنے میں کامیاب رہا۔
اگلی بار 1976 میں جب وہ دوبارہ گرفتار ہوا تو دس برس بعد جیل سے بھاگنے کا کہیں زیادہ خطرناک طریقہ اختیار کیا۔
سوبھراج نے جیل میں ایک دعوت کا انعقاد کیا۔ اس دعوت میں قیدیوں کے علاوہ جیل اہلکاروں کو بھی مدعو کیا گیا۔
دعوت میں کھلائے جانے والے بسکٹ اور انگوروں میں نیند کی دوا ملا دی گئی تھی۔ تھوڑی دیر بعد سوبھراج اور اس کے ساتھ چار مزید قیدیوں کے علاوہ باقی سبھی نڈھال ہو گئے۔
اس طرح سوبھراج اور چار قیدی جیل سے فرار ہو گئے۔ اس دور کے اخباروں کے مطابق سوبھراج کے تکبر کی اس وقت یہ حد تھی کہ جیل کے باہر دروازے پر اس نے تصویر بھی کھنچوائی۔
سوبھراج الفاظ کا کھیل بہت اچھی طرح جانتا تھا۔ ریچرڈ نیول کی لکھی سوبھراج کی سوانح حیات میں انھوں نے کہا تھا ‘جب تک میرے پاس لوگوں سے بات کرنے کا موقع ہے، میں انہیں بہلا پھسلا سکتا ہوں۔’
یہ بھی پڑھیے
سوبھراج کا ساتھ دینے والی خاتون اور سزا
نیپالی خاتون نہیتا بسواس نے چارلس سے جیل میں شادی کرنے کا دعویٰ کیا تھا
1997 میں انڈیا کی جیل میں اپنی سزا مکمل کرنے کے بعد 2003 میں سوبھراج ایک بار پھر نیپال پہنچا، جہاں اسے گرفتار کر لیا گیا۔ اس سے پہلے سوبھراج 70 کی دہائی میں اپنی اس وقت کی گرل فرینڈ مری اینڈی لیکریک کے ساتھ نیپال کا سفر کر چکا تھا۔
سوبھراج پر نیپال میں قتل کے الزامات تھے اس لیے اس بارے میں بہت سی قیاس آرائیاں کی جاتی ہیں کہ آخر وہ خود ہی نیپال کیوں چلا گیا اور اس کی اصل وجہ تو شاید وہ صرف خود ہی جانتا ہے۔
سوبھراج پر 28 برس قبل فرضی پاسپورٹ پر نیپال جانے اور کینیڈین شہری اور ایک امریکی خاتون کے قتل کے الزام تھے۔ سوبھراج نے تب بھی ان الزامات کو مسترد کیا، لیکن پولیس کا دعویٰ تھا کہ ان کے پاس معقول ثبوت موجود ہیں۔
اصل میں جب سوبھراج کی انڈیا میں گرفتاری ہوئی تب ان کی گرل فرینڈ مری اینڈی لیکریک کو بھی گرفتار کر لیا گیا تھا۔
1976 میں انڈیا میں گرفتاری کے وقت مری نے جو بیان دیا تھا اس میں انھوں نے قبول کیا تھا کہ انھوں نے تھائی لینڈ میں بھی سوبھراج کی جرائم میں مدد کی تھی۔ مری نے سوبھراج کے ساتھ فرضی پاسپورٹ پر نیپال جانے اور اس دوران ہونے والے قتل کی تفصیلات بھی پولیس کو بتائی تھیں۔
ان کے اس بیان نے نیپال میں سوبھراج کا جرم ثابت کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ حالانکہ جب یہ مقدمہ چلا تب تک مری حیات نہیں تھیں۔ کینسر کے مرض کی وجہ سے 1984 میں ان کی موت ہو چکی تھی۔
بلآخر نیپال میں سنہ 2004 میں سوبھراج کو دسمبر 1975 میں کیے گئے ایک قتل کے جرم میں قید کی سزا سنائی گئی۔ اگلے چند برسوں میں اس سزا کے خلاف سوبھراج کی دو اپیلیں مسترد ہوئیں۔
سنہ 2014 میں نیپال کی ایک عدالت نے سوبھراج کو دسمبر 1975 میں کیے گئے ایک دوسرے قتل میں مزید 20 برس قید کی سزا سنائی جس کے خلاف مجرم نے کوئی اپیل نہیں کی۔
کہا جاتا ہے کہ مری سوبھراج سے بہت محبت کرتی تھیں اور تھائی لینڈ میں جب وہ مقامی خواتین کے ساتھ تعلقات قائم کرتے تھے تو وہ خود ان معاشقوں کو کاروبار کے لیے ضروری بتا کر نظر انداز کر دیا کرتی تھیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ نیپال میں سزا کے دوران بھی ایک نیپالی خاتون نہیتا بسواس نے دعویٰ کیا کہ ان کی اور چارلس کی جیل میں شادی ہو گئی ہے۔ حالانکہ جیل کے اہلکار نہیتا کے ان دعووں کو مسترد کرتے ہیں۔
کیا تلخ ماضی نے سوبھراج کو مجرم بنایا؟
ماضی میں شاید ان باتوں پر اتنا غور نہیں کیا جاتا ہو لیکن آج اس بات کو خاصی توجہ دی جاتی ہے کہ کسی کے مجرم بننے میں کیا اس کے حالات کا بھی ہاتھ رہا؟
سوبھراج کے معاملے میں اس بارے میں یقینی طور پر کچھ کہنا ممکن نہیں، لیکن یہ ضرور ہے کہ سوبھراج کے والد نے اسے اپنانے سے انکار کر دیا تھا۔
سوبھراج کے دل میں اپنے والد کے خلاف بہت غصہ تھا۔ سوبھراج نے اپنی ڈائری میں لکھا تھا ’میں آپ کو اس بارے میں افسوس ظاہر کرنے پر مجبور کر دوں گا کہ آپ نے ایک والد ہونے کا فرض ادا نہیں کیا۔‘
ویتنام کے شہر سائیگان میں 6 اپریل 1944 کو پیدا ہونے والے چارلس سوبھراج کی پرورش فرانس میں ہوئی تھی۔
لیکن جرائم کے لیے انھوں نے دنیا کے مختلف ممالک خاص طور پر ایشیائی ممالک کا رخ کیا۔
چارلس سوبھراج کی والدہ کا تعلق ویتنام سے تھا اور والد انڈین تھے۔ ان دنوں سائیگان پر جاپان کا قبضہ تھا۔ فرانسیسی کالونی ہونے کے سبب انھیں فرانسیسی شہریت حاصل ہو گئی۔
سوبھراج کی زندگی کی کہانی اتنی غیر معمولی ہے کہ جب 1997 میں وہ انڈیا کی جیل سے آزاد ہو کر فرانس پہنچے تو فرانس کے ایک اداکار اور پروڈیوسر نے ان سے ان کی زندگی پر فلم اور کتاب کے حقوق مبینہ طور پر ایک کروڑ پچاس لاکھ ڈالر میں خرید لیے۔
سنہ 2015 میں ریلیز ہونے والی بالی وڈ فلم ’میں اور چارلز‘ میں چارلس سوبھراج کا کردار ادا کرنے والے رندیپ ہوڈا نے دعویٰ کیا تھا کہ امیتابھ بچن کی فلم ‘ڈان’ کا مشہور ڈائیلاگ سوبھراج کی زندگی سے متاثر تھا: ‘ڈان کا انتظار تو 11 ملکوں کی پولیسں کر رہی ہے۔‘
Comments are closed.