بین الاقوامی شہرت یافتہ فنکارہ بشریٰ انصاری نے کراچی میں منعقدہ ’’ملکہ تبسم شو‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے اپنے بارے میں بتایا کہ شادیوں میں شرکت سے خوف آتا ہے، بےنظیر بھٹو، نازیہ حسن اور بانی متحدہ کی شادی میں شریک نہیں ہوئی۔
انہوں نے کہا میری بہنیں پریوں کی طرح لگتی تھیں، لاہور میں لبرٹی مارکیٹ جاتیں تو ان کے رشتوں کی لائنیں لگ جاتی تھیں۔ مجھے بچپن میں گھر والے ’کلو‘ کہتے تھے، کیوں کہ میں بہن بھائیوں میں سانولی تھی، جب کہ میری والدہ بالکل انگریز لگتی تھیں۔
1981 میں ایک سال کی بیٹی کو گود میں لے کر کراچی آئی تھی۔ ایم کیو ایم والے مجھے مہاجر سمجھتے رہے۔ ہدایت کار داور محمود 8 برسوں سے میرے پیچھے پڑا ہوا تھا، میں نے اسے کہا بھائی!! جیسے بیرون ممالک میں شو ہوتے ہیں، اس طرح کا میں نہیں کرسکتی۔
بہروز سبزواری میری سہیلی ہے، اس کے ساتھ دُنیا بھر میں شوز کیے۔ میں 16 برس کی عمر میں بہت دُبلی پتلی ہوتی تھی۔ بہن کے انتقال کے بعد ڈھائی برس تک والدہ سے سنبل بن کر ٹیلی فون پر باتیں کرتی تھی۔
میری اور سنبل کی آواز اور انداز گائیکی یکساں تھا۔ والدہ کی قبر پر گئی تو ایک صاحب مِل گئے اور اپنے ساتھ سیلفیاں بنوانے کی ضد کرنے لگے۔
عمرہ پر گئی تو طواف کے دوران ایک خاتون نے پہچان لیا اور کہا کہ آپ بشریٰ انصاری ہیں۔ میں نے کہا، جی ہاں۔ وہ جواب میں بولیں’’ آپ اور یہاں‘‘۔
ملکہ ترنم نور جہاں کی نقل کرکے بہت اچھا لگتا تھا۔ ان کے انتقال کے بعد ان کی فیملی سے ان کی استعمال کی ہوئی ساڑھی لی، جو میں اب بھی پہنتی ہُوں۔ ساڑھی پہننے کا جنون ہے۔ اتنی ساری ساڑھیاں ہیں کہ ان کو فروخت کرکے بیرون ملک فلیٹ لے سکتی ہوں۔
Comments are closed.