بچپن میں ریپ کرنے پر دادا کو سزا دلوانے والی لڑکی: ’مجھے لگتا تھا کہ سب دادا ایسا ہی کرتے ہیں‘
- مصنف, ایلیسن ہولٹ
- عہدہ, سوشل افیئرز ایڈیٹر
انتباہ: اس مضمون میں ایسی تفصیلات شامل ہیں جو چند قارئین کے لیے پریشان کن ہو سکتی ہیں۔
ایک نوجوان لڑکی، جنھوں نے اپنے دادا کو بچپن میں ریپ کرنے کے جرم میں جیل بھجوانے میں اہم کردار ادا کیا، نے اپنی کہانی اس امید پر سنائی ہے کہ ایسے مقدمات میں متاثرہ افراد کی مدد ہو سکے۔
18 سالہ پوپی نے اپنا نام بھی ظاہر کر دیا ہے کیوں کہ ان کا خیال ہے کہ اگر لوگ ایسے معاملے میں کسی کا چہرہ دیکھ سکیں تو وہ اس سے تعلق جوڑ سکتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ کیسے بچپن میں ان کو لگتا تھا کہ ان کے ساتھ جو ہوا وہ ’نارمل‘ تھا اور کیسے 11 سال کی عمر میں اس بارے میں اپنے والدین کو بتانے سے ان کو بہتر محسوس ہوا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’کھل کر بات کرنے سے ہی دوسرے لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ ایسے واقعات کسی بھی خاندان میں ہو سکتے ہیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’ہم کیوں چھپ کر رہیں، یہ جرم ہے۔‘
وہ ایک ایسے وقت کھل کر بات کر رہی ہیں جب انگلینڈ میں بچوں سے جنسی ہراسانی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس سال مارچ کے مہینے تک بچوں کے خلاف ایسے ایک 105542 واقعات رپورٹ ہوئے۔
بی بی سی کے لیے ان اعداد و شمار کا تجزیہ سینٹر آف ایکسپرٹیز آن چائلڈ سیکسوئل ابیوز نے کیا ہے جن کا کہنا ہے کہ گزشہ چھ سال کے دوران ریکارڈ ہونے والے واقعات میں 57 فیصد اضافے کی وجہ آگہی ہے۔
تقریبا نصف کیسز ایسے ہیں جن میں بچوں سے جنسی پراسانی خاندانی ماحول میں ہی ہوئی۔ اور اسی لیے پوپی کا ماننا ہے کہ کھل کر بات کرنا فائدہ مند ثابت ہو گا۔
یہ موسم گرما کا دن ہے اور کینٹ کے ایک مصروف ہوائی اڈے پر پوپی کو پیراشوٹ پہنایا جا رہا ہے۔ اے لیول مکمل کرنے کے چار دن بعد اور اپنی 18ویں سالگرہ سے ایک ہفتہ قبل وہ ایک خیراتی ادارے کے لیے پیسے اکھٹے کرنے کے لیے جہاز سے چھلانگ لگانے والی ہیں۔ اس ادارے نے ان کی مدد کی تھی۔
ان کی والدہ ان کے ساتھ موجود ہیں۔ پوپی کے والد یہاں موجود نہیں لیکن جہاز پر چڑھنے سے پہلے انھوں نے اپنے والد سے ویڈیو کال پر بات کی۔
یہ ایک ایسا خاندان ہے جس نے کافی مشکل وقت دیکھ رکھا ہے۔
ان کا خیال ہے کہ پوپی کے ساتھ سب سے پہلا واقعہ اس وقت پیش آیا جب وہ ابھی بہت چھوٹی تھیں۔
پوپی کہتی ہیں کہ ’مجھے لگتا تھا کہ دادا ایسے ہی کرتے ہیں۔‘ ان کے دادا اکثر ان کے ساتھ وقت بتاتے تھے۔
پوپی کہتی ہیں کہ جب بچوں کا پروگرام ختم ہوتا تھا تو ہراسانی شروع ہوتی تھی۔
آج وہ کافی سمجھدار ہیں لیکن جب وہ اپنے ماضی کے بارے میں بات کرتی ہیں تو کبھی کبھار الفاظ کا چناؤ ان کے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔
وہ بتاتی ہیں کہ ’ہمیشہ آغاز اس طرح ہوتا تھا کہ وہ کہتے کہ تم آ کر مجھے کپڑے پہننے میں مدد کر سکتی ہو؟ اور پھر مجھے ان کے کمرے میں جانا پڑتا۔ پھر وہ مجھے کچھ کرنے پر مجبور کرتے اور میرے ساتھ بھی کرتے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ان کو بہت شرمندگی ہوتی تھی اور انھیں لگتا تھا کہ غلطی ان کی ہی ہے۔
پانچ سال کی عمر میں انھوں نے اپنی والدہ کو بتانے کی کوشش کی۔
اسی دن کی ایک تصویر میں سنہرے بالوں والی ایک چھوٹی سی بچی کو اپنے والدین کی جانب دیکھ کر مسکراتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
پوپی کی والدہ میرانڈا کہتی ہیں کہ ’اس نے ہمیں بتانا شروع کیا اور پھر ہنسنے لگی۔ ہمیں سمجھ ہی نہیں آئی کہ وہ کیا بتانے کی کوشش کر رہی ہے۔‘
ان کو لگا کہ پوپی نے اپنے دادا کو نہاتے ہوئے دیکھ لیا ہے۔ پوپی کے والد ڈیوڈ نے اپنے والد جان، یعنی پوپی کے دادا سے بات کی۔
ڈیوڈ بتاتے ہیں کہ ’ان کا فوری ردعمل تھا کہ شاید میں نے اس کے سامنے کپڑے بدلے ہوں۔‘ جان نے وعدہ کیا کہ ایسا پھر نہیں ہو گا۔
اس کے بعد جنسی ہراسانی رک گئی لیکن جیسے جیسے پوپی کی عمر بڑھتی رہی، ان کی پریشانی بھی بڑھتی رہی۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کی شرمندگی ان کو ’زندہ کھا رہی تھی۔‘
جب سکول میں 10 اور 11 سال کی عمر میں ان کو جنسی ہراسانی کے بارے میں علم ہوا تو ان کو یہ احساس ہونا شروع ہوا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا تھا۔
وہ بتاتی ہیں کہ ’میں وہاں بیٹھی سوچ رہی تھی کہ یہ میرے ساتھ ہو چکا ہے۔ یہ میں ہوں، یہ شرمناک ہے۔‘
سینٹر آف ایکسپرٹیز آن چائلڈ سیکسوئل ابیوز کا اندازہ ہے کہ ہر 10 میں سے ایک بچے کے ساتھ 16 سال کی عمر تک کسی نہ کسی شکل میں جنسی ہراسانی کا ایسا واقعہ پیش آتا ہے جو ان کی زندگی کو متاثر کرتا ہے۔
ایک دن جب پوپی بیمار تھیں، ان کی والدہ نے ان کو باہر چلنے کے لیے کہا۔ اسی دن پوپی نے ہمت کی اور انھیں بتا دیا۔
پوپی کی والدہ میرانڈا
میرانڈا بتاتی ہیں کہ ’یہ بیمار کر دینے والی بات تھی۔ اس نے میرے چہرے کے تاثرات دیکھے تو کہا کہ امی کسی کو مت بتائیں۔ میں نہیں چاہتی کہ ان کو کچھ ہو۔ میں ان سے پیار کرتی ہوں۔ یہ میری غلطی ہے۔ میں اچھی انسان نہیں ہوں۔‘
میرانڈا کہتی ہیں کہ ان کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اب کیا کریں۔ ’میں بس اسے محفوظ رکھنا چاہتی تھی۔‘
پوپی کہتی ہیں کہ ان کو اپنی والدہ کے ردعمل کے بارے میں تشویش تھی لیکن ان کو بہت بہتر محسوس ہوا۔
وہ دونوں گھر پہنچے تو میرانڈا بتاتی ہیں کہ وہ بہت روئیں کہ ’اب میں ڈیوڈ کو کیسے بتاؤں۔‘ انھوں نے اپنے شوہر کو فون کیا۔
ڈیوڈ بتاتے ہیں کہ ’مجھے اپنے والد کے بارے میں پولیس کو بتانے کا فیصلہ کرنا تھا۔ یہ بہت مشکل تھا لیکن یہ میری بیٹی کا معاملہ تھا اور وہ میری پہلی ترجیح تھی۔‘
چند ہی گھنٹوں کے اندر جان کو گرفتار کر لیا گیا۔
کینٹ پولیس کی ڈیٹیکٹو کانسٹیبل ڈینیز اسلان نے پوپی سے پچھ گچھ کی۔ ان کو اب بھی ایک 11 سالہ بچی کی پریشانی یاد ہے۔ یہ پہلا موقع تھا جب پوپی کو بتانا پڑ رہا تھا کہ ان کے ساتھ اصل میں ہوا کیا تھا۔
ڈیٹیکٹو ڈینیز اسلان
ڈیبنیز اسلان کہتی ہیں کہ ’بچے کے ساتھ جنسی ہراسانی سنجیدہ معاملہ ہے لیکن 13 سال سے کم عمر بچی کے ریپ سے زیادہ سنجیدہ کچھ نہیں ہو سکتا۔‘
وہ کہتی ہیں کہ پوپی کے دادا نے اپنا جرم تسلیم نہیں کیا۔
جب میرانڈا نے مجھے اس لمحے کے بارے میں بتایا جب پولیس ان کو تفصیلات سے آگاہ کر رہی تھی تو ان کی آواز بیٹھ گئی۔
وہ کہتی ہیں کہ ’وہ اس کا ریپ کر رہا تھا اور یہ خود کو ذمہ دار سمجھ رہی تھی۔ کسی بچے کو خود کو ذمہ دار نہیں سمجھنا چاہیے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’پوپی ہمیں کبھی بھی یہ تفصیل نہ دیتی۔‘
ڈیوڈ کے لیے ایک پریشان کن مسئلہ یہ بھی تھا کہ جنسی ہراسانی کرنے والا ان کا باپ تھا۔
’وہ میری بیٹی سے ایسا کرتا تھا اور پھر پانچ منٹ بعد ہمارے ساتھ بیٹھ کر چائے پیتا تھا۔ میں نے سوچا یہ شخص کون ہے؟‘
جان کے خلاف مقدمے کو ٹرائل تک پہنچنے میں 18 ماہ لگے۔ انگلینڈ میں صرف 12 فیصد مقدمات میں ہی سزا ہوتی ہے۔
پوپی سے جب عدالت میں جرح ہوئی تو ان کی عمر صرف 13 برس تھی۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’مجھ میں غصہ بھی تھا تو اپنی کہانی بتانا مجھے بہت اہم بھی لگا۔‘
2018 میں جان کو ریپ سمیت تین الزامات پر 13 سال قید کی سزا ہوئی۔ گزشتہ سال جان کی جیل میں ہی موت واقع ہوئی۔
پوپی کے لیے مقدمے کا فیصلہ اہم تھا لیکن ان کے لیے وہ نفسیاتی مدد بھی اہم تھی جس کا انھیں پانچ ماہ تک انتظار کرنا پڑا۔
برطانوی ہوم آفس کا کہنا ہے کہ اب متاثرہ بچوں کو نفسیاتی مدد فراہم کرنے کے لیے مختص فنڈز میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔
ادھر کینٹ میں ایک چھوٹے سے طیارے نے اڑان بھری۔ پوپی اب تک 70 ہزار ڈالر اکھٹا کر چکی ہیں تاکہ جنسی ہراسانی سے متاثرہ افراد کو نفسیاتی مدد حاصل کرنے کے لیے انتظار نہ کرنا پڑے۔
پوپی نے جہاز کے دروازے کی جانب قدم بڑھائے اور اپنے انسٹرکٹر کے ساتھ چھلانگ لگا دی۔
کچھ ہی دیر بعد وہ زمین پر تھیں، محفوظ اور کھلکھلاتی ہوئی۔
جب وہ اپنے ماضی کی بات کرتی ہیں اور اس 11 سالہ بچی کو یاد کرتی ہیں جس نے اپنی ماں کو بتانے کی ہمت کی تو وہ کہتی ہیں کہ ’میں اسے گلے لگانا چاہتی ہوں۔ اس کی ہمت کے بغیر شاید میں یہاں نہ پہنچ پاتی۔‘
ان کا پیغام ایسے ہی متاثرین کے لیے بھی یہی ہے کہ وہ خاموش نہ رہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں یہ وعدہ نہیں کرتی کہ سب آپ کی بات پر یقین کریں گے لیکن میں یہ وعدہ کرتی ہوں کہ کوئی نا کوئی آپ کی بات سنے گا اور اس سب سے نکلنے کا راستہ موجود ہے۔‘
Comments are closed.