سمندری طوفان بپرجوائے آج دن 11 بجے کے قریب کیٹی بندر ساحل سے ٹکرائے گا۔ ٹھٹھہ اور سجاول کے ساحلی علاقے طوفان سے زیادہ متاثرہوں گے۔
اسلام آباد میں گزشتہ روز پریس کانفرنس کرتے ہوئے شیری رحمان کا کہنا تھا کہ ساحلی علاقوں سے لوگوں کا انخلاء ممکن بنایا جا رہا ہے، 1999 کا سائیکلون اس طرح کا تھا، عوام میں کچھ کنفیوژن ہے وہ پریشان ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت ہو یا وفاقی حکومت تمام ادارے اور انتظامیہ متحرک ہیں، بپرجوائے کا اثر لازمی ہوگا، وزیراعظم نے میری سربراہی میں طوفان کی صورتحال مانیٹر کرنے کیلئے کمیٹی بنائی ہے۔
شیری رحمان نے کہا کہ طوفان 150 سے 160 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار پر چل رہا ہے، سمندری طوفان کراچی سے 370 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے، سمندری طوفان کیٹی بندر کے نزدیک ہوتا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم 24 گھنٹے صورتحال کو مانیٹر کر رہے ہیں، ٹھٹھہ، سجاول بدین اور تھرپارکر زیادہ متاثر ہوں گے، سمندری طوفان کا کراچی سے فاصلہ بڑھ رہا ہے، لوگوں سے اپیل ہے انتظامیہ کے ساتھ تعاون کریں۔
شیری رحمان نے مزید کہا کہ پیٹرولنگ ریلیف اور ریسکیو کیلئے تمام ادارے متحرک ہیں، 66 ہزار افراد کو محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے، سمندری طوفان سے پہلے سب سے اہم کام آبادی کا انخلاء ہوتا ہے۔
بپرجوائے کیٹی بندر سے قریب مگر کراچی سے تھوڑا دور ہوگیا، کیٹی بندر سے 290 کلو میٹر کی دوری پر آگیا، کراچی سے فاصلہ پہلے 340 کلو میٹر تھا، اب 370 کلو میٹر ہوگیا۔
کراچی سے دور ہونے کے باوجود طوفان اپنا اثر دکھائے گا، کیٹی بندر، سجاول اور تھرپارکر میں بارشیں ہوئیں، میر پور خاص اور عمرکوٹ میں گرد آلود ہوائیں چلیں، جبکہ لسبیلہ میں سمندری لہروں میں طغیانی آگئی۔
انتظامیہ، پاکستان نیوی اور آرمی کی ساحلی علاقوں میں امدادی کارروائیاں جاری ہیں، نیوی کے غوطہ خوروں نے سمندر میں پھنسے درجنوں ماہی گیروں کو بحفاظت ریسکیو کرلیا۔
ساحلی علاقوں سے 64 ہزار سے زیادہ افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا، ہدایات کے باوجود بعض افراد اب بھی ساحلی علاقوں میں موجود ہیں، انہوں نے گھر بار چھوڑنے سے انکار کردیا۔
سمندری طوفان بپرجوائے کے زیرِ اثر کراچی میں کہیں ہلکی کہیں تیز بارش، ہوئی، ہاکس بے میں سمندر کا پانی سڑک پر آگیا، کراچی سے منوڑہ کا زمینی راستہ جزوی طور پر منقطع ہوگیا، منوڑہ جانے والے روڈ پر ریت اور پانی میں کئی گاڑیاں پھنس گئیں، ابراہیم حیدری میں پانی آبادی میں داخل ہوگیا۔
Comments are closed.