بوتل میں بند ’امید کا پیغام‘ جس نے امریکہ سے آئرلینڈ تین ہزار میل کا سفر طے کیا
ریٹا اور سیاران کا کہنا ہے کہ وہ ساشا اور ان کے خاندان کو میگ ہیورٹے کے ساحل سمندر پر لے کر جائیں گے جہاں انھیں یہ بوتل ملی تھی
ایک امریکی نوجوان جس نے تقریباً دو سال قبل ایک بوتل میں بند کر کے ایک پیغام سمندر میں پھینکا تھا، نے اس جوڑے سے بات کی ہے جنھیں اب یہ پیغام ملا ہے۔
ساشا یونیاک، جن کی اس وقت عمر 11 سال تھی، نے سنہ 2019 میں میری لینڈ میں اوشین سٹی کے پانی میں یہ بوتل پھینکی تھی۔
اس مہینے کے شروع میں ریٹا سیمنڈز اور ان کے پارٹنر سیاران مارون کو یہ بوتل آئرلینڈ میں میگ ہیورٹے کے ساحل سمندر سے ملی ہے۔
یہ پیغام ایک ایک ڈالر کے دو بلوں میں لپٹا ہوا تھا اور اس میں ساشا کے بارے میں تفصیلات درج تھیں۔
ساشا اور اس جوڑے نے پہلی بار بی بی سی کے پروگرام ’ایوننگ ایکسٹرا‘ میں ایک دوسرے سے فون پر بات کی۔
ساشا جن کی عمر اب 14 برس ہے، کہتے ہیں کہ انھوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ان کا یہ پیغام بحر اوقیانوس میں تین ہزار میل کا سفر کرے گا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میرا خیال تھا کہ یہ کسی ایسے بڑے جہاز کو مل جائے گا جو صفائی کا کام کرتا ہو گا۔‘
’یہ واقعی پرجوش کن بات تھی اور میں حیران ہوا کہ یہ حقیقت میں ایک ساحل تک پہنچ گیا اور کسی کو مل گیا۔‘
’وائن کی طرف سے امید کا پیغام‘
ساشا کو یہ خیال اس وقت آیا جب انھیں خود ایک بوتل میں پیغام ملا اور اسے بھیجنے والے نے اسے ’آگے پاس‘ کرنے کی درخواست کی تھی۔
ساشا نے اپنے دوست اور پڑوسی وائن کی مدد سے اپنا پیغام لکھا، جس میں ان کی زندگی، دوستوں، مشاغل کے بارے میں معلومات کے علاوہ ان کا رابطہ نمبر بھی موجود تھا۔
پھر انھوں نے اس پیغام کو ایک ڈالر کے دو بلوں میں لپیٹ کر ایک بوتل میں ڈالا اور اسے وائن کی کشتی کے ذریعے سمندر میں پھینک دیا۔
سیاران اور ریٹا نے کہا کہ انھیں یہ بوتل ساحل سمندر پر چہل قدمی کے دوران ملی۔ ’اس وقت یہ بہت واضح تھا کہ ہم نے ایک حیرت انگیز دریافت کی ہے۔‘
’ہم بہت پرجوش تھے، 10 منٹ کے لیے تو حیرانی کا عالم تھا اور پھر ہم نے سوچا کہ ہم کیا کرنے جا رہے ہیں؟ یہ ایک بوتل میں ایک حقیقی پیغام ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے
جوڑے نے کہا کہ وہ اس بارے میں فکر مند تھے کہ وہ کہیں پیغام کو خراب نہ کر دیں کیونکہ وہ بھیگا ہوا تھا اور اسی لیے وہ اسے پڑھنے سے پہلے خشک کرنے کے لیے گھر لے گئے۔
ریٹا نے کہا کہ اس کے بعد انھوں نے اس پیغام میں درج نمبر پر رابطہ کیا لیکن وہ نمبر منقطع تھا اور اسی لیے انھوں نے سوشل میڈیا پر تلاش شروع کر دی اور امریکی میڈیا سے رابطہ کیا۔
آخرکار اوشین سٹی کے اخبار ’دی ڈسپیچ‘ کے ایک رپورٹر کے ذریعے وہ ساشا اور ان کے خاندان کو فیس بک پر ڈھونڈنے میں کامیاب ہو گئے۔
،تصویر کا ذریعہRita Simmonds
ساشا کے پیغام میں ان کی زندگی، دوستوں، مشاغل کے بارے میں معلومات کے علاوہ ان کا رابطہ نمبر بھی موجود تھا
ریٹا کہتی ہیں کہ ’ہم اس بارے میں پر عزم تھے کہ ہم اس خاندان کو ڈھونڈ لیں گے۔‘
’چھ یا سات دن کے اندر ہم نے ایسا کیا اور یہ ہماری پہلی آڈیو ریکارڈنگ ہے اور ہم بعد میں ویڈیو پر بھی بات کرنے جا رہے ہیں۔‘
ساشا کے دوست وائن کی گذشتہ سال وفات ہوئی تھی لیکن ریٹا کے مطابق اس پیغام کا ملنا ’وائن کی طرف سے امید کے ایک چھوٹے پیغام‘ جیسا تھا۔
’یہ تقریباً ایسا ہی ہے جیسے وہ بوتل دو سال کے لیے سمندر میں پھینکی گئی، جیسے آپ کے لیے ایک پیغام۔‘
ساشا اور ان کا خاندان اب امید کر رہے ہیں کہ وہ مستقبل قریب میں آئرلینڈ جائیں گے اور ریٹا سے ملاقات کریں گے۔
جوڑے کا کہنا ہے کہ وہ اس خاندان کو میگ ہیورٹے کے ساحل سمندر پر لے کر جائیں گے جہاں انھیں یہ پوتل ملی تھی۔
سیاران نے مزید کہا کہ ’ساشا کو آئرلینڈ سے متعارف کرانا اور اس کی ثقافت دکھانا بہت اچھا ہو گا… یہ جادوئی سرزمین ہے۔‘
Comments are closed.