بنیامین نیتن یاہو: ایلیٹ کمانڈو سے وزارت عظمیٰ تک کا سفر
پندرہ سال تک اسرائیل کے وزیر اعظم رہنے والے نیتن یاہو کو بدعنوانی کے مقدمے کا سامنا ہے
اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے اپنے پندرہ سالہ دور دو سنگ میل عبور کیے ہیں، وہ پہلے اسرائیلی وزیر اعظم ہیں جو پندرہ برس سے اقتدار میں ہیں اور وہ پہلے ایسے وزیر اعظم ہیں جن کے دور اقتدار میں ہی ان کے خلاف عدالتی کارروائی شروع ہوئی۔
نیتن یاہو کو چاہنے والے انھیں ’’کنگ بی بی‘‘ اور ‘‘جادوگر‘‘ کہتے ہیں۔ دائیں بازو کی جماعت لیخود کے سربراہ کو اپنی سیاسی زندگی کے سب سے بڑے امتحان سامنا ہے۔
انتخابات میں ان کی جیت کا انحصار ان کی اِس شہرت کے مرہون منت ہے کہ وہ اسرائیل کو دشمنوں سے محفوظ رکھنے کے لیے سب سے موزوں شخص ہیں۔
انھوں نے فلسطینوں کے حوالے سخت موقف اپنا رکھا ہے اور وہ امن کے حوالے سے کسی بھی بات چیت میں سیکورٹی کے خدشات کو اولیت دیتے ہیں۔ وہ مسلسل ایران سے اسرائیل کی بقا کو لاحق خطرے سے خبردار کرتے رہتے ہیں۔
بھائی کی وراثت
نیتن یاہو 1949 میں ایک ممتاز تاریخ اور صہیونی ورکر بین زیان کے ہاں پیدا ہوئے۔ جب ان کے والد کو امریکہ میں ایک تعلیمی عہدے کی پیشکش ہوئی تو ان کا خاندان 1963 میں امریکہ منتقل ہو گیا۔
نیتن یاہو اٹھارہ برس کی عمر میں اسرائیل واپس گئے اور اپنی زندگی کے پانچ برس فوج میں گزارے۔ وہ اسرائیلی فوج کے ایلیٹ کمانڈو فورس سیرت میتاکل کا حصہ رہے ہیں۔ وہ کمانڈو کے اس دستے کا حصہ تھے جس نے 1968 ایئرپورٹ پر حملہ کا اور وہ 1973 کی جنگ میں بھی شریک رہے ہیں۔
فوجی خدمات کے بعد وہ واپس امریکہ گئے جہاں انھوں نے میساچیوسٹ انسٹیٹوٹ آف ٹیکنالوجی سے ماسٹر ڈگری حاصل کی۔
نیتن یاہو اسرائیل کی ایلٹ کمانڈو فورس کا حصہ رہےہیں
بنیامین نیتن یاہو کے بھائی جوناتھن 1976 اس وقت مارے گئے جب اسرائیلی کمانڈوز نے یوگنڈہ میں ایک اغوا شدہ اسرائیلی طیارے کو آزاد کرانے کےلیے آپریشن کیا ۔ جوناتھن کی موت نیتن یاہو کے خاندان پر گہرا اثر چھوڑا اور ان کا نام اسرائیل میں ہر کسی کی زبان تھا۔
بنیامین نیتن یاہو نے 1976 میں اپنے بھائی کی یاد میں انسداد دہشتگردی انسٹیٹوٹ کی بنیاد رکھی۔ وہ 1982 امریکہ میں اسرائیلی مشن کے ڈپٹی چیف مقرر ہوئے۔
بنیامین نیتن یاہو راتوں رات امریکہ میں مشہور ہو گئے ۔ ایک ایسا انگریزی بولنے والا اسرائیلی جس کا لہجہ بھی امریکی ہو، وہ امریکہ میں اسرائیل کے سب سےبڑا ترجمان بن گئے اور امریکی ٹیلویژن سکرین کا ایک جانا پہچانا چہرہ بن گئے۔
نتن یایو کو 1984 میں اقوام متحدہ میں اسرائیل کا مستقبل مندوب تعینات کیا گیا۔
اقتدار کا حصول
جب نیتن یاہو 1988 میں واپس اسرائیل آئے تو انھوں نے سیاست میں قدم رکھا اور اسرائیلی پارلیمنٹ کینسٹ کے ممبر منتخب ہوئے اور پھر نائب وزیر خارجہ مقرر ہوئے۔
وہ جلد ہی لیخود پارٹی کے چیئرمین بن گئے اور 1996 میں پہلی بار وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ انھیں اسرائیل کا سب سے کم عمر وزیر اعظم ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
نیتن یاہو کے حامی انھیں کنگ بی بی کہہ پکارتے ہیں
نیتن یاہو نے 1993 میں اسرائیل اور فلسطین کے مابین ہونے والے اوسلو معاہدے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا لیکن جب وہ وزیر اعظم بننے تو انھوں نے ہیبرون میں فلسطینی اتھارٹی کے قیام کے معاہدے پر دستخط کیے۔ انھوں دائیں بازو کے غم و غصے کے باوجود مقبوضہ غرب اردن سے اسرائیلی فوجوں کے انخلا پر رضامندی ظاہر کی۔
انھیں 1999 میں ہونے والے انتخابات میں اپنے سابقہ کمانڈر ایہود باراک سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
سیاسی کیریئر کی بحالی
لیبر پارٹی سے شکست کےبعد نیتن یاہو لیخود پارٹی کی قیادت سے سبکدوش ہو گئے اور ان کی جگہ ایریئل شیرون نے پارٹی کی قیادت سنبھالی۔
جب ایرئیل شیرون 2001 میں وزیر اعظم بنے تو بنیامین نیتن یاہو کی حکومت میں واپسی ہوئی۔ انھیں پہلے وزیر خارجہ کا عہدہ دیا گیا اور بعد وزیر خزانہ مقرر ہوئے۔ انھوں نے 2005 میں اس وقت اپنے عہدے سے استعفی دے دیا جب اسرائیل نے غزہ کی پٹی سے فوج واپس بلا لی۔
نیتن یاہو کو 2005 میں ایک اور موقع اس وقت ملا جب وزیر اعظم ایرئیل شیرون کو سٹروک ہوا اور وہ کوما میں چلے گئے
نیتن یاہو نے لیخود سے الگ ہو کر ایک اور سیاسی جماعت قدیمہ کی بنیاد رکھی۔
زندگی اور دور
- 1949 – تل ابیب میں پیدا ہوئے
- 1967-73 -بطور فوجی کمانڈو خدمات سر انجام دیں
- 1984 – اقوام متحدہ میں اسرائیل کے مندوب مقرر ہوئے
- 1988 – پارلیمنٹ اور حکومت کا حصہ بنے
- 1996 – وزیر اعظم منتخب ہوئے
- 1999 – الیکشن میں ہار گئے
- 2002-03 – وزیر خارجہ مقرر ہوئے
- 2003-05 -غزہ سے انخلا کے خلاف بطور وزیر خزانہ مستعفی ہو گئے
- 2009 – دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہوئے
- 2013 -تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہوئے
- 2015 – چوتھی بار وزیر اعظم منتخب ہوئے
- 2019 -رشوت ستانی، دھوکہ دہی کا الزام عائد ہوا
- 2020 -پانچویں بار وزیر اعظم کے عہدے کا حلف لیا اور مقدمے کی کارروائی شروع ہوئی
نیتن یاہو نے ایک بار پھر لیخود پارٹی کی قیادت حاصل کر لی اور 2009 میں دوسری بار وزیر اعظم منتخب ہوئے۔
انھوں نے فلسطین کے ساتھ امن مذاکرات کو کامیاب بنانے کی غرض سے غرب اردون میں یہودی آبادکاریوں دس ماہ کے لیے روک دیں لیکن 2010 میں مذاکرات ناکام ہوئے۔
نیتن یاہو نے 2009 میں فلسطینی ریاست کے قیام کی مشروط حامی بھری لیکن بھر ان کا موقف سخت سے سخت ہوتا گیا اور انھوں نے 2019 میں اسرائیلی ریڈیو سٹیشن کو بتایا :”فلسطینی ریاست نہیں بنے گی، کم از کم ایسی جیسی کچھ لوگ باتیں کر رہے ہیں، ایسا نہیں ہو گا۔”
غزہ کا تنازعہ
نیتن یاہو کے 2009 میں دوبارہ وزیر اعظم بننے کے بعد سے فلسطینی حملوں اور اسرائیلی فوج کی جوابی کارروائی کی وجہ سے کشیدگی کا ماحول برقرار رہا۔
نیتن یاہو نے 2012 میں اسرائیل پر راکٹ حملوں کے بعد فلسطینی علاقوں پر حملوں کا حکم دیا لیکن زمینی فوج بھیجنے سے گریز کیا۔
کچھ عرصہ کے سکون کے بعد 2014 میں راکٹ حملوں کے بعد کشیدگی ایک بار پھر عروج پر پہنچ گئی اور نیتن یاہو نے ایک بار پھر فوجی کارروائی کا حکم دیا۔
نیتن یاہو نے غزہ سے شروع ہو نے والے تشدد کا ہمیشہ سخت جواب دیا
پچاس روز تک جاری رہنے والی جنگ میں 2100 فلسطینی ہلاک ہو گئے جن میں اکثریت عام شہریوں کی تھا۔ اسرائیل کے 67 فوجی اور چھ عام شہری ہلاک ہوئے۔
اس جھگڑے کے دروان اسرائیل کو امریکی حمایت حاصل رہی لیکن صدر براک اوباما اور نیتن یاہو کے تعلقات مشکلات کا شکار رہے۔
تعلقات کی کشیدگی اس وقت انتہا کو پہنچ گئی جب نیتن یاہو نے مارچ 2015 میں امریکی کانگریس سے خطاب میں امریکہ اور ایران کے مابین جوہری پروگرام کے حوالے سے ممکنہ معاہدے کو ’بری ڈیل‘ کہہ کر امریکہ کو خبردار کیا۔ اوباما انتظامیہ نے اس کی مذمت کی اور نیتن یاہو کے دورے کو ’مداخلت‘ قرار دیا۔
ٹرمپ کے ساتھ تعلقات
2017 میں ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں آمد کے بعد اسرائیل اور امریکہ کی پالیسیوں میں ہم آہنگی بڑھنے لگی اور صدر ٹرمپ نے صدرارت کا عہدہ سنبھالنے کے ایک سال کے اندر ہی یورشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا۔
یوروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے سے عرب دنیا میں غم و غصے کا اظہار کیا گیا جو یورشلم کے مشرقی حصے کو فلسطین کا حصہ مانتے ہیں جس پر 1967 کی جنگ کے دوران قبضہ کر لیا گیا۔ لیکن یہ نیتن یاہو کی سیاسی اور سفارتی فتح تھی۔
نیتن یاہو کو صدر ٹرمپ سے بے تحاشا حمایت رہی
اس کے ایک سال بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عشروں سے امریکی پالیسی کے برخلاف شام کی گولان پہاڑیوں پر اسرائیل کی حاکمیت کو تسلیم کر لیا۔ جسے نیتن یاہو کی ایک بڑی کامیابی تصور کیا گیا اور اس پر ان کی خوب تعریف ہوئی۔
نیتن یاہو نے 2020 میں صدر ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے امن فارمولے کی حمایت کی اور کہا کہ ایسا موقع صدیوں بعد ایک بار آتا ہے لیکن فلسطینیوں نے اسے یک طرفہ کہہ کر ماننے سے انکار کیا اور انھوں نے اس پر مذاکرات سے انکار کیا۔
نیتن یاہو نے صدر ٹرمپ کی طرف امریکہ کو ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے سے خود کو علیحدہ کرنے اور ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کرنےکے فیصلے کی حمایت کی۔.
مقدمات کا سامنے
نیتن یاہو کے خلاف 2016 سے مبینہ بدعنوانی کی تحقیقات شروع ہوئی۔ ان پر 2019 میں رشوت ستانی، دھوکہ دہی اور خیانت مجرمانہ کے الزامات کے تحت تین مقدمات درج ہوئے۔
After being charged in 2019, Benjamin Netanyahu railed against what he saw as an "attempted coup”
نیتن یاہو پر الزام ہے کہ انھوں نے امیر کاروباری شخصیات سے تحفے وصول کیے اور ذرائع ابلاغ میں مثبت کوریج کے عوض مراعات دیں۔
وہ اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کی تردید کرتے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ ان کے خلاف مقدمات سیاسی مخالفوں کی ایما پر ان کے مقدمات بنائے گئے ہیں۔
وہ 2020 میں پہلے ایسے اسرائیلی وزیر اعظم بن گئے جن کی وزارت عظمیٰ کے دوران مقدمات کی کارروائی شروع ہوئی۔
نیتن یاہو نےاپنےسیاسی حریف بینی گینٹز کے ساتھ ملکر مخلوط حکومت تشکیل دی
نیتن یاہو پر الزامات عائد ہونے کے باوجود انھیں ایک سال میں تین بار ہونے والے انتخابات میں ہرایا نہ جا سکا اور وہ پانچویں بار وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ انھوں نے اپنے حریف بینی گینٹس کے تعاون سے قومی حکومت قائم کی اور کورونا وائرس کی وبا کا مقابلہ کیا۔
اپنے حریف سے نیتن یاہو کا اتحاد صرف اٹھ ماہ تک چل سکا اور ایک بار انتخابات کروانے پڑے۔ لیخود پارٹی نے انتخابات میں سب سے زیادہ نشتیں حاصل کیں لیکن حزب اختلاف کی کسی جماعت کا نیتن یاہو سے الحاق نہ کرنے کی وجہ سے وہ پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل نہ کرسکے اور جس سے ان کے سیاسی مستقبل کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔
Comments are closed.