بنیامن نتن یاہو: حماس کا ’نام و نشان‘ مٹانے کا عندیہ دینے والے ’ہوشیار‘ اسرائیلی رہنما کون ہیں؟

تصویر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, رافی برگ اور یولانڈ نیل
  • عہدہ, بی بی سی نیوز

اسرائیل میں سب سے زیادہ عرصے تک وزیر اعظم رہنے والے بنیامن نتن یاہو کو حماس کے حملے کے بعد اپنے ملک اور غزہ میں کشیدگی کے ایک نئے دور کا سامنا ہے۔

نومبر 2022 میں ریکارڈ پانچویں مرتبہ منتخب ہونے کے بعد نتن یاہو نے عدالتی اصلاحات کے تنازع پر ملک کی 75 سالہ تاریخ کے سب سے بڑے احتجاجی مظاہرے دیکھے تھے۔

وہ پہلے اسرائیلی وزیر اعظم ہیں جو 16 برس سے اقتدار میں ہیں اور وہ پہلے ایسے وزیر اعظم ہیں جن کے دور اقتدار میں ہی ان کے خلاف عدالتی کارروائی شروع ہوئی۔

بنیامن نتن یاہو کو کبھی ’اسرائیل کا بادشاہ‘ کہا گیا تو کبھی ان کے لیے ’جوڑ توڑ کے عظیم ماہر‘ جیسے القابات استعمال کیے گئے۔ ایک پوری نسل کے لیے نتن یاہو، جنھیں پیار سے ’بی بی‘ بھی کہا جاتا ہے، اسرائیل کی سیاست پر غالب رہے۔

انتخابات میں اُن کی جیت کا انحصار ان کی اِس شہرت کا مرہون منت ہے کہ وہ اسرائیل کو ’دشمنوں سے محفوظ رکھنے کے لیے‘ سب سے موزوں شخص ہیں۔

انھوں نے فلسطینوں کے حوالے سے سخت مؤقف اپنا رکھا ہے اور وہ امن کے حوالے سے کسی بھی بات چیت میں سکیورٹی کے خدشات کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہ مسلسل ایران سے اسرائیل کی بقا کو لاحق خطرے سے خبردار کرتے رہتے ہیں۔

نوجوان رہنما

نتن یاہو

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

وہ اپنی لڑاکا طرزِِ حکمرانی کے لیے معروف رہے ہیں۔ اُن کا کردار ملک میں قوم پرستی اور دائیں بازوں کی سیاست کو ایک قدم آگے لے جانے میں اہم سمجھا جاتا ہے۔

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

عالمی سطح پر بھی وہ اتنے ہی عرصے تک اسرائیل کا چہرہ تصور کیے جانے لگے۔ وہ بڑے آرام سے اپنے امریکی لہجے میں انگریزی زبان بولتے اور ایک چھوٹے سے ملک کی نمائندگی کرنے کے باوجود وہ کئی بڑوں کو للکار دیتے۔

نتن یاہو کی زندگی پر ایک کتاب لکھنے والی مصنفہ کے مطابق ان کی میراث میں ایک مرکزی بات یہ رہی ہے کہ ان کی کوشش تھی کہ اسرائیل کو فلسطینیوں کے ساتھ جاری لڑائی کے زاویے کے علاوہ ایک الگ پہچان دی جا سکے۔

’بی بی: دی ٹربولینٹ لائف اینڈ ٹائمز آف بنیامن نتن یاہو‘ نامی اس کتاب میں مصنفہ انشل پفیفر کہتی ہیں کہ ’انھیں مشرق وسطیٰ میں تمام مشکلات کا حل سمجھا گیا۔ مگر اس نظریہ سے بالکل الٹ نتائج حاصل ہوئے۔‘

’(نتن یاہو) اس مسئلے کو حل کرنے سے اب زیادہ دور محسوس ہوتے ہیں مگر اس کے باوجود انھوں نے چار عرب ممالک سے سفارتی معاہدے کیے ہیں۔ اسرائیل کے دنیا کے ساتھ بہتر تعلقات قائم ہوئے ہیں اور کووڈ سے قبل ایک دہائی تک بلا تعطل معاشی پیداوار جاری رہی۔‘

قریب 25 سال قبل نتن یاہو اسرائیل کے سب سے کم عمر وزیر اعظم بنے تھے۔ وہ لیبر رہنما شیمون پیرس کے خلاف بڑی مشکل سے جیتنے میں کامیاب ہوئے تھے اور اس وقت دونوں کے ووٹوں میں مارجن انتہائی معمولی تھا۔

یہ انتخاب اسرائیلی وزیر اعظم یٹزیاک رابین کے قتل کے کچھ ہی مہینوں بعد ہوا تھا۔ ایک بڑی پیشرفت میں انھوں نے فلسطینیوں کے ساتھ اوسلو معاہدے کی شکل میں امن پر اتفاق کیا تھا۔

نتن یاہو نے بڑی مہارت سے ووٹرز کو رضامند کیا کہ امن معاہدے کی ہر صورت مخالفت ہونی چاہیے جس سے اسرائیلی سکیورٹی متاثر ہو سکتی ہے۔

لیکن اقتدار میں آنے کے بعد واشنگٹن نے ان پر دباؤ ڈال کر فلسطینی رہنماؤں سے مزید معاہدوں پر دستخط کروائے۔ اس سے بالآخر ان کی پہلی دائیں بازوں کی حکومت گِر گئی۔

بعد ازاں وزیر اعظم کے دفتر کے باہر بھی وہ لیکوڈ پارٹی میں ایک نمایاں رہنما کے طور پر ابھرے۔ اور سنہ 2000 سے 2005 کے درمیان دوسرے فلسطینی انتفادا یا اسرائیلی بدعنوانی کے خلاف بغاوت کے دور میں بطور وزیر کام کرتے رہے۔

وہ اسرائیلی سکیورٹی کی حمایت میں ایک اہم آواز بنتے چلے گئے۔ وہ فلسطینیوں کے مظاہروں پر تنقید کیا کرتے تھے اور انھوں نے غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے سے اسرائیلی انخلا کی بھی مخالفت کی تھی۔

بنیامن نتن یاہو

،تصویر کا ذریعہGPO VIA GETTY IMAGES

بھائی کی وراثت

نتن یاہو 21 اکتوبر 1949 میں بین زیان کے ہاں پیدا ہوئے۔ جب ان کے والد کو امریکہ میں ایک تعلیمی عہدے کی پیشکش ہوئی تو ان کا خاندان 1963 میں امریکہ منتقل ہو گیا۔

نتن یاہو اٹھارہ برس کی عمر میں اسرائیل واپس آ گئے اور اپنی زندگی کے پانچ برس فوج میں گزارے۔ وہ اسرائیلی فوج کے ایلیٹ کمانڈو فورس ’سیرت میتاکل‘ کا حصہ رہے ہیں۔ وہ کمانڈوز کے اس دستے کا حصہ تھے جس نے 1968 ایئرپورٹ پر حملہ روکا اور وہ 1973 کی جنگ میں بھی شریک رہے ہیں۔

فوجی خدمات کے بعد وہ واپس امریکہ گئے جہاں انھوں نے میساچیوسٹ انسٹیٹوٹ آف ٹیکنالوجی سے ماسٹر ڈگری حاصل کی۔

بنیامین نتن یاہو کے بھائی جوناتھن سنہ 1976 میں اُس وقت مارے گئے جب اسرائیلی کمانڈوز نے یوگینڈا میں ایک اغوا شدہ اسرائیلی طیارے کو آزاد کرانے کے لیے آپریشن کیا۔ اُن کی بھائی جوناتھن کی اس آپریشن میں موت نے نتن یاہو کے خاندان پر گہرا اثر چھوڑا اور ان کا نام اسرائیل میں ہر کسی کی زبان تھا۔

بنیامین نتن یاہو نے 1976 میں اپنے بھائی کی یاد میں انسداد دہشتگردی انسٹیٹوٹ کی بنیاد رکھی۔ وہ 1982 میں امریکہ میں اسرائیلی مشن کے ڈپٹی چیف مقرر ہوئے۔

بنیامین نتن یاہو راتوں رات امریکہ میں مشہور ہو گئے۔ ایک ایسا انگریزی بولنے والا اسرائیلی جس کا لہجہ بھی امریکی ہو، وہ امریکہ میں اسرائیل کے سب سے بڑے ترجمان بن گئے اور امریکی ٹیلویژن سکرین کا ایک جانا پہچانا چہرہ بن گئے۔

نتن یایو کو 1984 میں اقوام متحدہ میں اسرائیل کا مستقبل مندوب تعینات کیا گیا۔

اقتدار کا حصول اور سیاسی کیریئر کی بحالی

بنیامن نتن یاہو

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

جب نتن یاہو 1988 میں واپس اسرائیل آئے تو انھوں نے سیاست میں قدم رکھا اور اسرائیلی پارلیمنٹ کینسٹ کے ممبر منتخب ہوئے اور پھر نائب وزیر خارجہ مقرر ہوئے۔

وہ جلد ہی لیخود پارٹی کے چیئرمین بن گئے اور 1996 میں پہلی بار وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ انھیں اسرائیل کا سب سے کم عمر وزیر اعظم ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

نتن یاہو نے 1993 میں اسرائیل اور فلسطین کے مابین ہونے والے اوسلو معاہدے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا لیکن جب وہ وزیر اعظم بننے تو انھوں نے ہیبرون میں فلسطینی اتھارٹی کے قیام کے معاہدے پر دستخط کیے۔ انھوں دائیں بازو کے غم و غصے کے باوجود مقبوضہ غرب اردن سے اسرائیلی فوجوں کے انخلا پر رضامندی ظاہر کی۔

انھیں 1999 میں ہونے والے انتخابات میں اپنے سابقہ کمانڈر ایہود باراک سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

لیبر پارٹی سے شکست کے بعد نتن یاہو لیخود پارٹی کی قیادت سے سبکدوش ہو گئے اور ان کی جگہ ایریئل شیرون نے پارٹی کی قیادت سنبھالی۔

جب ایرئیل شیرون 2001 میں وزیر اعظم بنے تو بنیامین نتن یاہو کی حکومت میں واپسی ہوئی۔ انھیں پہلے وزیر خارجہ کا عہدہ دیا گیا اور بعد میں وہ وزیر خزانہ مقرر ہوئے۔ انھوں نے 2005 میں اس وقت اپنے عہدے سے استعفی دے دیا جب اسرائیل نے غزہ کی پٹی سے فوج واپس بلا لی گئی۔

نتن یاہو کو 2005 میں ایک اور موقع اس وقت ملا جب وزیر اعظم ایرئیل شیرون کو سٹروک ہوا اور وہ کوما میں چلے گئے

نتن یاہو نے لیخود سے الگ ہو کر ایک اور سیاسی جماعت قدیمہ کی بنیاد رکھی۔

مگر جلد ہی نتن یاہو نے ایک بار پھر لیخود پارٹی کی قیادت حاصل کر لی اور 2009 میں دوسری بار وزیر اعظم منتخب ہوئے۔

انھوں نے فلسطین کے ساتھ امن مذاکرات کو کامیاب بنانے کی غرض سے غرب اردون میں یہودی آبادکاریاں دس ماہ کے لیے روک دیں لیکن 2010 میں اس ضمن میں ہونے والے مذاکرات ناکام ہوئے۔

نتن یاہو نے 2009 میں فلسطینی ریاست کے قیام کی مشروط حامی بھری لیکن پھر ان کا موقف سخت سے سخت ہوتا گیا اور انھوں نے 2019 میں اسرائیلی ریڈیو سٹیشن کو بتایا : ’فلسطینی ریاست نہیں بنے گی، کم از کم ایسی جیسی کچھ لوگ باتیں کر رہے ہیں، ایسا نہیں ہو گا۔‘

بنیامن نتن یاہو

،تصویر کا ذریعہAFP

غزہ کا تنازع

نتن یاہو کے 2009 میں دوبارہ وزیر اعظم بننے کے بعد سے فلسطینی حملوں اور اسرائیلی فوج کی جوابی کارروائی کی وجہ سے کشیدگی کا ماحول برقرار رہا۔

نتن یاہو نے 2012 میں اسرائیل پر راکٹ حملوں کے بعد فلسطینی علاقوں پر حملوں کا حکم دیا لیکن زمینی فوج بھیجنے سے گریز کیا۔

کچھ عرصہ کے سکون کے بعد 2014 میں راکٹ حملوں کے بعد کشیدگی ایک بار پھر عروج پر پہنچ گئی اور نتن یاہو نے ایک بار پھر فوجی کارروائی کا حکم دیا۔

پچاس روز تک جاری رہنے والی جنگ میں 2100 فلسطینی ہلاک ہو گئے جن میں اکثریت عام شہریوں کی تھا۔ اسرائیل کے 67 فوجی اور چھ عام شہری ہلاک ہوئے۔

اس جھگڑے کے دروان اسرائیل کو امریکی حمایت حاصل رہی لیکن صدر براک اوباما اور نتن یاہو کے تعلقات مشکلات کا شکار رہے۔

تعلقات کی کشیدگی اس وقت انتہا کو پہنچ گئی جب نتن یاہو نے مارچ 2015 میں امریکی کانگریس سے خطاب میں امریکہ اور ایران کے مابین جوہری پروگرام کے حوالے سے ممکنہ معاہدے کو ’بری ڈیل‘ کہہ کر امریکہ کو خبردار کیا۔ اوباما انتظامیہ نے اس کی مذمت کی اور نتن یاہو کے دورے کو ’مداخلت‘ قرار دیا۔

اکتوبر 2023 میں حماس کے حملے کے جواب میں غزہ پر بمباری کی گئی اور پورے علاقے کا محاصرہ کیا گیا جو فی الحال جاری ہے۔

ان نئے حملوں کے بعد نتن یاہو نے روئے زمین سے ’حماس کا نام و نشان مٹانے‘ کا وعدہ کیا ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ