اس سے قبل 30 اگست کو پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس سے بات کی تھی اور ساتھ ہی ایک ٹویٹ میں بنگلہ دیش میں سیلاب کے باعث ہونے والی تباہ کاریوں میں امداد کی پیشکش بھی کی تھی۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
’پاکستان کے ساتھ تعلقات بڑھانے میں شیخ حسینہ خود ایک رکاوٹ تھیں‘
اس حوالے سے بی بی سی کی نامہ نگار منزہ انوار سے بات کرتے ہوئے پاکستان کے سابق سفارتکار عبد الباسط کا کہنا ہے کہ یہ پاکستان کے لیے ایک بہترین موقع ہے اور ’ہمیں اس موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان نے پچھلے 15-16 سالوں میں شیخ حسینہ کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے لیے کافی کوششیں کیں مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا کیونکہ ’پاکستان کے ساتھ تعلقات بڑھانے میں وہ خود ایک رکاوٹ تھیں اور اس کی وجہ ان کے 1971 کے اپنے تجربات تھے۔‘عبدالباسط بتاتے ہیں کہ سنہ 2002 میں جنرل پرویز مشرف نے جب بنگلہ دیش کا دورہ کیا تو اس وقت انھوں نے 1971 کے واقعات پر پھر سے معافی مانگی تھی۔وہ بتاتے ہیں کہ اس کے علاوہ ہمارا انڈیا اور بنگلہ دیش کے ساتھ 1974 میں ہونے والا سہ فریقی معاہدہ بھی موجود ہے جس میں یہی کہا گیا ہے ’ہمیں ماضی کی تلخیوں پر معافی مانگ کر انھیں بھلاتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے۔‘سابق سفارت کار کہتے ہیں کہ ’پاکستان کی جانب سے 1971 کے حوالے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن اگر بنگلہ دیش کی نئی حکومت کسی قسم کے خدشات یا ڈیمانڈز پر بات کرنا چاہتی ہے تو دونوں فریقوں کو احتیاط کا دامن تھامتے ہوئے انھیں عوام کے سامنے کھلے عام اس پر بحث کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’ہمیں بہت سوچ سمجھ کر آگے بڑھنا چاہیے اور (لو پروفائل رکھتے ہوئے) توجہ مبذول کروائے بغیر (ویسے نہیں جیسے ہم نے طالبان کے معاملے میں کیا) طویل المدتی اور پائیدار تعلقات قائم کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے۔‘وہ کہتے ہیں کہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے شہباز شریف نیویارک جا رہے ہیں جہاں ان کی ڈاکٹر یونس کے ساتھ ملاقات کا امکان ہے۔عبدالباسط تجویز کرتے ہیں کہ ’ہمیں غیر سیاسی، عوام سے عوام تک کے تعلقات، کھیلوں اور تجارت کی بات کرنا چاہیے اور دونوں ملکوں کے تعلقات آگے بڑھانے کا یہی بہترین طریقہ ہے۔‘
چین کا اقدام
بنگلہ دیش 1971 کی جنگ کے بعد پاکستان سے الگ ہو گیا تھا۔ بنگلہ دیش کی تشکیل میں انڈیا نے اہم کردار ادا کیا تھا جبکہ چین اس وقت بنگلہ دیش کے قیام کے خلاف تھا۔تاہم اب بنگلہ دیش کی نئی عبوری حکومت چین کی طرف قدم اٹھاتی نظر آ رہی ہے۔ابھی چند روز قبل بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی پر سے پابندی ہٹا دی گئی تھی جو شیخ حسینہ کی حکومت میں سنہ 2013 میں لگائی گئی تھی۔جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی سب سے بڑی مذہبی جماعت ہے اور اس جماعت کی طلبہ تنظیم بہت مضبوط سمجھی جاتی ہے۔شیخ حسینہ کا تختہ الٹنے والی تحریک میں اس تنظیم کے طلبا نے اہم کردار ادا کیا۔ تاہم اس پر ملک میں تشدد اور انتہا پسندی کو فروغ دینے کا الزام بھی لگایا جاتا رہا ہے۔انڈیا میں بابری مسجد کے انہدام کے بعد جماعت پر بنگلہ دیش میں ہندو مخالف فسادات بھڑکانے کا الزام بھی لگایا گیا۔ جماعت اسلامی کو عمومی طور پر انڈیا مخالف سمجھا جاتا ہے۔جماعت اسلامی کے امیر شفیق الرحمان نے حال ہی میں کہا تھا کہ انڈیا نے ماضی میں کچھ ایسے کام کیے ہیں جو بنگلہ دیش کے عوام کو پسند نہیں آئے۔شفیق الرحمان نے بنگلہ دیش میں حالیہ سیلاب کا ذمہ دار انڈیا کو ٹھہرایا تھا۔رحمان نے کہا تھا کہ ’بنگلہ دیش کو ماضی کے بوجھ کو پیچھے چھوڑ کر امریکہ، چین اور پاکستان جیسے ممالک کے ساتھ مضبوط اور متوازن تعلقات برقرار رکھنے چاہییں۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
شیخ حسینہ کی رخصتی چین کے لیے موقع ہے؟
ایسے میں پابندی ہٹائے جانے کے بعد چینی سفیر نے جماعت اسلامی کے رہنماؤں سے ملاقات کی تھی۔ چین کے سفیر یاؤ وین نے کہا کہ چین بنگلہ دیش کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے۔ شیخ حسینہ کی حکومت کے دوران بنگلہ دیش کا جھکاؤ چین سے زیادہ انڈیا کی طرف تھا۔ جولائی کے مہینے میں شیخ حسینہ اپنا دورۂ چین درمیان میں چھوڑ کر بنگلہ دیش واپس چلی گئیں۔اس کے بعد شیخ حسینہ نے کہا تھا کہ انڈیا اور چین دونوں تیستا منصوبے میں دلچسپی رکھتے ہیں لیکن وہ چاہتی ہیں کہ انڈیا اس منصوبے کو مکمل کرے۔ ظاہر ہے چین کو یہ بات پسند نہیں آئی ہو گی۔ماہرین کی رائے میں شیخ حسینہ کا اقتدار سے باہر ہونا چین اور پاکستان کے لیے ایک موقع کی طرح ہے۔چینی سفیر اور جماعت کے رہنماؤں کی ملاقات کو بھی اسی روشنی میں دیکھا جا رہا ہے۔
ماہرین کیا کہتے ہیں؟
انڈیا کے سابق سکریٹری خارجہ اور بین الاقوامی امور کے ماہر کنول سبل نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ ’چین نے بنگلہ دیش کے قیام کی مخالفت کی تھی۔ چین بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے والا آخری ملک تھا۔‘سبل لکھتے ہیں کہ ’اسی طرح جماعت نے بھی بنگلہ دیش کے قیام کی بھی مخالفت کی تھی۔ چین کی بنگلہ دیشیوں کی حمایت کی بات کھوکھلی ہے۔ چین بنگلہ دیش جیسے مظاہروں کے بعد اپنے ملک میں کسی قسم کی اقتدار کی تبدیلی نہیں چاہے گا۔‘بین الاقوامی تعلقات کے ماہر برہما چیلانی نے بھی سوشل میڈیا پر بنگلہ دیش کے بدلتے ہوئے رویے پر تبصرہ کیا ہے۔چیلانی لکھتے ہیں کہ ’بنگلہ دیش میں فوج کی تشکیل کردہ عبوری حکومت پرتشدد اسلام پسندوں کو ڈھیل دے رہی ہے۔ ان کے پاس کوئی آئینی حق یا اکثریت نہیں ہے۔ ملک کے چیف جسٹس اور پانچ سینیئر ججوں کی برطرفی کے بعد سپریم کورٹ میں اپیل کی گئی جس کے تحت کہا گیا تھا کہ سپریم کورٹ کا حکم واپس لیا جائے جس کے بعد پارلیمنٹ نے ترامیم کر کے نگراں حکومت کا آپشن ختم کر دیا تھا۔ یہ فیصلہ دینے والے چیف جسٹس کے خلاف قتل کا جھوٹا مقدمہ درج کیا گیا۔‘مصنفہ تسلیمہ نسرین کا تعلق بنگلہ دیش سے ہے لیکن ان کی کتابوں کے تنازعات کے باعث وہ برسوں سے بنگلہ دیش واپس نہیں آ سکیں۔ تسلیمہ نسرین 2011 سے انڈیا میں ہیں۔دی منٹ کی رپورٹ کے مطابق نسرین نے کہا کہ ’محمد یونس کی عبوری حکومت میں حالات مزید خراب ہوں گے۔ زمینی صورتحال انڈیا مخالف، خواتین مخالف اور جمہوریت مخالف ہے۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
بنگلہ دیش پاکستان کے راستے پر؟
شیخ حسینہ کے دور میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات اچھے نہیں تھے۔ 2018 کے انتخابات میں پاکستانی ہائی کمیشن پر بنگلہ دیش کے انتخابات میں مداخلت کا الزام بھی لگایا گیا تھا۔پاکستان کے ہائی کمشنر نے نئی عبوری حکومت کے ارکان سے ملاقات کو اہم قرار دیتے ہوئے کئی شعبوں میں تعاون پر بات کی ہے۔برہما چیلانی نے جاپان ٹائمز کی ویب سائٹ پر دونوں ممالک کے بارے میں ایک مضمون لکھا ہے۔چیلانی اس مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’سنہ 2022 تک، بنگلہ دیش کی معیشت تیزی سے ترقی کرتی دکھائی دے رہی تھی۔ لیکن آج صورتحال مختلف ہے۔ بنگلہ دیش نے آئی ایم ایف سے تین ارب ڈالر، ورلڈ بینک سے ڈیڑھ ارب ڈالر اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے ایک ارب ڈالر کا مطالبہ کیا ہے۔ ترقی کے لحاظ سے بنگلہ دیش کی صورتحال پاکستان کے مقابلے میں مختلف تھی۔‘چیلانی نے لکھا کہ ’بہت سے ایسے واقعات ہیں جن کی بنیاد پر یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا بنگلہ دیش پاکستان کے راستے پر چل سکتا ہے، جہاں معیشت خراب ہے اور پرتشدد واقعات ہوتے رہتے ہیں۔‘چیلانی کہتے ہیں کہ ’شیخ حسینہ کی سیکولر حکومت میں پرتشدد مذہبی گروہوں کے خلاف کارروائی کی گئی لیکن اب حالات مختلف ہیں۔ اگر درست سمت میں کوششیں نہ کی گئیں تو بنگلہ دیش پاکستان کی دوسری شکل بن سکتا ہے۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
انڈیا بمقابلہ پاکستان اور بنگلہ دیش کی پیدائش
بنگلہ دیش میں حکومت بدلی تو مجیب الرحمان کے مجسموں کو نقصان پہنچایا گیا۔ بنگلہ دیش کے بانی اور شیخ حسینہ کے والد شیخ مجیب الرحمان پاکستان کے بارے میں بہت سخت گیر رائے رکھتے تھے۔یہاں تک کہ شیخ مجیب الرحمن نے بنگلہ دیش کو تسلیم کیے بغیر ذوالفقار علی بھٹو (بعد میں وزیر اعظم) سے بات کرنے سے انکار کر دیا تھا۔پاکستان نے بھی ابتدا میں بنگلہ دیش کی آزادی کو مسترد کر دیا تھا۔ بعد میں پاکستان کے رویے میں اچانک تبدیلی آئی۔فروری 1974 میں لاہور میں تنظیم اسلامی کانفرنس کا سربراہی اجلاس ہوا۔ اس وقت بھٹو وزیراعظم تھے اور انھوں نے مجیب الرحمان کو باقاعدہ دعوت بھی بھیجی تھی۔پہلے تو مجیب نے اس میں شرکت سے انکار کیا لیکن بعد میں اسے قبول کر لیا۔اس سمٹ کے بعد انڈیا، بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان معاہدے پر دستخط ہوئے۔ 1971 کی جنگ کے بعد باقی ماندہ رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے تینوں ممالک نے نو اپریل 1974 کو معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ذوالفقار علی بھٹو نے 1974 میں ہی اعلان کیا تھا کہ ’ہم بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔ سات کروڑ مسلمانوں کی طرف سے ایک وفد آئے گا اور ہم انھیں گلے لگائیں گے۔‘بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے پر بھٹو نے کہا تھا کہ ’میں یہ نہیں کہتا کہ مجھے یہ فیصلہ پسند ہے۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ میرا دل خوش ہے۔ یہ اچھا دن نہیں ہے لیکن ہم حقیقت کو نہیں بدل سکتے۔ بڑے ممالک نے بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کا مشورہ دیا لیکن ہم سپر پاور اور انڈیا کے سامنے نہیں جھکے۔ لیکن یہ ایک اہم وقت ہے۔ جب مسلم ممالک اجلاس کر رہے ہوں تو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ دباؤ میں ہیں۔ یہ ہمارے مخالف نہیں ہیں، جو بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہ ہمارے دوست، بھائی ہیں۔‘اس واقعہ کو تقریباً 50 سال ہو چکے ہیں اور اب شیخ حسینہ کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد اس بات کا امکان ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات پھر سے بہتر ہو سکتے ہیں۔چین بھی ساتھ کھڑا نظر آ رہا ہے اور اس کی وجہ سے انڈیا کی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.