- مصنف, ایلینور لاسن، جوئل گنٹر اور ریبیکا ہینشکے
- عہدہ, بی بی سی آئی انویسٹیگیشن
- ایک گھنٹہ قبل
ایک برطانوی خاتون نے تفریحی مقاصد کے لیے بندروں پر تشدد کرنے والے ایک عالمی نیٹ ورک کا حصہ ہونے کا اعتراف کیا ہے۔انگلینڈ کے ورچیسٹر شائر کے قصبے کِڈر منسٹر سے تعلق رکھنے والی 37 سالہ ہولی لا گریسلی نے ایک پرائیویٹ آن لائن گروپ میں شرکت کی تھی۔ یہ گروپ انڈونیشیا میں لوگوں کو بندروں کے بچوں کو مارنے اور ان پر تشدد کی ویڈیوز بنانے کے کام کے لیے پیسے دے رہا تھا۔بی بی سی آئی کی ٹیم کی ایک سال تک جاری رہنے والی تحقیقات کے بعد انھیں سزاوار قرار دیا گیا ہے۔بی بی سی کی ٹیم لوگوں اور جانوروں کو تکلیف دے کر محظوظ ہونے والے عالمی ’نیٹ ورک‘ کے وجود کو بے نقاب کرنے کے لیے ان گروپوں میں خفیہ طور پر شامل ہوئی۔
انتباہ: اس کہانی میں پریشان کن مواد موجود ہےبالڈون روڈ کی رہائشی لی گریسلی نے ورچیسٹر مجسٹریٹ کی عدالت میں انٹرنیٹ پر بندروں کے بچوں کو کھانے، ان پر تشدد کرنے والوں کو سہولت فراہم کرنے کے الزامات کا اعتراف کیا ہے۔انھوں نے آن لائن چیٹ گروپس میں بندروں پر تشدد کی 22 تصاویر اور 132 ویڈیوز اپ لوڈ کرنے کا اعتراف بھی کیا ہے۔استغاثہ نے کہا کہ لی گریسلی نے کمزور مخلوق کو نقصان پہنچانے کی خواہش ظاہر کی اور یہ کہ انھیں حاملہ خواتین اور بچوں سے بھی نفرت ہے۔37 سالہ خاتون میسیجنگ ایپ ٹیلیگرام پر سرگرم ایک گروپ کا حصہ رہی ہیں۔ یہ گروپ انڈونیشیا میں لوگوں کی ذہن سازی کرتا تھا، ان کے لیے کراؤڈ فنڈنگ کرتا تھا اور ان سے بندروں پر تشدد کی ویڈیوز بنواتا تھا۔
امریکی شہری کو بھی سزا
بی بی سی آئی نےمائیک میکارٹنی نامی امریکی شہری کی بھی شناخت کی جب اسی گروپ کے رکن تھے۔ میکارٹنی ایک موٹرسائیکل گینگ کے سابق رکن تھے اور انھوں نے جیل بھی کاٹ رکھی ہے۔ گروپ میں انھوں نے خود کو ’ٹارچر کنگ‘ کے سکرین نام سے متعارف کرا رکھا تھا۔لا گریسلی اس وقت مڈلینڈز میں اپنے والدین کے ساتھ رہ رہی تھیں۔ وہ گروپ میں سب سے زیادہ فعال شرکاء میں سے تھیں اور شاید اسی لیے میکارٹنی نے انھیں گروپ ماڈریٹر بھی بنایا تھا۔وہ اکثر میکارٹنی کو گروپ کے علاوہ الگ سے پیغام بھجواتی تھیں۔ رواں ماہ میکارٹنی نے امریکہ میں جانوروں کے ساتھ بدسلوکی کے الزامات کا اعتراف کیا اور اب انھیں پانچ سال قید کی سزا کا سامنا ہے۔برطانوی نیشنل وائلڈ لائف کرائم یونٹ کے سربراہ کیون لیکس کیلی نے کہا کہ لا گریسلی نے عالمی تشدد کے نیٹ ورک میں کلیدی اور فعال کردار ادا کیا ہے۔انھوں نے کہ کہ لا گریسلی ایک تماشائی سے بڑھ کر تھیں کیونکہ انھوں نے فنڈز اکٹھے کیے، گروپس کے درمیان شیئر کرنے کے لیے ویڈیوز کو آرکائیو کیا اور نئے گروپ اراکین کا استقبال کرنے والے گروپس میں ایڈمن کے طور پر کام کیا۔انھوں نے کہا: ’میں 22 سالوں سے جنگلی جانوروں کے متعلق جرائم کی تحقیقات کر رہا ہوں اور مجھے یہ کہتے ہوئے تکلیف ہوتی ہے کہ یہ سب سے بڑا معاملہ ہے جس کی میں نے تفتیش یا نگرانی کی۔‘
’ایسا بہیمانہ منظر نہیں دیکھا‘
جانوروں کے حقوق پر کام کرنے والی تنظیم ’ایکشن فار پرائمیٹس‘ کی شریک بانی سارہ کائٹ نے جانوروں کے خلاف تشدد کرنے والوں کی تحقیقات کی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ لاگریسلی ’بلاشبہ بے سہارا شیر خوار بندروں کو دہشت زدہ اور اپنی جان کے لیے لڑتے ہوئے دیکھ کر محظوظ ہوتی رہی ہیں۔‘انھوں نے کہا کہ ’کمزور بندروں پر خوفناک اور بے جا تشدد اور انھیں مارنے کے لیے سہولت فراہم کرنے والی بداخلاقی کی گہرائی دردناک تھی، جو میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی۔‘انگلینڈ کی ایک اور خاتون ایڈریانا اورمے کو بھی اس نیٹ ورک سے تعلق کے سلسلے میں منگل کو مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا گيا۔55 سالہ خاتون نے ابھی تک فحش مضمون شائع کرنے اور ایک محفوظ جانور کو غیر ضروری تکلیف پہنچانے کے الزام کے خلاف درخواست داخل نہیں کی ہے۔اورمے پر الزام ہے کہ انھوں نے 14 اپریل سے 16 جون سنہ 2022 کے درمیان بندر پر تشدد کی ایک تصویر اور 26 ویڈیوز اپ لوڈ کرکے ایک فحش مضمون شائع کیا۔ان پر یہ الزام بھی ہے کہ انھوں نے 26 اپریل سنہ 2022 کو ایک پے پال اکاؤنٹ میں 10 پاؤنڈ کی ادائیگی کرکے غیر ضروری تکلیف کی مہم کی حوصلہ افزائی یا مدد کی۔ ان کو عدالت میں پانچ جون کو پیش ہونا ہے۔لاگریسلی نے عدالت میں کوئی بیان نہیں دیا لیکن انھوں نے یہ اعتراف کیا کہ 25 مارچ اور 8 مئی سنہ 2022 کے درمیان انھوں نے بندر پر تشدد کی تصاویر اپ لوڈ کیں، اور 25 اپریل سنہ 2022 کو ظلم کی حوصلہ افزائی کے لیے ایک پے پال اکاؤنٹ میں 17.24 برطانوی پاؤنڈ کی ادائیگی کی۔دونوں مدعا علیہان کو مشروط ضمانت دی گئی ہے اور حکم دیا گیا ہے کہ وہ کسی جانور یا بچے کے ساتھ بغیر کسی نگرانی کے رابطے میں نہ آئیں۔
عالمی نیٹ ورک
بی بی سی کی تحقیقات کے بعد گذشتہ سال عالمی سطح پر کم از کم 20 افراد کے خلاف تفتیش کی گئی ہے۔امریکہ میں تین شرکاء پر پہلے ہی الزامات عائد کیے جا چکے ہیں۔ ان میں گروپ کا سرغنہ میکارٹنی بھی شامل ہیں۔ان میں سے ایک 48 سالہ ڈیوڈ کرسٹوفر نوبل امریکی فضائیہ کے ایک سابق افسر ہیں۔ انھیں پہلے کورٹ مارشل کیا گیا تھا اور فوج سے برخاست کر دیا گیا تھا جبکہ دوسرے 35 سالہ نکول ڈیولبس ہیں جن پر میکارٹنی جیسے الزامات لگے ہیں اور دونوں کو پانچ سال قید کی سزا کا سامنا ہے۔بی بی سی نے میکارٹنی کے ساتھ ساتھ بندروں پر تشدد کرنے والے نیٹ ورک کے دو دیگر سرغنوں کی شناخت کی۔ ان میں سے ایک سٹیسی سٹوری ہیں جو نانی بن چکی ہیں۔ ان کا تعلق امریکہ کی ریاست الاباما سے ہے اور وہ گروپ میں ’سیڈسٹک‘ (اذیت پسند) کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ ان کے علاوہ ایک اور شخص ہیں جنھیں ’مسٹر ایپ‘ (یعنی جناب لنگور) کے نام سے جانا جاتا تھا۔ ہم ان کی اصل شناخت حفاظتی وجوہات کی بنا پر ابھی ظاہر نہیں کر سکتے۔اس بات کا قوی امکان ہے کہ ان دونوں کو بھی ان کے کردار کے لیے مورد الزام ٹھہرایا جائے گا۔دوسری جانب انڈونیشیا میں پولیس نے تشدد کے دو مشتبہ افراد کو بھی گرفتار کر لیا۔آصف یادی نور الحکمہ پر جانوروں پر تشدد کرنے اور محفوظ انواع کی فروخت کا الزام عائد کیا گیا ہے اور انھیں تین سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔دوسرے ایم عاجز رسجانا ہیں ہیں۔ انھیں آٹھ ماہ کی سزا سنائی گئی ہے جو کہ انڈونیشیا میں کسی جانور پر تشدد کرنے کے لیے دی جانے والی زیادہ سے زیادہ سزا ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.