بنانا چیلنج: ترک حکام کیلے والے مذاق پر شامیوں کو ملک سے کیوں نکال رہے ہیں؟
- دیمہ بابلی
- بی بی سی عربی
کیلے کھاتے ہوئے اپنی وڈیو پوسٹ کرنے کی وجہ سے کئی شامی شہریوں کو ترکی سے بے دخلی کا سامنا ہے
ترکی میں سوشل میڈیا پر ہنستے اور مذاق کرتے ہوئے شامی ایک نئے جنون میں شریک ہو رہے ہیں۔ وہ ٹِک ٹاک کی مزاحیہ ویڈیوز میں کیلے کھاتے اور اپنے دوستوں کو ایسا کرنے کے لیے چیلنج کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔
یہ عام سی ویڈیوز ہیں جو ان دنوں ٹِک ٹاک پر ایک معمول ہے۔ اگرچے ایسے ٹرینڈز آتے جاتے رہتے ہیں مگر شامیوں کے لیے ان ویڈیوز کے دور رس نتائج ہو سکتے ہیں۔
حالیہ دنوں میں ترک حکام نے الزام لگایا ہے کہ شامی ’اشتعال انگیز‘ انداز میں کھیلے کھا کر ’نفرت پر اکسا‘ رہے ہیں۔ اس الزام میں بہت سے شامی شہریوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور اب انھیں ترکی بدر کیے جانے کا سامنا ہے۔
ایسے میں جب ترکی میں بڑی تعداد میں موجود شامیوں کے خلاف معاندانہ رویہ زور پکڑ رہا ہے کیلے تفریق کی علامت بن گئے ہیں۔
تو کیلا یا ’بنانا چیلنج وڈیوز‘ کے پیچھے کہانی کیا ہے۔
’میں انھیں نہیں خرید سکتا‘
’بنانا چیلنج‘ وائرل ہونے والی ایک ویڈیو کے بعد شروع ہوا جس میں شامی اور ترک شہری بڑے جوش و خروش کے ساتھ ترکی کی بری معاشی حالت پر بحث کر رہے ہیں۔
اس ویڈیو میں متضاد آراء پیش کی گئی ہیں اور ایک نوجوان شامی لڑکی ترک زبان میں بڑی روانی سے پناہ گزینوں کے کام کے انداز کا دفاع کر رہی ہے۔ اس کے جواب میں جھنجلائے ہوئے ترک کہہ رہے ہیں کہ شامی اور افغان شہری ان کی نوکریاں چھین رہے ہیں۔
ترکی میں جہاں دنیا بھر میں سب سے بڑی تعداد میں پناہ گزیں رہ رہے ہیں، جن میں 36 لاکھ شامی ہیں، ایسی رائے عام پائی جاتی ہے۔ ملک میں تارکین وطن مخالف جذبات بڑھ رہے ہیں اور کئی قوم پرست ترک سیاستدان زیادہ سخت پابندیوں کے لیے مہم چلا رہے ہیں۔
مگر اس ویڈیو کے وائرل ہونے کا ایک ہی سبب تھا اور وہ یہ کہ ایک ترک نے کہا: ’بازار میں مجھے شامی شہری درجنوں کیلے خریدتے نظر آتے ہیں، جبکہ میں خود انھیں خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔‘
کیلا کھانے کی وڈیوز نے بہت سے ترکوں کو چِڑا دیا ہے
یہ بات ترکی میں موجود شامیوں میں پھیل گئی اور انھوں نے ٹِک ٹاک پر اس کا ساؤنڈ بائٹ بنا کر اسے وائرل کر دیا۔ اس ترک شہری کا مذاق اڑانے کے لیے شامیوں نے کیلے کھاتے ہوئے اپنی ویڈیوز بنانا شروع کر دیں اور ’بنانا میم‘ یعنی کیلوں کی میم شیئر کرنا شروع کر دیں۔
اگرچہ یہ مذاق لطف اندوز ہونے کے لیے کیا گیا تھا مگر ہر کسی کو نہیں بھایا۔
ایک تصویر جس میں ترک پرچم کی جگہ کیلا لگا دیا گیا تھا، زیادہ اشتعال کا باعث بنی۔ حال ہی میں قائم ہونے والی وِکٹری پارٹی نے ٹِک ٹاک کے شامی صارفین کے خلاف شکایت کی کہ وہ ’ترک عوام اور ان کے پرچم‘ کی بے حرمتی کر رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر دیگر ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ ویڈیوز ’اس بری معاشی حالت پر طنز ہے جس کا ترکی کو سامنا ہے۔‘
معیشت کی بدحالی کے دنوں میں ان ویڈیوز نے ترک حکام کو بھی ناراض کر دیا ہے۔ گزشتہ جمعرات کو مقامی ذرائع ابلاغ نے کہا تھا کہ ترک پولیس نے بنانا ویڈیوز شیئر کرنے پر 11 شامیوں کو ’اشتعال انگیزی اور نفرت پھیلانے‘ کے الزام میں گرفتار کر لیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
ترکی میں تارکین وطن کے محکمے نے کہا ہے کہ ’ان لوگوں کو ضروری کاغذی کارروائی کے بعد ملک بدر کر دیا جائے گا۔‘
تارکین وطن کے محکمے کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ’تمام اشتعال انگیز پوسٹس کا پتا لگانے‘ کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں اور ’جو لوگ اس مہم میں شریک ہیں‘ ان سے نمٹا جائے گا۔
اتوار کو ترک حکام نے شامی صحافی ماجد شمع کو گرفتار کر لیا کیونکہ انھوں نے استنبول میں بنانا چیلنج پر ایک ٹی وی رپورٹ بنائی تھی۔
’ہم ترکوں کا مذاق نہیں اڑا رہے‘
بعض ترک سیاستدانوں نے ان گرفتاریوں کی حمایت کی ہے۔ قوم پرست جماعت گڈ پارٹی سے تعلق رکھنے والے الیاس اکسوئے نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے، ’یہ کیلے کھانے والے ہمارا مذاق اڑا رہے ہیں اور ہمارے پرچم کی بے حرمتی کر رہے ہیں۔‘
مگر اقلیت نواز پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے ان گرفتاریوں کو ’نسل پرستی‘ سے تعبیر کیا ہے۔
سوشل میڈیا کے کچھ صارفین کا کہنا ہے کہ ’ہم ترکوں کا مذاق نہیں اڑا رہے، ہم نسل پرستی پر طنز کر رہے ہیں۔ معاشی بد حالی ہم سب کو متاثر کر رہی ہے۔‘
شامی صحافی دیمہ شُلر نے، جو استنبول میں رہتی ہیں، بی بی سی کو بتایا کہ زیادہ تر ویڈیوز بے ضرر اور ’محض مذاق‘ ہیں۔ مگر بعض ’ضرر رساں اور اشتعال انگیز‘ ہو سکتی ہیں۔
ترکی میں ریاست، پرچم اور صدر کی بے حرمتی کے خلاف سخت قوانین موجود ہیں۔ شُلر کا کہنا تھا کہ ان بنانا ویڈیوز کے بنانے والوں کے خلاف ان قوانین کے تحت کارروائی کی جا سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بہت سے شامیوں کو خدشہ ہے کہ انھیں ان کے ملک واپس بھیج دیا جائے گا جو ایک دہائی سے خانہ جنگی کی لپیٹ میں ہے۔
شُلر کا کہنا ہے کہ ان ویڈیوز نے ترکی میں پناہ گزینوں کے بحران اور معاشی مسائل سے توجہ ہٹا دی ہے، اور اس کے بجائے ’ہر شخص ٹِک ٹاک کی وڈیوز کی بات کر رہا ہے۔‘
Comments are closed.