- مصنف, چارلی نارتھ کوٹ
- عہدہ, بی بی سی افریقہ آئی
- 40 منٹ قبل
دنیا بھر کے مختلف ممالک کی پولیس نے مغربی افریقہ کے ایک مجرمانہ گینگ کے خلاف مشترکہ خفیہ آپریشن کا آغاز کیا ہے جس کے دوران رواں سال اپریل اور مئی کے مہینوں میں دنیا کے 21 ممالک میں بلیک ایکس گینگ کے خلاف کارروائی کی گئی۔ان کارروائیوں کو ’آپریشن جیکل 3‘ کا نام دیا گیا ہے، جس میں انٹرپول کی زیرنگرانی، اب تک 300 سے زیادہ افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔انٹرپول کے مطابق اگرچہ نائیجریا کے اس بین الاقوامی منظم گروہ کو ’چوٹ‘ پہنچی ہے تاہم تکنیکی صلاحیتوں کی بنا پر اب بھی یہ گینگ ’عالمی خطرہ‘ ہے۔انٹرپول کے فنانشل کرائم اور اینٹی کرپشن سنٹر کے سینئر افسر ٹومونوبو کایا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’وہ بہت منظم ہیں۔‘
کینیڈا میں حکام کے مطابق 2017 میں اسی گینگ سے منسلک ایک ایسی منی لانڈرنگ سکیم پکڑی گئی تھی جس کی مالیت تقریبا پانچ ارب ڈالر سے زیادہ تھی۔2022 میں انٹرپول کی رپورٹ میں دعوی کیا گیا تھا کہ بلیک ایکس اور اس سے ملتے جلتے گروہ دنیا میں زیادہ تر معاشی سائبر جرائم کے ذمہ دار ہیں۔کایا کا کہنا ہے کہ ’پیسوں کے لین دین کے سافٹ ویئر کی جدت سمیت کرپٹو کرنسی ان گروہوں کا کام آسان بناتے ہیں۔‘’یہ گروہ نئی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہیں اور فنٹیک دنیا میں غیر قانونی طریقے سے پیسے کا لین دین آسان بناتا ہے۔‘آپریشن جیکال 3 کی تیاری کئی برس سے کی جا رہی تھی اور اس کے دوران تین سو افراد کو گرفتار کرنے کے علاوہ تین ملین ڈالر مالیت کے غیر قانونی اثاثے ضبط کیے گئے جبکہ 700 سے زیادہ بینک اکاوئنٹ منجمند کیے جا چکے ہیں۔،تصویر کا ذریعہINTERPOL
بلیک ایکس کیا ہے؟
بلیک ایکس نامی مجرمانہ تنظیم کے زیادہ تراراکین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں اور انھیں پڑھائی کے دوران ہی گروہ نے شامل کر لیا تھا۔یہ تنظیم خفیہ طریقے سے کام کرتی ہے اور اسے دنیا بھر میں پیسوں کے عوض قتل کرنے، جسم فروشی اور انسانی سمگلنگ کی وجہ سے بھی جانا جاتا ہے۔نائیجیریا کے اندر بلیک ایکس اپنے حریف ’فرقوں‘ کے ساتھ بالا دستی کی جنگ لڑ رہا ہے۔ اسی طرح کے جرائم پیشہ گروہوں کے ناموں کے ساتھ ‘اے’، ‘بیوکانئیر’، ‘پائیریٹس’ اور ‘میفائیٹس’ جیسے گروہوں کے نام آتے ہیں۔بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق اس گینگ کے اراکین نے کتنے ہی لوگ اپنے حریف گروہوں سے قتل کیے، اور ہر علاقے میں فٹ بال کے سکور کی طرح ان قتل کی وارداتوں اور ان میں ہلاکتوں کے اعداد و شمار کا حساب رکھتے ہیں۔
تاہم سائبر جرائم، جن میں انفرادی سطح پر افراد جبکہ کاروبار کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے، جو اس تنظیم کی آمدن کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔واضح رہے کہ اس تنظیم کے خلاف 2022 سے اب تک ’جیکال‘ نام کے کئی پولیس آپریشن ہو چکے ہیں۔
آپریشن جیکال 3
بین الاقوامی کارروائیوں کے دوران بلیک ایکس کے درجنوں اراکین کو حراست میں لیا گیا اور ان کے الیکٹرانک آلات بھی قبضے میں لیے گئے۔ان کارروائیوں کی مدد سے انٹرپول اب ایک ایسا ڈیٹابیس بنانے میں کامیاب ہوئی ہے جس تک 196 رکن ممالک کی پولیس کو بھی رسائی دی گئی ہے۔کایا کہتے ہیں کہ ’ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم تمام ڈیٹا اور دیگر ممالک سے حاصل ہونے والی معلومات کو ایک جگہ اکھٹا کریں اور اس گینگ کے طریقہ واردات کا خاکہ بنا کر اسے سمجھیں۔‘آپریشن جیکال کا آغاز آئرلینڈ سے ہوا تھا جہاں 2020 میں چند بلیک ایکس اراکین کی گرفتاری کے بعد علم ہوا کہ یہ گروہ حقیقت میں کتنا بڑا ہے۔آئرلینڈ کے پولیس افسر مائیکل کریان کا کہنا ہے کہ ’یہ لوگ بہت چھپ کر کام کر رہے تھے لیکن آئرلینڈ سے لانڈر ہونے والا پیسہ بہت ہی زیادہ تھا۔‘ مقامی پولیس نے بلیک ایکس سے منسلک ایک ہزار افراد کی نشان دہی کی اور اب تک سینکڑوں افراد کو فراڈ اور سائبر کرائم کے الزامات میں گرفتار کیا جا چکا ہے۔کریان کا کہنا ہے کہ ’اب بینک ڈکیتیاں لیپ ٹاپ کی مدد سے کی جاتی ہیں اور ان کا طریقہ بھی بہت جدید ہو گیا ہے۔‘آئرلینڈ کے پولیس افسر مائیکل کریان کہتے ہیں کہ گزشتہ پانچ سال کے دوران آئرلینڈ سے 200 ملین یورو چرائے گئے تاہم ان کے مطابق یہ تخمینہ صرف ان 20 فیصد سائبر جرائم پر مشتمل ہے جن کو رپورٹ کیا گیا۔،تصویر کا ذریعہINTERPOL2023 نومبر میں آئرلینڈ کی پولیس نے انکشاف کیا تھا کہ بلیک ایکس کی جانب سے منی لانڈرنگ کے لیے بڑے پیمانے پر کرپٹو کرنسی کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ ایک کارروائی کے دوران کرپٹو کرنسی میں ایک ملین یورو سے زیادہ لاگت کے اثاثے ضبط کیے گئے۔
بلیک ایکس کو ختم کرنا مشکل کیوں ہے؟
بین الاقوامی کارروائیوں کے باوجود چند ماہرین کا ماننا ہے کہ مغربی افریقہ سے منظم جرائم میں ملوث ان گروہوں سے نمٹنے کے لیے یہ اقدامات ناکافی ہیں۔انسٹیٹیوٹ فار سکیورٹی سٹڈیز کے مغربی افریقہ کے ریجنل کوآرڈینیٹر ڈاکٹر الوویلے اوجیوالے کہتے ہیں کہ ’ضرورت اس بات کی ہے کہ ان گروہوں سے بچا کیسے جائے۔‘واضح رہے کہ نائجیریا، جہاں کرپشن کے خلاف حالیہ ہفتوں میں متعدد احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں، افریقہ کی بڑی معیشتوں میں سے ایک ہے۔ تاہم عالمی بینک کے مطابق ملک کے آٹھ کروڑ سے زیادہ افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اور اسی لیے بلیک ایکس جیسے گروہوں کے لیے کسی کو اپنی جانب مائل کرنا مشکل نہیں ہوتا۔انٹرپول کا کہنا ہے کہ نائجیریا کے حکام اور پولیس کو تربیت فراہم کی جا رہی ہے تاہم کرپشن کے ساتھ ساتھ مقامی حکام اور بلیک ایکس گروہ کے درمیان تعلقات کے الزامات ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔ڈاکٹر اوجیوالے کا کہنا ہے کہ ’سیاست دان ان لڑکوں کی پشت پناہی کرتے ہیں اور ملک میں گورنس کے فقدان نے لوگوں کے لیے اس گینگ میں شمولیت کا راستہ آسان بنا دیا ہے۔‘تاہم انٹرپول نے بھی اب جدید ٹیکنالوجی کا استعمال شروع کر دیا ہے اور ’گوبل ریپڈ انٹروینشن آف پیمنٹس سسٹم‘ کے نام سے ایک نظام متعارف کروایا ہے۔اس نظام کے تحت انٹرپول کے رکن ممالک انتہائی تیز رفتاری سے بینک اکاوئنٹ منجمند کر سکتے ہیں اور حال ہی میں اس نظام کی مدد سے ایک 40 ملین ڈالر کے فراڈ کو روکا گیا جس میں گزشتہ ماہ سنگاپور کے ایک کاروبار کو نشانہ بنایا جا رہا تھا۔انٹرپول کے افسر کایا کا کہنا ہے کہ ’اس تکنیک کی وجہ سے مجرموں کے لیے پیسے کو سرحدیں پار کروانا اتنا آسان نہیں رہے گا۔ تاہم اب بھی بلیکس ایکس سمیت افریقہ سے جرائم میں ملوث گروہوں کے خلاف معلومات اکھٹا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘کایا کہتے ہیں کہ ’اگر ہم نے یہ معلومات حاصل کر لیں تو پھر ہم ان کے خلاف کارروائی کر سکیں گے۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.